رام چرت مانس کی آڑ میں اتر پردیش کے اندر فی
الحال دلت اور پسماندہ طبقات کے اندر عزت و وقار کو بحال کرنے کی ایک مہم
جاری ہے۔ اس کی قیادت سوامی پرساد موریہ کررہے ہیں جو ایک بودھ سیاستداں
ہیں جنھوں نے 1996 سے2016 تک پانچ مرتبہ بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر رکن
اسمبلی، ریاستی وزیر اور حزب اختلاف کے رہنما کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ۔
اس کے بعد انہوں نے مایا وتی پر روپیوں کے عوض ٹکٹ دینے کا الزام لگا کر
علٔحیدگی اختیار کی اور بی جے پی کی پناہ میں چلے گئے۔ اس نے بھی انہیں
وزارت سے نوازہ لیکن پچھلے انتخاب سے قبل انہوں نے پھر سے بغاوت کی اور
سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ایس پی نے انہیں ان کے گڑھ پڈرونا کے
بجائے فاضل نگر سے ٹکٹ دیا جہاں وہ بی جے پی امیدوار کشواہا سے ہار گئے
لیکن سماجوادی پارٹی نے انہیں قانون ساز کونسل کا رکن بنوا کر انتقام لے
لیا۔ اتر پردیش میں مایا وتی فی الحال بی جے پی کی غیر اعلانیہ حلیف بنی
ہوئی ہیں ایسے میں سماجوادی پارٹی سوامی پرساد موریہ کی مدد سے دلت رائے
دہندگان پر ڈورے ڈال رہی ہے ۔ رام چرت مانس والا تنازع اسی حکمت عملی کا
ایک حصہ ہے اور اس نے بی جے پی کی چولیں ہلادی ہیں۔
مودی اور یوگی سوچ رہے تھے پانچ کلو اناج دے کر وہ دلتوں کے ووٹ بنک پر
اپنا قبضہ بنائے رکھیں گے لیکن جب معاملہ عزت و وقار کا آتا ہے تو یہ
سہولت ثانوی حیثیت میں چلی جاتی ہے۔ ویسے بھی مودی سرکار اب آئندہ قومی
انتخاب تک یہ سہولت بند نہیں کرسکتی اور پھر اسے جاری نہیں رکھ سکتی اس لیے
بی جے پی کے ساتھ جانے میں نہ تو ان کا کوئی اضافی فائدہ ہے اور نہ کوئی
نقصان ہے۔ سوامی پرساد موریہ کی آواز پر لبیک کہہ کر ان لوگوں کو اب پیٹ
سے اوپر اٹھ کر دل کی بات سننا چاہیے لیکن اس کے لیے دماغ کا استعمال ضروری
ہے۔ بی جے پی کی پوری کوشش رہے گی اس تحریک کو کچل دے مگر ملک کے دلتوں کے
سامنے یہ نادر موقع ہے۔ وہ اس دعوت پر لبیک کہہ کر پانچ ہزار سالہ ظلم و
جبر سے بڑی حد تک نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کی
بابت اشتراکی مسلم دانشور بھی احتیاط کی بات کررہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ
کہیں اسے قرآن حکیم کو نذرِ آتش کرنے کی جانب نہ موڑ دیا جائےحالانکہ وہ
بھول جاتے ہیں کہ رام چرت مانس کوئی مذہبی مقدس کتاب نہیں ہے۔
ہندومت یا سناتن دھرم میں الہامی کتب کا تصور بہت کمزور ہے ۔ویدوں کو کچھ
لوگ الہامی کہتے ہیں اور اپنشد کو ان کی تفسیر بتاتے ہیں ۔ اصلی رامائن کے
بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ والمیکی رشی کی تصنیف ہے ۔ مہاکوی تلسی
داس کی رامائن دراصل ایک رزمیہ نظم ہے جس کو رامائن سے متاثر ہو کر لکھا
گیا ہے یعنی اس کی حیثیت حفیظ جالندھری کی شاہنامۂ اسلام سے زیادہ نہیں
ہے۔تلسی داس کی کویتاولی میں جس طرح انہوں پاکھنڈی بابا وں پر تنقید کی ہے
اس کی روشنی میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان یہ متنازع چوپائیاں بعد میں
دوسرے لوگوں نے اس میں شرارتاً شامل کردیا۔ رام چرت مانس پر تنقید کرنے
والوں میں رانی گنج کے رکن اسمبلی ڈاکٹر آر کے ورما نے بھی سوامی پرساد
موریہ سے اتفاق کیا ہے۔ ان کے مطابق "تلسی داس نسلی امتیاز، اونچ نیچ، چھوت
چھات اور عدم مساوات کی ذہنیت کا شکار شاعر تھے۔ ان کے رام چرت مانس میں
بہت سے اشعار آئین کے خلاف ہیں۔ وہ نہ صرف پسماندہ، شیڈول کاسٹ، خواتین اور
سنت سماج کے خلاف ہیں بلکہ ان کی توہین کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ورما توتلسی داس کو طلباء کے نصاب سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی
چوپائیوں کو ہٹا نے کی وکالت کرتے ہیں۔اس کے مقابلے سوامی پرساد موریہ کے
خیال میں "رام چرت مانس پر پابندی لگانے کی کوئی بات نہیں ہوئی، کتاب کی
کچھ چوپائیوں کے حصے قابل اعتراض ہیں‘‘۔ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں
لیکن اگر مذہب کے نام پر کسی بھی برادری یا ذات کی توہین کی جائے تو یہ
قابل اعتراض ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ رام چریت مانس کے کچھ حصوں پر تبصرہ
کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے دیوتا پر حملہ ہے۔موریہ کا دعویٰ ہے
کہ انہوں نے کسی مذہبی کتاب پر انگلی تک نہیں اٹھائی۔سماجوادیوں سے قطع نظر
بی جے پی کی رکن پارلیمان اور سوامی پرساد کی بیٹی سنگھامترا موریہ بھی اس
معاملہ میں اپنے باپ کی تائید کرتی ہیں۔وہ رام چرت مانس کے ”چوپائی“ پر
دانشورانہ بحث و مباحثے کی قائل ہیں ۔ ان کے خیال میں وہ چوپائیاں رام کے
کردار سے میل نہیں کھاتیں۔ ویسے سوامی پرساد موریہ کے خلاف اس معاملے میں
ایک ایف آئی آر درج ہوچکی ہے مگرانہوں نے اپنا بیان واپس لینے سے
انکارکردیا ہے اس لیے کہ وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
اس سے قبل جب انہوں نے بی جے پی کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا تو اس وقت
بھی یوپی کی ایم پی۔ ایم ایل اے عدالت نے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرکے
انہیں ڈرانے کی کوشش کی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ موریہ کے خلاف 2014
سےایک شکایت درج تھی مگر اس پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ وہ وزیر بنے
گھومتے رہے لیکن جیسے ہی بی جے پی کو خیر باد کیا عدالت حرکت میں آگئی۔ایک
سازش کے تحت ان کے خلاف شادی کی تقریبات میں دیوی دیوتاؤں کی پوجا نہ کرنے
کی تلقین سے ہندو مذہبی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا احمقانہ الزام
لگا دیا گیا ۔ 2014 کے 22نومبر کو مجسٹریٹ نے موریہ کو تعزیرات ہند کی دفعہ
295اے کے تحت سمن بھیجا گیا تو اس کے خلاف انہوں نے مجسٹریٹ کے خلاف سیشن
کورٹ میں عرضی داخل کی مگراس کو 09نومبر سال 2015 کو سیشن کورٹ نے خارج
کردیا ۔
ا ٓگے چل کر موریہ نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں 12جنوری 2016 کو
ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے لگا دیا تھا۔ان جھمیلوں سے تنگ آکر سوامی پرساد
موریہ نے بی جے پی میں پناہ لے لی لیکن پھر اگلے الیکشن سے قبل جب پارٹی سے
نکلے تو وہ مقدمہ پھر سے زندہ ہوگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کا
عدالتی نظام کس طرح سرکار کی خوشنودی میں غرق ہے۔ اعظم خان اور ان کے بیٹے
عبداللہ کے خلاف دھڑا دھڑ عدالتی فیصلے کس کے دباو میں آتے ہیں۔ موریہ کو
سماجوادی پارٹی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے ان کے قافلے پر حملہ بھی کیا
گیا لیکن وہ نہیں ڈرے۔ ان کی انتخابی ناکامی کو سماجوادی پارٹی نے انہیں
قانون ساز کونسل میں بھیج کر بے اثر کردیا ۔ سوامی پرساد موریہ نے اب دلتوں
اور پسماندہ ذاتوں کو رام چرت مانس کے بہانے منظم کرنے کی جوکوشش شروع کی
ہےاسے سماجوادی پارٹی کی پوری حمایت حاصل ہے اور اگر یہ سعی کامیاب ہوجائے
تو اترپردیش میں بی جے پی کی سوشیل انجینیرنگ فیل ہوجائے گی اور اس کا
مضبوط قلعہ ڈھے جائے گا۔
ملک کے دلت سماج میں خوشحالی یا بدحالی کی بنیاد پر کوئی تحریک کامیاب نہیں
ہوسکی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ روشن مستقبل کے حوالے سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ اس
کے برعکس جب بھی ان میں نسلی امتیاز اور ماضی کی اہانت کو مدعا بنایا جاتا
وہ اس پرجوش و خروش سے لبیک کہتے ہیں۔ اس بابت رام سوامی پیری یار کی تحریک
سب سے روشن مثال ہے۔ اس نے تمل ناڈو سے برہمنیت کے نظریاتی و عملی غلبہ کو
اس زور سے اکھاڑ کر پھینکا کہ اب وہاں کسی میں شودروں کے خلاف لب کشائی کی
ہمت نہیں ہے ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا علم و فضل اپنی جگہ لیکن جب انہوں نے
منوسمرتی کو نذرِ آتش کرنے کا اعلان کیا اورہندو مذہب کو چھوڑ بودھ مت
اختیار کرنے کا اعلان کیا تو دلت سماج کی آنکھوں کا تارہ بن گئے بلکہ اب
تو انہیں گوتم بدھ کی مانند معبود قرار دے دیا گیا ہے(نعوذباللہ)۔ڈ اکٹر
امبیڈکر کے بعد والے رہنماوں کی برہمن مخالفت میں جب کمی واقع ہوئی تو عوام
کی دلچسپی ان میں کم ہوتی چلی گئی ۔ اس کے بعد کانشی رام نے نعرہ لگایا
’تلک ، ترازو اور تلوار، ان کو مارو جوتے چار‘ تو عوام کو پھر سے جوش آگیا
اور بی ایس پی عالمِ وجود میں آگئی۔ اس سیاسی جماعت نے اترپردیش جیسے صوبے
میں اپنی حکومت قائم کرکے برہمنوں کو آئینہ دکھا دیا۔
بی ایس پی پر زوال اس وقت آیا جب مایاوتی نےاول تو برہمنوں کو پارٹی میں
شامل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا۔ اس کے بعد بی جے پی سے ہاتھ ملا کر
دلت سماج کو پوری طرح مایوس کردیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دلتوں کو ایسے
رہنما میں دلچسپی ہے جو ماضی کے مظالم کا انتقام لینے کی بات کرتا ہے ۔ اس
کے علاوہ جو اقتدار کی جوڑ توڑ سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور معاشی فائدہ
پہنچانے کی بات کرے اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ
سوامی پرساد موریہ کو اس حقیقت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اس لیے انہوں نے دلتوں
کے حقوق اور خوشحالی کے بجائے برہمنوں سے لوہا لینے کی خاطر رام چرت مانس
کو نشانہ بنایا ۔ یہ سیدھا تصادم ایک نفسیاتی جنگ ہے اس میں موریہ کو
کامیابی ملے گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس سے مایاوتی کا مایا جال
بے اثر ہوکر رہ جائے گا اور قوی امکان ہے کہ لوگ ان کے چنگل سے آزاد
ہوجائیں ۔ اس لیے رام چرت مانس تنازع کو صحیح سیاسی تناظر میں دیکھنے اور
اس کے دیرپا اثرات کا اندازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
|