اس وقت موجودہ عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دنیا
ایک صدی کی بڑی ان دیکھی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور پہلے سے مختلف تنازعات
میں گھری دنیا کو عالمگیر وبا نے مزید سنگین مسائل سے دوچار کر دیا
ہے۔مسئلہ یوکرین کی بات کی جائے یا پھر دیگر عالمی تنازعات کی ، مختلف
سیکورٹی چیلنجز یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں اور مجموعی طور پر عالمی
ترقیاتی عمل کو شدید دھچکا لگا ہے۔عہد حاضر میں ان تمام مسائل سے نمٹنے اور
دنیا کو ایک مرتبہ پھر ترقی و خوشحالی کی پٹڑی پر لانے کے لیے سلامتی و
استحکام کی ضرورت آج کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔لیکن سوال یہی ہے کہ
عالمی سلامتی کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے ؟ یقیناً اس عمل میں دنیا کی
اہم طاقتوں کا کردار انتہائی نمایاں ہے جن میں امریکہ ،چین،روس جیسے بڑے
ممالک شامل ہیں۔
چین کا شمار بھی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جو ہمیشہ عالمی سطح پر سلامتی
کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب بین
الاقوامی سلامتی کی صورتحال گہری اور پیچیدہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور
دنیا ابتری اور تبدیلی کے نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، اس اہم تاریخی موڑ
پر چین کی جانب سے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) پیش کیا گیا ہے
جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام ممالک ایک مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی
اور پائیدار سلامتی کے تصور پر عمل پیرا ہوں، ہر ملک کی خودمختاری اور
علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے، اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کی
پاسداری کی جائے، تمام ممالک کے مناسب سیکورٹی خدشات پر توجہ دی جائے، اور
بات چیت اور مشاورت کے ذریعے ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو حل
کیا جائے، امن کو برقرار رکھنے کے لئے ذمہ داری کا اشتراک کیا جائے، پرامن
ترقی کے راستے پر چلا جائے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے قیام کے
لیے مل کر کام کیا جائے۔
انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے چین کی جانب سے منگل کے روز " گلوبل
سیکیورٹی انیشی ایٹو کانسیپٹ پیپر" جاری کیا گیا ہے جس میں عالمی سلامتی
اور امن کے بارے میں بنیادی تصورات اور اصولوں کو پیش کیا گیا ہے۔اس
دستاویز کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چین سمجھتا ہے کہ عالمی سلامتی کے
چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مزید منظم نقطہ نظر اور زیادہ عملی اقدامات کی
ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی جانب سے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو
کانسیپٹ پیپر لانچ کیا گیا ہے، جس میں دیگر ممالک کی فعال شرکت کا خیرمقدم
کیا جائے گا۔
جی ایس آئی ایک متوازن، موثر اور پائیدار سیکورٹی ڈھانچے کے قیام کو فروغ
دینے کی وکالت کرتا ہے۔ یہ بین الاقوامی تنازعات کی بنیادی وجوہات کے سدباب
اور دنیا میں پائیدار استحکام اور سلامتی کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ پیش
کرتا ہے۔
جی ایس آئی کی ایک بڑی خوبی ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح سے
متصادم تمام "گینگ رولز" کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ تمام ممالک سے اقوام متحدہ
کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پابندی کا بھی مطالبہ کرتا ہے، متروک زیرو
سم گیم اور گروہی محاز آرائی کو مسترد کرتا ہے۔اس کے برعکس پیچیدہ اور
گھمبیر سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مفاد کی ذہنیت کی حمایت
کرتا ہے، اور تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظر نامے کے مطابق خود کو
ڈھالنے کے لیے یکجہتی اور کثیرالجہتی کے جذبے کی حمایت کرتا ہے۔یہ کہا جا
سکتا ہے کہ تصادم، گروہ بندی اور زیرو سم نقطہ نظر کی بجائے یہ انیشیٹو
مکالمہ، شراکت داری اور سودمند تعاون کے فروغ کی تصویر ہے۔
جہاں تک چین کے کردار کی بات ہے تو چین امن پسند اور جنگ مخالف ملک ہے۔چین
نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی امن کا پرعزم معمار ہے۔ ایک
بڑی طاقت کے طور پر، چین کا عالمی امن اور سلامتی میں بہترین ٹریک ریکارڈ
ہے، کیونکہ چین نے نہ تو کبھی جنگ بھڑکائی ہے، نہ ہی کسی دوسرے ملک کی ایک
انچ سرزمین پر حملہ کیا ہے اور نہ ہی کسی "پراکسی جنگ" میں ملوث رہا ہے۔
چین دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے آئین کی روشنی میں پرامن ترقی کی راہ پر
گامزن ہے۔چین نے بین الاقوامی نظم و نسق کے مستقل محافظ کے طور پر، تقریباً
تمام بین الحکومتی تنظیموں اور 400 سے زائد کثیرالطرفہ معاہدوں میں شمولیت
اختیار کی ہے۔چین اقوام متحدہ کے واجبات کی بروقت ادائیگی سمیت قیام امن کی
کوششوں میں تعاون کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جو اقوام متحدہ کے امن دستوں
کے لیے 50 ہزار سے زائد فوجی اہلکار بھیج چکا ہے۔ کمبوڈیا، جمہوریہ کانگو
(ڈی آر سی)، لائبیریا، سوڈان، لبنان، قبرص، جنوبی سوڈان، مالی، وسطی افریقی
جمہوریہ، وغیرہ سمیت 20 سے زائد ممالک اور خطوں میں چینی امن فوجیوں نے
اپنے قدموں کے نقوش چھوڑے ہیں۔ چینی امن دستوں نے تنازعات کے پرامن تصفیے
کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئےعلاقائی سلامتی اور استحکام کو
برقرار رکھا ہے ، اور اپنی تعیناتی والے ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی
کو فروغ دیا ہے ۔
چین اس وقت بھی ہاٹ اسپاٹ مسائل کے حل کے لیے فعال ثالث کا کردار بخوبی
نبھا رہا ہے، امن مذاکرات اور سیاسی تصفیوں کے ذریعے تمام فریقوں کے جائز
خدشات کو دور کرنے اور ایک متوازن حل کی مسلسل وکالت کر رہا ہے، علاقائی
اور بین الاقوامی تناؤ کو کم کرنے میں بھی چین کا تعمیری کردار دنیا کے
سامنے ہے۔یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی امن کے ایک مضبوط محافظ
کے طور پر چین دنیا میں مستقل قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے اور دنیا کے اہم
ممالک سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
ایک محفوظ اور پرامن دنیا کے لیے مشترکہ اقدامات کریں جس سے آنے والی نسلوں
کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
|