اِس اجڑے ہوئے گُلستاں میں ہر چیز برائے فروخت دستیاب ہے،
ضمیر، اعتماد یقین، امانت و دیانت، عظمت وعصمت، انسانیت و وقار ، پروفیشن
اور حتی کہ قلم جو کہ خیالات ، جذبات کو درہم برہم اور حقیقتوں کے دھارے کو
منفی سے مثبت اور مثبت سے منفی جانب موڑنے کی کماحقہ قوت رکھتا ہے۔ بس فرق
صرف یہ ہے کہ کچھ افراد سستے داموں میں بِک جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے بھاؤ
بہت زیادہ ہوتے ہیں اور انہیں خریدنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے
ہیں، بہرحال بِک وہ بھی جاتے ہیں۔
ضمیر فروشی کے بازار اور ان کی بولیاں تو کہیں بار لگتی دیکھیں ہوں گی لیکن
آجکل ان پارساؤں کی بستی سے بآسانی قلم خریدے جاتے ہیں۔ جس کی نوک کا رُخ
آپ جس مرضی جانب موڑ سکتے ہیں۔ پڑھنے والوں کو سبز باغ دیکھا کر رنگین
خوابوں کی دنیا میں لے جا سکتے ہیں اور رنگین خواب میں مست اذہان کو سنگین
حقیقتوں سے روشناس کروا سکتے ہیں۔ چاہے توسکون کی جھیل میں خوف کے کنکر
پھینک کر ہراس کی لہریں بھی پیدا کر سکتے ہیں اور خوف سے مغلوب و قلوب
اذہان کو ہلہ شیری دے کر کسی بھی ظالم و جابر سے لڑوا سکتے ہیں،جس کا نتیجہ
چاہے کچھ بھی ہو۔
آپ اگر کرپٹ سیاستدان ،کرپٹ اور رشوت خور بیوروکریٹ ، مردہ ضمیر،ناجائز
فائدہ لینے والے اور بمعہ رشوت خور افسران، حتی کہ ضمیر فروش، بے ایمان ،
ٹھگباز، اپنے کام میں غفلت کوتاہی برتنے والے اور وقت ٹپاؤ کی پالیسی
اختیار کرنے والے کرپٹ افراد ہیں تو یہ قلم آپ کے لئے بے حد مفید ثابت ہو
سکتا ہے۔ یہ آپ کے اِن تمام عیبوں، ذاتی خامیوں ،فطری کجیوں اور بشری
کمزوریوں پر تاویلات کا خوشنماء پردہ ڈال کر آپ کو فرشتہ ثابت کرسکتا ہے۔
اتنا ہی نہیں جناب! قلم تو اپنے فسوں سے بھولی بھالی عوام کو آپ کا دیوانہ
بنا کر حالات کے لَق و دق، سنسان صحرا میں لہلہلاتے جانفرا نخلستان دیکھا
سکتا ہے۔ اور انہیں گمراہ کرنے کے لئے آسمان سے من و سلویٰ اترنے کی نویدیں
سنا سکتا ہے جو کہ 75سالوں سے روٹی، کپڑا ،مکان کا لائحل مسئلہ آئندہ کئی
سال تک خوش گمانیوں کی دھند میں گم ہو سکتا ہے۔آپ ایک دفعہ قلم خرید کر تو
دیکھئے،پھر نہ کہیۓ گا کہ خبر نہیں ہوئی، بڑھ چڑھ کر بولی لگائیں۔
(ایک رُخ یہ بھی) ہم تو اس ملک کے باشندے ہیں جہاں کی سرکار بذات خود ضمیر
فروشوں اورقلم کے سوداگروں کو فروغ دیتی آرہی ہے ان کی قیمتیں قومی خزانے
سے چکائی جاتیں ہیں۔اور ان کی خرافات کو ایمان کا درجہ دینا ہر دور کی حکمت
عملی رہی ہے۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں ایسے راست کو مفکرین، انصاف
پسند، حق پرست، قلمکاروں اور باضمیر صحافیوں کو غدار، ملک دشمن اور ملحد
ثابت کرنے کی کوشش بھی کبھی کم نہیں ہوئی۔ ہر ذی شعور شخص ان باضمیروں، حق
پرستوں اور ان سوداگروں، ضمیر فروشوں کے بڑے بڑے ناموں سے بخوبی واقف ہیں
لیکن کیا بنے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم تو پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو کچھ
نہیں بگاڑ سکے، بِکنے والوں کا کیا بگاڑ لیں گے؟ ہم تو غدار ،ضمیر فروشوں
کو میڈل اور تمغے دینے والی قوم ہیں اور پھر بے شرمی سے کہتے ہیں کہ ہم
ہرگز ایک ناکام ریاست نہیں ہیں۔
|