اتر پردیش کا پچھلا صوبائی انتخاب سماجوادی پارٹی کے ساتھ
بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس نے مل کر لڑا تھا ۔ اس کے باوجود بھارتیہ
جنتا پارٹی نے ان تینوں کو شکست سے دوچار کرکے زبردست کامیابی حاصل کرلی ۔
اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے سرپھٹول کا آغاز ہوا۔ ایک طرف منوج
سنہا نے تیاری شروع کردی تو دوسری جانب کیشو پرساد موریہ نے کمر کس لی ۔
اعلیٰ کمان نے ان دونوں کو کنارے کرکے یوگی ادیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ
بنادیا۔ یہی فیصلہ اتر پردیش میں بی جے پی کے زوال کا سنگ بنیاد بن گیا ۔
اگر یہ نہ ہوا تو وزیر اعظم کو آج کل آئے دن مختلف پروجکٹس کے سنگ بنیاد
رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ الیکشن سر پر آنے کے بعد یہ سنگ بنیاد رکھنا
ایسا ہی ہے جیسے کو احمق طالبعلم امتحان کے وقت نئی کتابیں لاکر فخر سے
اپنے دوستوں کو دکھائے اور دعویٰ کرے کہ امتیازی نمبروں سے امتحان میں
کامیابی درج کرائے گا۔ ایسے میں اگر دوست سوال کریں کہ اے بیوقوف تو اسے
پڑھے گا کب اور امتحان میں لکھے گا کیا؟ تو اس میں غلط کیا ہوگا؟؟
یوگی ادیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بناتے ہوئے بی جے پی نے سوچا ہوگا اگر مودی
ایوانِ پارلیمان کی ناتجربہ کاری کے باوجود وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو یوگی
اترپردیش کی اسمبلی میں کبھی بھی موجود نہ رہنے کے باوجود وزیر اعلیٰ کیوں
نہیں بن سکتے ؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی جی کو وزیر اعلیٰ بننے سے
قبل کم از کم وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرنے تجربہ تھا مگر یوگی تو بس
ایوان ِ پارلیمان میں اپنے رونے دھونے کے لیے مشہور تھے۔مودی کو جس طرح
اچانک گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا تھا اسی طرح یوگی کو بھی موقع دیا
گیا مگرگجرات کے وزیر اعلیٰ کو یکسوئی کے ساتھ 12سالوں تک اپنی ریاست میں
کام کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ وہ حکمرانی کے گُر سیکھ سکیں ۔ اس کے برعکس
یوگی کو اسٹار پرچارک بناکرکچھ کرنے اور سیکھنے کے موقع سے محروم کردیا
گیا۔ جب بھی کسی صوبے میں اسمبلی انتخاب ہوتا تو یوگی کو آگ اگلنے کے لیے
روانہ کردیا جاتا۔ اس طرح وہ زمین پر نہیں بلکہ ہمیشہ ہوا میں اڑتے رہے۔
زعفرانی جنون کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی اور مہاراشٹر کے
علی الرغم غیر ہندی داں ریاستیں مثلاً مغربی بنگال و کیرالہ میں بھی یوگی
کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ حیدر آباد کے میونسپل انتخاب میں جب کمل کے کھلنے
کا امکان نظر آیا تو یوگی جی کو تڑکا لگانے کی خاطر روانہ کردیا گیا ۔ یہ
اور بات ہے کہ ان تمام مقامات پر بی جے پی کی کراری ہار کے باوجود یوگی جی
کا گھمنڈ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اترپردیش
کے اندر گنگا میں لاشیں تیر رہی تھیں یوگی جی بنگال میں تقاریر فرمارہے
تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف نمامی گنگے پروجکٹ کے سربراہ راجیو رنجن مشرا نے
اپنی کتاب کرلیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ یوگی کو نہ تو دفتر میں بیٹھ کر
کام کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی اپنے وزراء سے گفت و شنید کی فرصت ملی۔ وہ
چند افسران کے بیچ گھر گئے جو ان سے من چاہی فائلوں پر دستخط لیتے رہے۔
یوگی کو ان فائلوں کو دیکھنے میں نہ تو دلچسپی تھی اور انہیں سمجھنے کی
صلاحیت تھی۔ وہ تو بس صوبے کےاندر اور باہر نفرت انگیز خطابات سے اپنا دل
بہلاتے رہے اور اب جو دیکھا کہ کام کے نام پر’ نِل بٹا سناٹا‘ پھیلا ہوا ہے
تو کروڈوں روپیوں کی چکا چوند کردینے والی اشتہاری رنگین دنیا میں مگن ہیں
۔
2019کے قومی انتخاب کے بعد بی جے پی کو کسی صوبائی انتخاب قابلِ ذکر
کامیابی نہیں ملی ۔ ہریانہ کے سوا وہ کہیں بھی حکومت سازی میں کامیاب نہیں
ہوئی اور وہاں بھی جے جے پی کی بیساکھی پر سرکار بن سکی لیکن اس سے یوگی کی
کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہر آنے والے انتخاب میں لوگ ان کی نااہلی
کو بھلا کر پھر سے بلاتے اور وہ بھی خوشی خوشی حاضر ہوجاتے لیکن جب
اترپردیش کا انتخاب سر پر آیا تو صورتحال بدل گئی۔ اس دوران بی جے پی کو
بھی احساس ہوگیا کہ اس کی ساکھ کمزور ہو رہی ہے اس لیے اس نے اپنے
صوبیداروں یعنی وزرائے اعلیٰ کو بدلنا شروع کردیا ۔ اس معاملے میں سب سے
زیادہ تبدیلیاں یوگی کی آبائی ریاست اتراکھنڈ میں ہوئیں۔ وہاں بہت ہی قلیل
عرصے میں یکے بعد دیگرے تین وزرائے اعلیٰ کو بدل دیا گیا۔ کرناٹک کے نہایت
مضبوط سمجھے جانے والے یدورپاّ کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ گجرات
میں مرکز کے کٹھ پتلی اور امیت شاہ کے منظور نظر وجئے روپانی کی چھٹی کردی
گئی ۔ وہ بہترین وقت تھا جب یوگی کو ہٹا کر کیشو پرساد موریہ کو وزیر اعلیٰ
بنا دیا جاتا لیکن بی جے پی اعلیٰ کمان یہ قدم اٹھانےکی ہمت نہیں کرسکا اور
اس کی قیمت وہ فی الحال چکا رہا ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ اب اس کے لیے ایک
ایسی مصیبت بن گئے ہیں کہ اسے نہ تو نگلا جاسکتا ہے اور نہ اگلا جاسکتا ہے۔
یوگی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے ہٹانے کے کئی فائدے تھے ۔ ان کو وزارت اعلیٰ
کے عہدے سے ہٹا کر پورے صوبے کو یہ پیغام دیا جاسکتا تھا کہ بی جے پی نے
ایک نااہل وزیر اعلیٰ کو اس کی سزا دے دی ہے اس لیے اب اسے معاف کردیا جائے
اور انتخاب میں معتوب نہ کیا جائے۔ اس طرح یوگی کے ساتھ ان کی ساری
ناکامیوں کے اوپر بھی پردہ پڑ جاتا۔ یوگی نے اپنی بدزبانی اور اکھڑ پن سے
مسلمانوں کے علاوہ برہمنوں اور پسماندہ ذاتوں کو بھی تضحیک کی ہے۔ گاوں
گاوں میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹھاکروں اور دبنگوں کی سرکار ہے جو کسی کو
خاطر میں نہیں لاتی اور اپنی من مانی میں یقین رکھتی ہے اس لیے اس کا دماغ
درست کرنا ضروری ہے۔ یہ سارے لوگ یوگی کو سبق سکھانے کی خاطر الیکشن کا
انتظار کررہے ہیں ۔ اکھلیش کے جلسوں میں آنے والی بھیڑ ’حب علی میں نہیں
بلکہ بغض معاویہ ‘ میں جمع ہورہی ہے۔ لوگ اکھلیش کی مدد سے یوگی کو سبق
سکھانا چاہتے ہیں۔
بی جے پی نے پچھلا الیکشن کیشو پرساد موریہ کے چہرے پر جیتا تھا ۔ ان کے
بجائے یوگی کے وزیر اعلیٰ بن جانے سے پسماندہ طبقات کے وہ سارے ووٹرس اپنے
آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے تھے ۔ موریہ کے آجانے سے ان لوگوں کو یقین
ہوجاتا کہ کم ازکم اگلی میقات میں بی جے پی ایک پسماندہ کو وزیر اعلیٰ بننے
کا موقع دے گی ۔ اس طرح وہ لوگ ماضی کی زیادتی کو بھول کر پھر سے کمل کے
جھانسے میں آجاتے۔ یوگی ہٹا دینے سے پسماندہ ذاتوں کے علاوہ برہمنوں کے
اندر بھی بی جے پی کے تئیں ناراضی میں کمی واقع ہوسکتی تھی کیونکہ موریہ
تنظیم کے آدمی ہیں اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا انہیں تجربہ ہے ۔ سبھی
طبقات سے ان کی دوستی ہے جن میں اجئے مشرا ٹینی بھی شامل ہیں۔ کیشو پرساد
موریہ لوگوں کو کوئی خاص توقعات بھی نہیں ہوتیں اور لوگ سوچتے کہ انہیں
یوگی نے کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس لیے شبہ کا فائدہ بی جے پی
کو ضرور ملتا ۔
اس میں شک نہیں کہ اترپردیش کے ٹھاکر جن کی یوگی خوب منہ بھرائی کی وہ ان
کے ہٹائے جانے سے ناراض ہوتا لیکن اول تو اس کی ناراضی سے کوئی خاص فرق
نہیں پڑتا کیونکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ اگر یوگی کو مرکز میں
کوئی وزارت تھما دی جاتی تو وہ غم و غصہ بھی کم ہوجاتا۔ سابق وزیر اعلیٰ کے
طور ٹھاکروں کے علاقوں میں انہیں بھیج کر سمجھایا اور منانا بھی مشکل نہیں
تھا ۔ اترپردیش کے ٹھاکروں میں آج بھی یوگی سے زیادہ مقبول راجناتھ سنگھ
کی شخصیت ہے اس لیے ٹھاکروں کو منانے کے لیے ان کا بھی استعمال ہوسکتا تھا۔
ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ یوپی کے راجپوتوں کی خاطر بی جے پی کے علاوہ کوئی
جائے پناہ نہیں ہے۔ یادو سماج کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لیےسماجوادی
پارٹی کے دروازے اس پر بند ہیں ۔ بہوجن سماج پارٹی کو وہ حقیر سمجھتاہےاس
لیے اس کے قریب جانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ کانگریس سے وہ بہت پہلے دور
ہوچکا ہے اس لیے بی جے پی اس کی مجبوری ہے۔ بی جے پی اگر اس ناز و نخرے نہ
اٹھائے تب بھی ٹھاکر ووٹ بی جے پی کو ہی ملے گا اس لیے یوگی کو ہٹانے میں
کوئی خاص نقصان نہیں تھا۔ یوگی اور امیت شاہ کی خانہ جنگی جگ ظاہر ہے اس
لیے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے وزیر داخلہ کو اپنے ایک حریف سے نجات مل سکتی
تھی لیکن ہندوتوا پر بیجا انحصار ان کے پیروں کی بیڑی بن گئی اور اب یہ
حالت ہے کہ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے۔ پہلے تو بی جے پی کو ممتا
اور کیجریوال ہراتے تھے لیکن اس بار قوی امکان ہے کہ خود اسی کے یوگی یہ
کار خیر انجام دیں گے۔ ویسے یوگی کی دوستانہ دشمنی پر غالب کا یہ شعر من و
عن صادق آتا ہے؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
|