وزیر اعظم نریندر مودی کی ایوان بالہ میں تقریباً ڈیڑھ
گھنٹے کی تقریر کے دوران حزب اختلاف مسلسل نعرے بازی کرتا رہا۔ اس پر مودی
جی بہت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئے کیونکہ وزیر اعظم اس سے قبل ’ہرہر مودی گھر
گھر مودی ‘ جیسے نعرے سننے کی عادت لگ چکی ہے ۔ عام طور وزیر اعظم کا
استقبال’مودی مودی ، مودی مودی ‘ کی ہیجانی گونج سے ہوتا ہے مگر اس بار
ماحول بدلا ہوا تھا ۔ ’مودی،اڈانی بھائی بھائی‘ کا نعرہ لگ رہا تھا۔ اس کے
علاوہ ایوان میں ’اڈانی پر منہ تو کھولو، کچھ تو بولو کچھ تو بولو‘ اور
’اڈانی پر جواب دو، جواب دو‘ کا زبردست شور سنائی دے رہا تھا ۔متحدہ حزب
اختلاف کی اس یلغار پر وزیر اعظم مودی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جتنا
کیچڑ اچھالو گے، کمل اتنا ہی کھلے گا۔ یہ بات درست ہے کہ کمل کیچڑ میں
کھلتا ہے لیکن حزب اختلاف کی پریشانی یہ تھی کہ مودی جی پر اڈانی کی
بدعنوانی کے کیچڑ میں کمل کھلانے کا جو الزام ہے اس پر انہوں نے خاموشی
اختیار کر رکھی تھی اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مانند کہہ رہے تھے
تکلیف ان لوگوں کو ہو رہی ہے جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ لیکن وہ صاف
کرنا چاہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کمزور نہیں پڑے گی۔اپوزیشن بھی
تو یہی کہہ رہا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف اس جنگ کا دائرہ بڑھا کر اس میں
اڈانی کو شامل کیا جائے۔
وزیر اعظم اس سے قبل ایوان زیریں میں یہ کہہ کر اپنی انتقامی کا رروائی کا
اعتراف کرلیا تھا کہ ’ای ڈی‘ نے سارے حزب اختلاف کو متحد کردیا ہے لیکن
سوال یہ ہے ’ای ڈی ‘ اور سی بی آئی‘ آخر اڈانی کے قریب جانے سے اتنا ڈرتے
کیوں ہیں؟ وزیر اعظم اگر یہ اعلان کردیتے کہ تحقیق کے لیے فلاں فلاں کی
قیادت میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ہوگی یا سپریم کورٹ کو تفتیش کی
نگرانی کے لیے کہہ دیا گیا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے
تو لوگ ان کی تعریف میں نعرے لگاتے اور آسمان سر پر اٹھا لیتے لیکن انہوں
نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔مودی جی نے پہلے تو اپنی حکومت کی تعریف میں کہا
کہ’’ ہماری حکومت وہ حکومت نہیں ہے جو صرف منصوبے بناتی ہے بلکہ زمین پر
اسے اتارتی بھی ہے‘‘ یہ بیان درست ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ وہ اپنے
ہوائی منصوبوں کو اڈانی کے ہوائی اڈوں پر اتارتی ہے اور ان کو فائدہ
پہنچاتی ہے۔یہ منصوبے اڈانی کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں اور پانی میں تیرتے
نظر آتے ہیں ۔
کیا یہ محض اتفاق ہے ایل آئی سی اور ایس بی آئی اڈانی کی قرضدار کمپنیوں
کے حصص اونچے داموں پر خریدنے سے نہیں ہچکچاتے بلکہ بے دھڑک ان میں سرمایہ
کاری کرتے چلے جاتے ہیں۔ سارے اہم ٹھیکے اڈانی جی کے کھاتے میں چلے جاتے
ہیں یہاں تک کہ دھاراوی کی جھونپڑپٹی ڈیویلپمنٹ کے لیے بھی اڈانی کی راہ
ہموار کردی جاتی ہے ۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی حکومتوں کو بجلی بھیجنے کا
منصوبہ بھی مودی جی بناتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کے لیے اڈانی جی کی
ضرورت پیش آتی ہے۔ شمسی توانائی کے لیے مختص خزانے کی بیشتر رقم اڈانی
گرین کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ کوئلے کی دلالی ہوتو اڈانی جی کے ہاتھ کالے
ہوتے ہیں اور منشیات کے بڑے ذخیرے پر چھاپہ پڑتا ہے تو وہ بندرگاہ بھی
اڈانی کے زیر اہتمام ہوتی ہے لیکن سارے معاملات دبا دیئے جاتے ہیں۔ مودی جی
اگرسرکار کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے دو چار ایسے بڑے منصوبوں کا ذکر
بھی فرمادیتے کہ جن میں اڈانی موجود نہ ہوں تو ایوان پارلیمان کے علاوہ
عوام کو بھی اطمینان ہوجاتا کہ سب کا نہ سہی مگر اڈانی کے علاوہ کچھ اور
لوگوں کا تو وکاس(ترقی) تو سرکار کررہی ہےلیکن نہیں ،جس طرح سیاست میں صرف
ایک نام ویسے معیشت میں بھی صرف ایک کاکام یعنی اڈانی اور صرف اڈانی ۔ اسی
لیے مودی اڈانی بھائی بھائی کا نعرہ لگتا تھا۔
ہندوستانی سیاست کے اندر ایوان پارلیمان میں ہنگامہ آرائی دراصل بی جے پی
کاوردان ہے۔ 2004 سے قبل صدر کے خطبے پر سنجیدہ مباحث ہوتے تھے مگر اٹل
بہاری واجپائی کی حکومت کے گرنےکا صدمہ بی جے پی برداشت نہیں کرسکی اور
بلبلا اٹھی۔ اس نے ایوان پارلیمان کی کارروائی میں شور شرابہ کرکے روڈا
اٹکانے کو اپنا شعار بنالیا ۔ اڈوانی جی کی قیادت میں سشما سواراج اور ارون
جیٹلی اس کام میں پیش پیش رہتے اور جب ان سے استفسار کیا جاتا تو وہ اس کو
پارلیمانی حکمت عملی کا حصہ کہہ کر جواز فراہم کرتے۔ منموہن سنگھ ایک
سنجیدہ وزیر اعظم تھے ۔ وہ بڑی متانت سے ایوان کے پورے اجلاس میں شریک ہوتے
۔ سارے لوگوں کی باتیں سنتے اور سوالات و اعتراضات نوٹ کرکے ان کا نام بنام
جواب دیتے۔ منموہن سنگھ کے بعد جب مودی اقتدار میں آئے تو بی جے پی والوں
کی عادت نہیں بدلی ۔ یہ لوگ بھول گئے کہ اب ایوان کو چلانا ان کی ذمہ داری
ہے۔ اس کے بعد یہ عجیب منظر بھی سامنے آنے لگاکہ جس میں حزب اقتدار کے
ارکان شور شرابہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ وقت کے ساتھ کانگعیس اور دیگع مخالف
جماعتوں نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرلی اور اب یہ دوائی بی جے پی کو
کڑوی لگنے لگی ہے۔
اپوزیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت پر سوال اٹھائے اور تنقید کرے اس کے
بغیر اصلاح ناممکن ہے۔ اس کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہو تب بھی وہ ہنگامہ
کرسکتا ہے اور ایسا ہو تب تو اس کے ردعمل لازمی ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
وزیر اعظم مودی کی تقریر کے شروع سے آخر تک ایوان میں مودی۔اڈانی بھائی
بھائی کا نعرہ گونجتا رہااور انہیں اپنا سینہ ٹھونک کر کہنا پڑا کہ آج ملک
دیکھ رہا ہے کہ ایک اکیلا کتنوں پر بھاری پڑ رہا ہے۔ میں ملک کیلئے جیتا
ہوں، ملک کیلئے کچھ کرنے کو نکلا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ وہ اکیلے کیوں ہیں؟ ان
کے ساتھ عوام، پارٹی یا کابینہ کیوں نہیں ہے؟ایک اڈانی کے لیے انہوں نے کس
کس کا ساتھ گنوا دیا ہے؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں
پھوڑ سکتا ۔وزیر اعظم کی کھوکھلی تقریر پر ’ تھوتھاچنا باجے گھنا‘والا
محاورہ خوب صادق آتا ہے۔ ایوان پارلیمان میں اس بار حزب اختلافب کے
رہنماوں کی تقاریر ذرائع ابلاغ میں خوب چھائی رہیں۔ اس کے مقابلے معاملہ
مودی سمیت سبھی بی جے پی والوں کا معاملہ پھیکا رہا۔ شاہ یا رجناتھ بھی
کوئی ایسی قابلِ ذکر بات نہیں کہہ پائے جو اخبارات کی سرخی بن سکے۔ وزیر
اعظم اور ان کے ساتھیوں کی یاوہ گوئی پر فراق جلالپوری کا یہ شعر صادق آتا
ہے؎
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی روایت کے مطابق اس بار بھی ہتھیار ڈال دئیے
اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لیا ۔ اس سے قبل جب کورونا کے سبب ملک
بھر میں آکسیجن کا بحران پیدا ہوگیا تھا تو وزیر اعظم اچانک ٹیلی ویژن کے
پردے سے غائب ہوگئے تھے۔ گنگا میں تیرنے والی لاشوں پر افسوس کا اظہار کرنے
والی ایک ٹویٹ تک انہوں نے کرنا ضروری نہیں سمجھا مگر پھر حالات قابو میں
آگئے تو’آپدا میں اوسر‘ یعنی مشکل میں موقع تلاش کرکے میدان میں آگئے۔
اسی طرح چین نے گلوان میں حملہ کردیا تو انہیں سانپ سونگھ گیا۔ بات چیت کے
بعد جب حالات ٹھیک ہوگئے تو ٹیلی ویژن کے سامنے کہہ دیا نہ کوئی آیا ہے
اور نہ آئے گا ۔ یہ ان کی بہت پرانی عادت ہے گجرات میں جب وہ وزیر اعلیٰ
تھے تو ان کے پڑوس میں واقع اکشر دھام مندر پر حملہ ہوگیا۔ وہ اس وقت گھر
میں بیٹھے رہے جب تک کہ آپریشن ختم نہیں ہوا۔ اس کے بعد چھپن انچ کا سینہ
پھلا کر باہر آئے اور لمبا چوڑا بیان دے دیا ۔ اس بار بھی دنیا بھر کی اوٹ
پٹانگ کہانی سنائی مگر اڈانی کی بدعنوانی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
وزیر اعظم نے جن سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا ان کی ایوان کے ریکارڈ
میں موجودگی حکومت کو شرمسار کرنے والی تھی اس لیے اسپیکر نے راہل اورکھرگے
کی تقاریر کے کچھ حصوں کو ہذف کرنا شروع کردیا۔ اس سے حزب اختلا ف کو نئے
سرے سے سرکار پر تنقید کرنے کا موقع مل گیا ۔ ایوانِ بالا میں کانگریس کے
صدر ملکارجن کھرگے نےکہا تھا کہ وزیر اعظم کے سب سے قریبی دوستوں میں سے
ایک کی ملکیت ڈھائی سال میں بارہ گنا بڑھ گئی۔ 2014 میں یہ 50000 کروڑ روپے
تھی، جبکہ 2019 میں یہ ایک لاکھ کروڑ روپے کا گروپ بن گیا، ایسا کیا جادو
ہوا کہ اچانک دو سال میں 12 لاکھ کروڑ روپے کی ملکیت آ گئی۔ کہیں یہ دوست
کی مہربانی تو نہیں ہے۔ اس کے نکالے جانے پر احتجاج کرتے ہوئےکھرگے نے کہا
کہ ’’میں نے کچھ بھی غیر پارلیمانی نہیں کہا ہے، اس لیے میری تقریر کو بحال
کیا جانا چاہیے۔‘‘ کانگریس رکن پارلیمنٹ پرمود تیواری کے مطابق سابق وزیر
اعظم اٹل بہاری واجپئی نے سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے لیے اسی طرح کے
الفاظ کا استعمال کیا تھا لیکن بی جے پی کا معاملہ کہ رہے بانس نہ بجے
بانسری یعنی نہ ہوں سوال اور نہ آئے جواب لیکن ایوان پارلیمان کے ریکارڈ
میں لکھا ہے اور کیا نکال دیا گیا اس سے اہم یہ ہے کہ عوام کے ذہن پر کیا
نقش ہوگیا ہے۔ گودی میڈیا کے جاہل لاکھ کوشش کے باوجود اسے کھرچ نہیں سکتے
کیونکہ بقول استاد ذوقؔ؎
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
|