ملک بھر کی طرح کلرسیداں میں روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی
قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا
ہے۔نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ
مہنگائی ہے۔آٹا چینی،گھی، چاول،دودھ،دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ
موجودہ دور حکومت میں بجلی،گیس،پٹرول اورادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات
ہیں۔جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی انسانی حق ہے،حکومت نے
کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی ہے کہ خطے کے دیگر ممالک انڈیا، بنگلہ دیش
میں اشیائے خوردونوش پر حکومت نے کنٹرول کررکھاہے اوروہاں کی حکومتوں اور
سپرمارکیٹ بزنسز کااس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی
چاہیے،کیوں کہ یہ چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ان ممالک کے علاوہ
متحدہ عرب امارات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں۔ وہاں
بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیں
پاتیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش ہیں،کیونکہ ان کویہ
بنیادی ضروریات بہ آسانی اورسستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں۔اس کے برعکس ہمارے
ہاں خوردونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ہردوکان میں اپنی
مرضی کے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔قوتِ خریدکی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی
ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کے لیے
اکٹھا خریداکرتے تھے،آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ ابھی تک
یہ معلوم ہی نہیں پایاکہ گورنمنٹ کی رٹ کہاں پر قائم ہے آٹا سستا نہ ملنے
کی وجہ سے عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اگر یوٹیلیٹی سٹوروں پر سب
سڈی دے کر چیزیں بازارسے نسبتاً سستے داموں مہیاکی جاسکتی ہیں
توآخرکیاامرمانع ہے کہ وہی اشیاء عام دکانوں یابازاروں میں سستے نرخوں پر
کیوں فراہم نہیں کی جاسکتیں۔حکومت بازارمیں بکنے والی اشیاء پر سب سڈی نہ
دے، مگر وہ اتناہی کردے کہ بڑی منڈی کو مکمل کنٹرول میں لے آئے اورذخیرہ
اندوزوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرے تو یقین مانیں کہ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء
ہر آدمی کی قوتِ خرید کے مطابق مل سکتی ہیں عوام کی بات یہ ہے کہ مہنگائی
کو کنٹرول کون کرے؟اختیارات حکومت کے پاس ہیں تو مہنگائی پر حکومت ہی قابو
پاسکتی ہے۔کیا کوالٹی کنٹرول اورپرائس کنٹرول ادارے صرف اپنے ٹارگٹ پورے
کرنے تک ہی محدود رہیں گے یا عوام کو کوئی ریلیف بھی دلوا سکیں گے لیکن
ایسی کوئی صورتحال دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے اورظالم منافع
خورتاجروں کوعوام کی رگوں میں بچ جانے والے چندخون کے قطروں کو بھی نچوڑ
لینے کے لیے کھلا چھوڑ دیاگیاہے کلرسیداں کے عوام آج آٹے کی لائنوں میں لگ
کر سوال کرتے ہیں کہ سینکڑوں ایکڑ پیداوار کے باوجود تحصیل کلرسیداں میں
آٹے کا بحران کیوں ہے کیا انتظامیہ نے اس کے لئے پیشگی انتظامات نہیں کئے
تھے
دوسرا کلرسیداں کے عوام کیلیئے ایک بہت بڑا مسئلہ زمینوں کے حوالے سے بنا
ہوا ہے لاتعداد موضع جات میں بہت سے کھیوٹ اب بھی بلاک ہیں محکمہ مال اس
طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی کلرسیداں کا میڈیا اس مسئلہ کی
نشاندہی کر رہا ہے بلاک کھیوٹ کا ذکر صرف اسی دن ہوتا ہے جب کبھی کوئی
کمشنر ، ڈی سی یا کوئی اور انتظامی افسر کلرسیداں کا دورہ کرتے ہیں وہ بلاک
کھیوٹ کا مسئلہ ضرور بیان کرتے ہیں لیکن اسسٹنٹ کمشنر ،تحصیلدار یا متعلقہ
حکام کی طرف سے اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے اس بڑے مسئلے کو
ٹوٹل اس کے اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے سوال یہ بنتا ہے کہ کھیوٹ
کیوں بلاک ہیں یہ عوام نے تو نہیں کھولنے ہیں یہ محکمہ مال کا کام ہے یہ
کتنی بڑی زیادتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے باپ دادا کی وراثت درج کروانے
کیلیئے محکمہ مال کا رخ کرتا ہے تو اگر اس کی زمین 10 کنال ہے تو وہاں پر
صرف 5کنال شو ہو رہی ہوتی ہے پتہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے موضع کے
کھیوٹ بلاک ہیں اور بلاک کھیوٹ والی زمین ریکارڈ میں شو نہیں ہوتی ہے
متعلقہ شخص نئی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور وہ صرف 5کنال کی انتقال
وراثت درج کروانے پر مجبور ہو جاتا ہے پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلے کئی ماہ
بلاک کھیوٹ کی پریشانی میں پڑ جاتا ہے اور وہ محکمہ مال اور گھر کے درمیان
ایک کھلونا بن کے رہ جاتا ہے وہ شخص خود بند ہو جاتا ہے لیکن بلاک کھیوٹ
نہیں کھلتے ہیں کمشنر راولپنڈی نے بھی دو ہفتے قبل اس بارے استسفار کیا تھا
لیکن اس کے باوجود کوئی پراگریس سامنے نہیں آئی ہے یہ کتنے ستم والی بات ہے
عوام کے ساتھ یہ کھلواڑ آخر کب تک جاری رہے گا مقامی سرکاری انتظامیہ اس
حوالے ٹھوس اقدامات اٹھانے میں اب تک کیوں ناکام ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے
ہے کہ عوام کے بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں رہا ہے عوام کے مقدر میں بس چکر
ہی ہیں جو وہ کھا رہے ہیں کمشنر راوالپنڈی اور ڈی سی راولپنڈی کو کلرسیداں
کے عوام پر ترس کھاتے ہوئے سپیشل احکامات جاری کرنا ہوں گے بلاک کھیوٹ جو
عوام کیلیئے سر درد بن چکے ہیں ان کو اس عذاب سے نکالنے کیلیئے اسسٹنٹ
کمشنر کو ہدایات جاری کریں خدارا تحصیلدار و پٹواری حضرات عوام پر ترس
کھائیں ان کے حال پر رحم کریں
|