حلقہ این اے 57میں 16مارچ کو ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ سابق ایم این اے صداقت علی عباسی کے استعفی کی وجہ
سے خالی ہو گیا تھا جس پر اب دوبارہ الیکشن ہو رہے ہیں اس حلقے پر شروع ہی
سے مری والوں نے اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے کبھی شاہد خاقان عباسی کبھی صداقت
عباسی اور کبھی کوئی دوسرا عباسی کہوٹہ اور خاص طور پر کلرسیداں کے علاقے
کو تو صرف اس حلقے کی ایک چھوٹی سی ٹہنی سمجھا جا رہا ہے جس کی بڑے سیاسی
رہنماؤں کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے زیادہ عرصہ یہاں سے شاہد خاقان
عباسی ہی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں عام اتنخابات 2018میں پی ٹی آئی کے
صداقت علی عباسی نے ن لیگ کے بہت پرانے برج کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے خود
بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی شاہد خاقان عباسی کی شکست کی بڑی وجہ
اپنے حلقے پر توجہ نہ دینا عوام کو صرف زبانی جمع خرچ پر ٹرخانہ جیسے
معاملات بنی تھی ہونا تو یہ چاہیئے تھا پانچ سال کے دھکے کھانے کے بعد شاہد
خاقان عباسی کو اپنے حلقے کے عوام کے دکھوں کا مداوہ کرکے دوبارہ ان کے
دلوں میں اپنی جہگہ بنانا چاہیئے تھی لیکن آج بدقسمتی سے ان کیلییے صورتحال
پہلے کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے وہ خود تو الیکن میں حصہ لینے کے
قابل ہی نہیں ہیں اب وہ صرف فرضی کاروائی ڈالنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور
کھلے میدان میں نہیں بلکہ چھپ کر سیاست کر رہے ہیں عوام کا سامنا کرنا ان
کے بس سے باہر ہو گیا ہے جبکہ ان کے مد مقابل صداقت علی عباسی آج بھی سینا
کھول کر عوام کے درمیان موجود ہیں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ ملک کے سابق
وزیر اعظم چھپتے پھر رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں ایک عام ایم این اے
صداقت عباسی عوام کے دکھ درد میں شامل ہو رہے ہیں اور موجودہ حالات ایک بار
پھر ان کے راہ ہموار کیئے بیٹھے ہوئے ہیں ن لیگ کیلیئے اس سے برا وقت اور
کیا ہو سکتا ہے کہ وفاق میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود وہ اپنے امیدواروں
کو ٹکٹ جاری کرنے سے خوف زدہ ہیں انہوں نے مہنگائی کی صورت میں عوام کا جو
بھرکس نکالا ہے ان کو اس بات کی مکمل علم ہے ہے عوام ان کے امیدواروں کو
ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ چھپتے پھریں گے ان کو چھپنے کی جہگہ کہیں نہیں
ملے گی اس بات کا قوی یقین ہے کہ ن لیگ الیکشن سے بھاگ جائے گی ان کے
کارنامے عوام کو مرنے پر مجبور کر رہے ہیں وہ کس منہ سے عوام کا سامنا کریں
گے بہر حال اس حلقہ سے بہت سی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے الیکشن میں
حصہ لینے کا اعلان کر کھا ہے جن میں سے تحصیل کلرسیداں سے اکلوتے امیدوار
راجہ ندیم نے بھی ن لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان
کیا ہے جبکہ پارٹی کی طرف سے ان کو کوئی رسپانس نہیں دیا جا رہا ہے شاہد
خاقان عباسی اور راجہ صغیر کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو اعتماد میں
لیں مانا کہ عرصہ دراز سے مری کہوٹہ کے علاوہ بھی کلرسیداں سے کسی امیدوار
نے اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے جو پرانے قابضین کو بہت برا لگ
رہا ہے لیکن پھر بھی راجہ ندیم کا سیاسی میدان میں کوئی وجود ہے جس کو
تسلیم کرنا پارٹی کے حق میں بہت بہتر ہو گا اب جبکہ ن لیگ الیکشن سے راہ
فرار بھی اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہے تو بہتر یہی ہو گا کلرسیداں کے
اکلوتے میدوار کو موقع دے دیا جائے اور تحصیل کلرسیداں کے عوام کی اہمیت کو
بھی تسلیم کیا جائے یہ کتنی زیادتی کی بات ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور راجہ
صغیر خود الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے رہے ہیں اور محض فرضی کروائی ڈالنے کی
منصوبہ بندی کر رہے ہیں لیکن وہ بھی مری کہوٹہ سے اس فرضی کاروائی میں بھی
کلرسیداں کو موقع دینے سے کترا رہے ہیں ن لیگی رہنماؤں کا یہ رویہ انتہائی
نا مناسب ہے راجہ بلال یامین کی نام زدگی کے وقت بھی جلد بازی سے کام لیا
گیا ہے اس میں بھی تمام خواہش مند امیدواروں سے مشاورت بہت ضروری تھی لیکن
اب با امر مجبوری ن لیگ کیلیئے تمام راستے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان
کیلیئے بہترین موقع ہے کہ دل پر بھاری پتھر رکھ کر کلرسیداں کو ترجیح دے دی
جائے بل فرض اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں مری ، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ سے تو
صداقت عباسی ان کے سر چڑھے ہوئے ہیں وہ وہاں سے ان کو ہلنے نہیں دیں گے ایک
کلرسیداں ہی ایسی تحصیل ہے جہاں پر ن لیگ تھوڑی مضبوط ہے اگر کلرسیداں کے
عوام کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور وہ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے
ہیں تو صداقت عباسی ن لیگیوں کو بہت بڑی شکست سے دوچار کر سکتے ہیں لہذا ن
لیگی رہنما اپنی آنکھیں کھولیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ہمت پیدا کریں
بصورت دیگر 2018 والی پوزیشن ان کی منتظر ہے
|