اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اور بیوی کیا مانگے شوہر کی بے
پناہ محبت ۔۔۔ وہ محبت جس کے درمیان کوٸی دوسرا نہ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے
جب دو لوگ اسطرح ایک ہو جاٸیں کہ ایک دوسرے کی ہستی کا سامان بن جاٸیں ۔
الحمد لله! میرے مجازی خدا مجھ سے ایسی ہی لامحدود محبت کرتے ہیں۔ ان کی اس
محبت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں نے جانا کہ وہ مجھے اپنے وجود کا ایک
حصہ سمجھتے ہیں ۔جی۔۔۔ وہ مجھے ”خود“ پکارتے ہیں ۔ نہیں یقین آیا نا آپ
کو۔۔۔ ابھی ٹہرٸیے۔۔۔ اور اتنی حیرت میں مبتلا نہ ہوں ۔۔۔ رشک بھی کچھ دیر
بعد کر لیجٸیے گا کیونکہ وضاحت تو ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔۔
تو جناب اب سنیٸے کہ کیوکر مجھ جیسی ناچیز اپنے شوہر کے لیے ان کی ذات ہی
بن بیٹھی۔۔۔ دراصل جب بھی میں اپنے شوہر کو کسی کام کی یاد دہانی کرواتی
ہوں تو جواب : ” فکر نہ کرو 'خود' کر لوں گا“ ۔ اگر کوٸی کریگر یا مستری
گھر آیا ہو اور میں بھی کسی کام کو کہوں تو جواب: ” ابھی رہنے دو، بعد ازاں
'خود' کروں گا“ ۔ کچھ جو بازار سے لانے کا کہہ دوں تو جواب: ” دراصل ابھی
تو ممکن نہیں، کسی اور وقت 'خود' لا دوں گا “۔ اور جب بازار میں ہوں اور
میں فون پر استدا کروں کہ راستے سے ”یہ“ بھی لیتے آٸیے گا تو جواب : ” ابھی
تو مشکل مگر بعد میں 'خود' تمہیں لا کر دوں گا “۔ گر کچھ لاپتہ ہو گیا ہو
اور اسے ڈھونڈنا مقصود ہو تو جناب : ” اچھا تو اب 'خود' ہی ڈھونڈ لیتا ہوں“
بچوں کا کوٸی کام کرنا ہو تو جناب کا جواب: ” بیٹا یہ تو 'خود' ہی کروں
گا“۔ اور اگر کبھی جو میں اپنی تھکاوٹ یا مصروفیات کا ذکر کروں تو تسلی کے
ساتھ : ” اب سے یہ یہ کام 'خود' کیا کروں گا“ ۔۔۔ بس یہ ہیں وہ چند باتیں
جن سے میں اپنے شوہر کی بےحد محبت کی حد کو سمجھ پاٸی ۔
رفتہ رفتہ ہم ان کی ہستی کا ساماں ہوگٸے
پہلے آپ ۔۔۔ پھر تم۔۔۔ اور اب 'خود' ہو کٸے
|