اسے کراچی کی بدقسمتی کہہ لیجئے
کہ لسانی فسادات اس کے مقدر میں لکھ دئے گئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے
اقتدار کے دوام کی خاطر لسانیت (مہاجر قومی موومنٹ) کا جو بیج بو یا تھا آج
وہ ایک تنا ور درخت بن چکا ہے جس کا پھل زہر آلود ، جس کی چھا ﺅں موت کا
سایہ اور جس کی شاخیں بد بختی کی علامت ہیں ۔ 1985 سے جنم لینے والی مہاجر
قومی موومنٹ نے اپنے اعمال، کردار اور سوچ کی بدولت کراچی کو موت کی ایک
ایسی وادی میں بدل دیا ہے جہاں انسان اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھا تے
تھک گئے ہیں ۔ ایک ایساشہر جس پر اپنی سیاسی گرفت کی خاطر عوام کی گردنیں
دبوچی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے ہی سفاکانہ انداز
میں جاری و ساری ہے۔ نہ کہیں پر رحم کا شائبہ ہے، نہ کہیں پر خوفِ خدا کی
جھلک دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کہیں پر انسانیت اپنی رمق کے موجود ہونے کا
احساس دلاتی ہے ۔ اقتدار کی ایک دوڑ ہے جو بڑی تیزی سے جاری ہے اور جس میں
عوام کچلے جا رہے ہیں۔ بوری بند لاشیں روزمرہ کا معمول ہیں۔ مائیں اپنے لختِ
جگروں کو روتے روتے اپنی بینائی کھو چکی ہیں ، بہنیں اپنے جوا ں سال
بھائیوں کی موت کا ماتم کرتے کرتے اور ان کے لاشے و صول کرتے کرتے اپنے ہوش
وحواس کھو چکی ہیں لیکن سفاک ، بے رحم درندوں کی ہوسِ اقتدار کی آگ ٹھنڈی
نہیں ہوتی۔ ہر آنے والا دن موت کا پیغام بر بن کر طلوع ہو تا ہے اور کوئی
نہیں جانتا کہ بے رحم سفاک درندوں کا اگلا نشانہ کون بنے گا اور لاشوں کا
یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
ایک زمانہ تھا کہ کرا چی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ یہ شہر سیاسی سماجی
اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ علم و ادب کی محفلیں اس شہر کی
پہچان ہوا کرتی تھیں اور سلور سکرین پر جلوہ افروز خوبصورت ادا کارائیں اس
شہر کو مزید طلسم کدہ بنائے ہوئے تھیں۔ ایک دنیا تھی کہ اس شہر کی جانب
محوِ سفر تھی کیونکہ یہاں پر روزگار کے بہتر مواقع میسر تھے۔بھائی چارے ،
اخوت، ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبے اس شہر کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔
پاکستان کو کوئی ایسا گوشہ نہیں تھا جہاں سے لوگوں نے اس شہر کو اپنا مسکن
نہ بنایا ہو۔ایک ایسا شہر جو امرا کے ساتھ ساتھ غرباءکو بھی اپنے دامن میں
سمیٹے ہوئے تھا ۔غریب پرور شہر جس کی جھگیوں میں بھی زندگی کی رعنائیاں
محسوس کی جا سکتی تھیں ۔لوگ غربت کے باوجود بھی خوش و خرم رہا کرتے تھے
کیونکہ یہاں پر باہمی احترام اور محبت کے زمزمے بہاکرتے تھے۔انسانیت اور اس
کی قدروں کے سوتے ابھی خشک نہیں ہوئے تھے ۔ایک دوسرے کے درد اور تکلیف کا
احساس ابھی مرا نہیں تھا۔ٹارگٹ کلنگ اور خود کش حملوں کی ا صطلا حوں سے لوگ
واقف نہیں تھے ۔ ان کے اذہان میں ایسی کسی سوچ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا جس
میں انسانی زندگی کی حرمت پر حرف آتا ہو۔پرخلوص، سادہ لوح اور محبت کرنے
والے باسیوں کا شہر جس میں جمہوری قدریں اپنی پوری توانا ئیوں کے ساتھ جلوہ
گر تھیں۔ جمہو ریت کی بے شمار جنگیں اس شہر کے باسیوں نے بڑی شان کے ساتھ
لڑیں ہیں۔ ساری لسانی اکائیاں جمہوری جنگ میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی
ہوتی تھیں ۔ اس وقت نہ کوئی سندھی تھا ، نہ کوئی مہاجر تھا نہ کوئی پنجابی
تھا نہ کوئی پٹھان تھا اور نہ ہی کوئی بلوچی تھا ۔ اہلِ کراچی بس شہرِ قائد
میں محبتوں کے سفیر تھے اور یہ محبتیں ہی اس شہر کی کشش کی اصل بنیادیں
تھیں۔
شہرِ کراچی نے بھارت سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو جس طرح خوش آمدید کہا وہ
بھی اپنی مثال آپ تھا۔ مہاجرین نے بھی اپنے سندھی بھائیوں کے جذبہ خیر
سگالی کا جواب محبت اور احسان مندی کے ساتھ دیا اور آہستہ آہستہ خود کو
سندھی رسم و رواج اور روایات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے چلے گئے ۔ مہاجرین کی
آمد کے ساتھ ہی اس شہر کی آبادئی میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا اور قائدِ
اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان کے بعد کہ کراچی پاکستان کا دارلخلافہ ہو
گا لوگ سیلاب کی مانند اس شہر کی جانب بڑھنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ
شہر پاکستان کا سب سے بڑا شہر بن گیا جس میں ہر زبان بولنے والے لوگ شامل
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ایوب خان کی
آمریت کے خلاف اہلِ کراچی نے جو تحریک برپا کی تھی اس کی داستان کراچی کے
درو دیوار پر آج بھی رقم ہے اور اہلِ کراچی کی جراتوں کا فخر انگیز باب ہے۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب کے دوران اہلِ کراچی نے
محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمائت کر کے جمہو ریت کو نئی زندگی عطا
کی۔اسی شہر نے 1977 کے انتخابات میں اصغر خان کا طویل ترین جلوس نکال کر
انتخابی سیاست میں عوامی شرکت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور انتخابات میں نیا
جوش و جذبہ پیدا کر دیا۔جلے اور جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں اور یہ حسن
اہلِ کراچی نے اپنے خونِ جگر سے پیدا کیا تھا۔ اردو بولنے والوں کے شہر میں
اصغر خان کا طویل ترین جلوس پاکستانیت کا بڑا حسین مظا ہرہ تھا جس پر اہلِ
کراچی دادو تحسین کے مستحق تھے۔ ۔۔۔۔۔
1977 کا جنرل ضیا الحق کا مارشل لا پاکستان کے لئے زہرِ قاتل کی حیثیت
رکھتا ہے کیونکہ اسی مارشل لا نے کراچی میں لسانیت کی بنیادوں پر عوام کو
تقسیم کیا۔ نفرتیں جب ایک دفعہ سرکشی اختیا کر لیں تو پھر انھیں قابو میں
لانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ نفرتوں کی مثال ان تندو تیز موجوں کی مانند ہوتی
ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آتیں اور اپنی تندی کے سامنے ہر شہ کو خس و
خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہیں۔ لسانیت نے بھی ایسے ہی بے رحم انداز سے
پاکستانیت کو نگل لیا تھا۔وہ لوگ جو کل تک باہمی محبت اور یگانگت سے زندگی
کے شب و روز گزار رہے تھے اچانک نفرتوں کے پیکر بن کر ایک دوسرے پر ایسے
جھپٹے کہ زندگی بھر کی دوستیاں اور محبتیں راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئیں
۔خنجر بکف نکلے وہ سارے لوگ جو کل تک ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنایا
کرتے تھے۔نہ ا حسا سِ یگانگت باقی رہا نہ ہی انسانی قدروں کا احترام باقی
رہا ۔ رنگ نسل ذات پات اور زبان کے اختلاف نے وہ رنگ دکھائے کہ کوچہ و
بازار لہو سے رنگین ہو گئے ۔ کل تک ایک دوسرے کی خاطر جان دینے والے ایک
دوسرے کی جان کے ایسے دشمن ہو ئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ نفرت کا
اتنا شدید جذبہ تو شائد بھارت کے خلاف بھی دیکھنے کو نہ ملتا ہو جتنا ایک
ہی شہر میں رہنے والے مختلف زبانیں بولنے والے گروہوں نے اپنے درمیان
پیداکر رکھاہے ۔ نفرتوں کی ایک ایسی آگ بھڑکائی گئی ہے جس کے شعلوں نے پورے
شہر کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ افغانستان کی جنگ نے کراچی میں
اسلحے کی ترسیل کی راہیں کشادہ کیں۔ لوگوں نے د ل کھول کر اسلحہ خریدا اور
پھر اسی غیر قانونی اسلحے سے اپنے ہی بھائیوں کے سینوں کو چھلنی کر کے رکھ
دیا اور ایک ایسی خونریزی کا آغاز کیا جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لے
رہی۔۔۔۔۔
کراچی اور ایم کیو ایم لازم و ملزوم بن چکے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد
اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں آباد ہو گئی ۔ کراچی میں قیام
پذیر ہونے کی بہت سی دوسری وجو ہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کراچی
کو پاکستان کا دارلخلافہ قرار دیا گیا تھا لہٰذا اردو بولنے والوں کی
اکثریت جو کہ پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی کراچی شفٹ ہو گئی تا کہ
نظامِ حکومت کو چلانے میں قائدین کی معاو نت کر سکے پاکستان کی اولین بیو و
کریسی انہی اردو بولنے والوں پر مشتمل تھی ۔بعد میں دارلخلافہ اسلام آباد
منتقل ہو جانے کی وجہ سے اردو بولنے والوں کی ملکی معاملات میں شرکت کمزور
پڑتی چلی گئی کیونکہ دوسرے صوبوں اور علاقوں کے لوگ دھیرے دھیرے زیورِ
تعلیم سے آراستہ ہوتے گئے اور بیو و کریسی میں اپنی جگہ بنا تے گئے ۔ متحدہ
ہندوستان میں پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تعلیم اور دوسرے شعبوں
میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے سے قاصر تھے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد
انہیں بھر پور مواقع ملے جس سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر
کے بیوو کریسی میں اپنی جگہ بنائی اور یوں اردود بولنے والا مخصو ص طبقہ ہو
لے ہولے پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے چند
ابتدائی سالوں میں بیورو کریسی میں اردو بولنے والوں کا طوطی بولتا تھالیکن
وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ اس مسند پر پنجابی بیورو کریسی برا جمان ہو گئی اور
یوں پنجاب اور اردو بولنے والوں کے درمیان ایک خاموش مخاصمت نے سر اٹھایا
جسے دوسرے صوبوں نے بھی ہوا دی اور یوں پنجاب کے خلاف اعلانیہ نفرت کا
اظہار ہونے لگا۔۔
کراچی کا نام زبان پر آتے ہی ایم کیو ایم کا ایک تصور بھی ذہن میں ابھرتا
ہے ایک ایسی جماعت جس کی بنیاد لسانیت پر رکھی گئی تھی اور یوں تحریکِ
پاکستان میں علیحدہ وطن کے حصول کی جنگ لڑنے والے قائدین کی نئی نسل لسانی
گروہ بن کر رہ گئی ا ور پھر اس لسانیت پر کشت و خون کی ایسی ندیاں بہائی
گئیں جس نے تحریکِ پاکستان کی حقیقی روح کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ تحریکِ
پاکستان ایک ایسی تحریک تھی جس نے زبان و مکاں اور علاقائی سوچوں کا گلہ
گھونٹ کر اسلام کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی
ریاست کے قیام کا معجزہ سر انجام دیا تھا جب کہ ایم کیو ایم اپنے ذاتی
مفادات کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنے ہاتھوں سے ان اعلیٰ مقاصد کا خون کر
بیٹھی جس کا علم ان کے آباﺅ اجداد نے اٹھا یا تھا اور جس کے لئے انھوں نے
بے شمار قربانیاں دی تھیں۔تحریکِ پاکستان ایک ایسی تحریک تھی جس میں لاکھوں
لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا اور تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی
ہجرت کا کرب برداشت کیا تھا لیکن اسی تحریک کے قائدین کی نئی نسل دیکھتے ہی
دیکھتے لسانیت اور علاقیت کا شکار ہو کر ملک کے استحکام پر کاری وار کرنے
لگی اور اپنے ہی شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے لگی۔ پاکستانیت کا نعرہ
پسِ دیوار چلا گیا اور مہاجر قوم کی پہچان کے پرچم سارے شہر میں پھریرے
بھرتے ہوئے نظر آنے لگے ۔۔
مجھے اعتراف ہے کہ احساسِ محرومی جب شدید تر ہو جاتا ہے تو پھر انسان ان
راہوں پر بھی چل نکلتا ہے جو تخریبی نتائج پیدا کرتی ہیں لیکن سوال چونکہ
مخصوص جماعت کی اپنی زندگی اور بقا کا ہوتا ہے لہذا وہ اس راہ کو بھی
اپنانے سے دریغ نہیں کر تی جس کے نتائج بھیانک ہو کرتے ہیں ۔اسے بخوبی علم
ہوتا ہے کہ اس نے جس راہ کا نتخاب کر رکھا ہے یہ راہ لسانی اور تعصباتی ہے
لیکن اپنی بقا اور پہچان کے لئے اس کی نظر میں یہ راہ نا گزیر ہوجا تی ہے۔
ایم کیو ایم کا آغاز مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ہوا جو ایک لسانی اور
علاقائی سوچ کا آئینہ دار تھا لہذا سوچ کی کج روی اور لسانی رنگ کی وجہ سے
انھیں اس نام کو ترک کر کے اپنے لئے متحدہ قومی مومومنٹ کے نام کا انتخاب
کرنا پڑا یہ الگ بات کے اس جماعت کا رنگ ڈھنگ اور چال چلن وہی ہے جو کہ
روزِ اول سے تھا ۔ نام کی تبدیلی سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ سوچ
کا مرکزی نکتہ اپنی جگہ پہلے کی طرح ہی موجودبھی ہے، قوی بھی ہے اور اس
جماعت کی ساری سرگرمیوں کا نقطہ ماسکہ بھی ہے۔اور شائد یہی وجہ ہے کہ یہ
جماعت اپنے علاوہ کراچی میں کسی کو برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج۔۔۔۔تا ثریا می رود دیوار کج (ڈاکٹر علامہ محمد
اقبال) |