جس قوم کا تصور حیات محض حیوانی سطح کا ہو، اس قوم کی
تہذیب اور تمدن، اس کا نظام معیشت و معاشرت کبھی دیرپا نہیں ہوسکتا، وہ قوم
کبھی زندہ اور پائندہ نہیں رہ سکتی، وہ معاشرہ کبھی زمانے کے تقاضوں کا
مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کی سوچ و فکر پر انجانا سا خوف حاوی رہتا ہے۔
اجتماعی فیصلوں کیلئے اس کی قوت ارادی کمزور رہتی ہے، کس بڑے فیصلے کیلئے
اجتماعیت کے اصول کے تحت وہ اپنے اندرونی خوف کے تحت کسی کا کندھا تلاش
کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسی ہی تاریخ رہی ہے کہ کسی بھی بڑے
یا سخت فیصلے کی ذمے داری اٹھانے کیلئے تنہا فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی،
کیونکہ نظام اس قدر نازک دور کا شکار ہے کہ کسی بھی فیصلے کے اثرات میں
ناکامی کا تصور ، کمزور فیصلوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔
اس امر کو سمجھنے کیلئے ہمیں انسانی اور حیوانی حیات کو سمجھنا ہوگا،
حیوانی حیات و جبلت سے زندگی کی غایت اور فیصلہ سازی کے تصور کو سمجھا جا
سکتا ہے۔ انسان کو ایک خصوصیت حاصل ہے وہ صنعت اور آرٹ دونوں سے بخوبی
واقف ہوتا ہے۔ انسان، انسان بننے کیلئے حیوانی حیات سے دور رہنے کی کوشش
کرتا ہے لیکن بعض اوقات وہ حیوانی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے، حیوانی سطح
زندگی دَوری کی ہوتی ہے یعنی ایک حیوانی بچے کی غایت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے
ماں باپ جیسا حیوان بن جائے اور پھر اپنے جیسا ایک اور حیوان پیدا کردے، اس
میں آگے بڑھنے اور بلند ہونے کا تصور نہیں ہوتا، اس میں زندگی ایک ہی مقام
پر گردش کرتی رہتی ہے، آگے نہیں بڑھتی۔ جب کہ انسان اپنے فیصلوں سے معاشرے
کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس میں غور و فکر کی قوت کا دخل زیادہ
ہوتا ہے کہ اگر غور و خوض و تدبر نہ ہو تو اس کے فیصلے تباہی کیلئے کافی
ہیں۔
حیوان اپنے ماحول کو بدلنے پر قدرت نہیں رکھتا، وہ اپنے آپ کو ماحول کے
مطابق ڈھال لیتا ہے حیوان اپنے جبلی تقاضوں کے مطابق چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اس دو امکانی چیزوں میں سے کسی ایک کے چن لینے اور دوسروں کو اپنی مرضی سے
چھوڑ دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ جبکہ انسان کے فیصلے ہی ماحول کو اپنے مزاج
کے مطابق ڈھالنے کیلئے کافی ہوتے ہیں، اپنے فیصلوں کے تابع یہ حضرت انسان
ہی ہے جس کی مرضی اس کے فیصلوں کے مطابق ہوتی ہے۔ یہی انسان ہی ہے کہ جس کے
فیصلوں پر طاقت ور انسان کے فیصلے بھی مسلط کئے جا سکتے ہیں، کمزور اور
طاقت ور کے درمیان فیصلہ ساز ی کا توازن طاقت کے بل بوتے پر کیا جاتا ہے،
کمزوروں کے درمیان فیصلے مفاہمت کے اصول کے تحت ہو جاتے ہیں جب طاقت ور کے
درمیان فیصلے قوت کے مطابق طے ہوتے ہیں، اس میں انسان ہی فیصلہ کرتا ہے کہ
وہ کتنا طاقت ور یا کمزور ہے۔
انسان بعض اوقات نقالی میں تقلید کا پابند بن جاتا ہے لیکن یہ اس کا
اختیاری فعل ہوتا ہے لیکن حیوان فطری تقاضوں کے مطابق تقلید کا پابند ہوتا
ہے وہ اسلاف کا راستہ چھوڑ دینے کا اختیار نہیں رکھتا، بکری کا بچہ اسی
راستے پر چلے گا جس راستے پر اس کے آباو اجداد چلتے تھے، وہ عقل و فکر سے
اپنے لیے کوئی نئی راہ تراش نہیں سکتا، اس کیلئے اس کے آبا و اجداد چلتے
تھے، بکری گوشت اور شیر گھاس کھانا شروع نہیں کرے گا، کیونکہ یہ ان کی فطرت
نہیں اس کیلئے جدت ِ کردار یا ندرت ِ افکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ
سب اس لیے ہوتا ہے کیونکہ حیوان، انفرادی زندگی بسر کرتا ہے، یعنی وہ محض
اپنی خاطر جیتا ہے کسی دوسرے کے خاطر نہیں۔ ایک بیل درد سے تڑپ رہا ہو، اس
کے ساتھ بندھے ہوئے بیل کو اس کا احساس تک نہ ہوگا کہ اسے کیا ہو رہا ہے
اور یہ اس کیلئے کیا کر سکتا ہے، اگر وہ گلّے کے اندر رہتا ہے تو وہ بھی اس
لیے کہ وہ اس طرح زندگی بسر کرنے میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے،
اس کی نزدیک حفاظت ِ خویش سے بلند کوئی مقصد ہوتا ہی نہیں۔ لیکن انسان خود
کو محفوظ رکھنے کیلئے حیوانوں اور درندوں سے بچنے کے تمام حاصل وسائل کے
ساتھ کوشش کرتا ہے اس کا مطمع نظر اپنے جان کو بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے قرب
و جوار، رشتے دار، عزیز داران، خاندانوں، قبیلوں اور ملک و قوم کو بچانے کا
تصور عملی طور پر ہوتا ہے، اس کی نزدیک حیوان نما انسان کو قوت کے تابع
ہونا چاہے یعنی جس کے ہاتھ میں ڈانڈا ہو وہ اس کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ
بن جاتا ہے۔
حیوانی سطح زندگی کے ان نمایاں خدو خال کے تحت انسان کو انسان کے درجے پر
رکھنا اور انسانوں کو حیوانات کے مانند سمجھنے میں اس امر کا ادراک ضروری
ہے کہ کیا انسان حیوانی طرز حیات اختیار کرکے پست سطح پر تو نہیں جا پہنچا،
مثلاً ایک بیل جب چارہ کھا رہا ہو تو وہ کسی دوسری بیل کو قریب نہیں آنے
دے گا، خواہ اُس کی بھوک اس سے کتنی ہی زیادہ شدید کیوں نہ ہو۔ یہ حیوانی
سطح زندگی ہے لیکن جب اس بیل کا پیٹ بھر جائے تو وہ آرام سے بیٹھ کر جگالی
کرنے لگ جاتا ہے اور اسے اس کی قطعاً فکر نہیں ہوتی کہ باقی ماندہ چارہ کو
کون ضرورت مند کھا گیا لیکن انسان اپنی ضرورت سے زیادہ اشیا ء کو تقسیم
کرنے کے بجائے ذخیرہ کر لیتا ہے تاکہ کسی کی تکلیف اور درماندگی کا فائدہ
اٹھایا جا سکے، اس کی قسم کی زندگی کو حیوانوں سے بھی پست زندگی قرار دیا
جاتا ہے۔
اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلوں
کرنے کیلئے سیاسی اجتماع کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ملک
و قوم کیلئے اتفاق رائے سے متعدد فیصلے کرنے ہیں، بدترین معاشی بحران کی
شکار پاکستانی عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی ترجیحات حیوانی سطح پر
مجبور اس طرح تو نہیں جنہیں دنیا وہیں تک دکھائی دیتی ہے جہاں تک ان کی
بینائی کام کرتی ہے یا پھر ایک انسان بن کر اس قوت فکر و فیصلے کی وسعت
وہاں تک ہے جہاں حدود کا تعین فیصلوں کی قوت سے کیا جاتا ہے۔ ذاتی انا یا
سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کئے جانے
والے فیصلے درست راہ متعین کر سکتے ہیں اگر ان کے جذبات اپنے ملک و قوم کے
ساتھ مخلص ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے فروعی مفادات کیلئے ایسے فیصلے کرتے
ہیں یا ناکام رہتے ہیں تو فیصلہ کرلیں کہ ہماری سطح حیات کس نہج پر ہے۔
|