تحریر : محمد اسلم لودھی
پنجاب اور دیگر صوبوں میں فرق صرف شہباز شریف کا ہے ۔ کیونکہ ان کے دشمن
بھی اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ان کو نہ صرف خلق خدا کی
خدمت کا جذبہ وافر مقدار میں فراہم کررکھا ہے بلکہ وہ جس کام کو کرنے کا
عزم کرلیں کرکے چھوڑتے ہیں۔اس کے باوجود کہ سرکاری افسران ان کے سائے سے
بھی خائف رہتے ہیں لیکن ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود پنجاب کی انتظامی
ادارے بطور خاص کارپوریشن ٬واسا ٬ محکمہ صحت کی کارکردگی ہمیشہ کی طرح
انتہائی بری رہی ہے ۔ لاہور میں صفائی کے لیے وزیر اعلٰی کو ترکی کی ایک
کمپنی سے معاہدہ کرنا پڑا ہے ۔ وہ انتظامیہ جو گلی کوچوں میں بکھرا ہوا
کوڑا کرکٹ نہیں اٹھائی سکتی۔ وہ ڈینگی بخار جیسی وباکو کیسے روک سکتی ہے ۔ڈینگی
بخار کی وبا گزشتہ پانچ چھ سالوں سے بطور خاص برسات کے موسم میں سر اٹھاتی
ہے۔ برساتی پانی کے بروقت نکاس٬ بروقت سپرے نہ ہونے اور میعاری طریقہ علاج
کی عدم موجودگی کی بنا پر سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھا کر چلتی بنتی ہے ۔
انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا ادارہ صوبہ پنجاب میں موجود ہے لیکن
کروڑوں روپے سالانہ خرچ کرنے والا یہ ادارہ ابھی تک یہ تحقیق نہیں کرسکا کہ
اس وقت مچھروں کی کونسی قسم یلغار کررہی ہے اور اس کی روک تھام کیسے کی
جاسکتی ہے ۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈینگی بخار کا باعث بننے والے
مچھرچار قسم کے ہوتے ہیں اور ہر مچھر کے زہر کا علاج بھی الگ ہوتا ہے ۔اس
سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ 80 لاکھ انسانوں کے شہر لاہور میں
صرف 190 سپرے کرنے والے کارکن موجود ہیں اور سپرے کے لیے ان کو جو دوائی
فراہم کی گئی ہے وہ بھی انتہائی ناقص اور بے ضرر ہے ۔اول تو لاہور میں کہیں
بھی اہتمام سے سپرے کیا ہی نہیں گیا اگر کہیں سپرے ہوا بھی ہے تو سپرے سے
مچھر نہیں مرسکے بلکہ پہلے سے زیادہ خونخوار ہوکر انسانوں پر یلغار کررہے
ہیں ۔میں کسی اور شہر کی بات نہیں کررہا صرف لاہور میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ
پارک ٬ خالی پلاٹ ٬ کھدی ہوئی بیسمنٹ ٬اور سڑکیں موجود ہیں جہاں مہینوں
بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے اور اس کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔اگر
واسا کا عملہ چوراہوں پر فضول کیمپ لگاکر بیٹھنے کی بجائے بارش کے فورا بعد
گہری جگہوں میں جمع ہونے والا پانی فوری طور پر نکال دے تو ڈینگی وبا کا
باعث بننے والے مچھروں کی افزائش کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔ماہرین طب
کے مطابق یہ مچھر صبح چھ سے نو بجے اور شام چار بجے سے رات دس بجے تک یلغار
کرتا ہے ۔لیکن اسی دوران جب بجلی کی ہر گھنٹے بعدلوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو کس
طرح مچھروں کی یلغار سے بچا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں دانستہ پنجاب کے
عوام کو ڈینگی مچھروں کے سپرد کرکے انتظامی اداروں کے حکام نے انتقام لیا
ہے۔وزیر اعلٰی فرماتے ہیں کہ جنگی بنیادوں پر وبا کے خاتمے کے لیے کام کیا
جائے لیکن لاہور کے کسی بھی حصے میں جنگی تو دور کی بات عام روٹین میں
ڈینگی وبا کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔معالجین کے مطابق
پیراسٹامول زندگی بچانے کی دوا کا روپ دھار چکی ہے لیکن یہی پیراسٹامول
محکمہ صحت کی مہربانی سے مارکیٹ سے بالکل غائب ہوچکی ہے چوری چھپے اگر
دستیاب بھی ہے تو تیس سے پینتیس روپے فی گولی قیمت وصول کی جارہی ہے ۔سرکاری
ہسپتالوں میں خون کے ٹیسٹ اور علاج کا کیا معیار ہے اس سے تو خود وزیر
اعلٰی بخوبی آگاہ ہیں ۔سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب سہولتوں اور بستروں کی
کمی کی وجہ سے انتہائی مہنگے ہسپتالوں ٬کلینکوں کے ساتھ ساتھ نیم حکیموں ٬
ڈسپنسروں کا کاروبار بھی خوب چمکا ہے ۔غربت کی وجہ سے جو لوگ ہسپتالوں یا
مستند معالجین سے رجوع نہیں کرسکتے وہ نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ کر اپنی
جانوں گنوا رہے ہیں ۔یہ محکمہ صحت ٬ کارپوریشن اور واسا جیسے انتہائی نااہل
اداروں کی ملی بھگت ہے کہ میاں شہباز شریف کے ہوتے ہوئے بھی لوگ علاج کے
لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاکر زندگی کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں وہ کونسا گھر
ہے جہاں کوئی بیمار نہیں ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ
بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان کو خود بخود منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص
مچھر ہی اس کی منتقلی کا باعث بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں میں متاثرہ
افراد کو مچھردانیوں میں رکھاجاتا ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں لوگ مچھر
دانیوں کے بغیر ہی گھروں میں موجود ہیں۔اس وجہ سے یہ بیماری نہ صرف گھر کے
دیگر افراد تک بھی منتقل ہورہی ہے بلکہ متاثرہ شخص کو کاٹنے والا مچھر جہاں
جہاں اور جس جس شخص کو بھی کاٹے گا وہ ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجائے گا۔اس
کی علامتوں میں تیز بخار٬ سردی کا لگنا٬ جسم میں شدید درد اور کمزوری ٬
ٹانگوں ٬ جوڑوں اور سر درد کا شدید احساس ٬آنکھوں کے پیچھے شدید درد ٬
رفتار قلب میں کمی ہتھلیاں اورمسوڑھے سوجھنے ٬ چہرے کا سرخ اور ہلکے گلابی
رنگ کے دانوں سے بھر شامل جانا ہے ۔اس بیماری کی بدترین شکل خون میں ذرات
کی مقدار میں خطرناک حد تک کم ہونا اور نالیوں سے خون رسنے کا عمل ہے جس سے
خون کے دباﺅ میں کمی واقع ہوجاتی ہے ۔اس شدید ترین بیماری کی وجہ سے لاہور
میں کئی اموات ہوچکی ہیں اور کتنے ہی لوگ گھروں اور سرکاری ہسپتالوں میں
پلیٹ لٹ کٹس کی عدم موجودگی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا
ہیں ۔لیکن محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق تمام سرکاری ہسپتالوں میں پلیٹ لٹ
کٹس وافر مقدار میں موجود ہیں ۔میںسمجھتا ہوں کہ اگر محکمہ صحت اور اس کا
عملہ اتنا ہی مستعد ہوتا تو ڈینگی بخارکبھی وبا کی صورت اختیار نہ کرتا ۔
اگر میونسپل اور ٹاﺅن کمیٹیوں کا ذمہ دار اتنے ہی عوام دوست ہوتے تو برسات
شروع ہوتے ہی نہ صرف پورے شہر میں مچھرمار معیاری ادویات کا سپرے کردیتے
اور مچھروں کی افزائش کا موقع نہ دیتے اور اگر واسا کے اہلکار اتنے ہی عوام
کے خیرخواہ ہوتے تو لاہور جیسے شہر میں ڈیڑھ سو سے زائد مقامات پر ہفتوں تک
بارش کا کھڑا ہوا پانی مچھروں کی افزائش کا باعث نہ بنتا ۔اگر اب وزیر
اعلٰی پنجاب کو صرف ڈینگی وبا کی صورت میں عوام کے سامنے خفت اٹھانا پڑ رہی
ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری کارپوریشن ٬واسا اور محکمہ صحت پنجاب کے
ارباب اختیار پر ہے ۔اللہ نہ کرے یہ بیماری کسی کو لاحق ہو لیکن جس کو یہ
بیماری گھیر لیتی ہے نہ صرف اس پر اذیتوں اور تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں
بلکہ پورا خاندان مالی ٬ ذہنی طور پر پریشانیوں میں گھیر جاتا ہے ۔موجودہ
حالات میں جبکہ ہردوسرے تیسرے روز بارش ہورہی ہے یہ بات وثوق سے نہیں کہی
جاسکتی کہ مچھروں کی افزائش رک سکے اور ڈینگی بخار کی وبا کو جلد کنٹرول
کیاجاسکے گا ۔ |