پاکستان کی بند مٹھی کو کھولنے کیلئے عالمی سطح پر
طالبان کا رڈ استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کیلئے
دھشت گردی کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کیلئے افغانستان کی زمین استعمال کی
جا رہی ہے ۔۳۱ جنوری کو پشاور مسجد میں خود کش حملے نے اس بات کو مزید اجا
گر کر دیا ہے کہ پاکستان کے اندر انتشار اور خانہ جنگی کا منصوبہ ترتیب
دیاجا چکا ہے۔ایک سو سے زائد افراد کی ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہے جسے
کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دھشت گردی کی آندھی نے پاکستان کے درو
دیوار ہلا کر رکھ دئے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ افغانی پاکستان پر حکومت کرنا
اپنا موروثی حق سمجھتا ہے کیونکہ ماضی میں افغانستان کے آباؤ اجداد نے برِ
صغیرپر صدیوں حکومت کی تھی جو انھیں نیا حوصلہ بخش رہی ہے ۔ اقتدار میں
طالبان کی واپسی افغانیوں کی آنکھوں میں نئے خواب سجا رہی ہے۔پاکستان کو
مغربی سرحدوں سے جو شدید خطرہ لاحق ہے وہ کسی بیان کا محتاج نہیں ۔پاکستان
خطروں میں گھرا ہوا ہے۔طالبان کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں اور وہ یہاں
پر اپنی اسلامی راجدھانی قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ہندوستان کے اصل
فاتح تو افغان ہی تھے ۔ افغانیوں کی جرات و بسالت سے ہندوترا کو زک پہنچی
تھی لہذا طالبان کا یہ سوچنا کہ پاکستانی علاقہ بنیادی طور پر ان کی
راجدھانی کا حصہ ہے ان کے جوشیلے بیانیہ کی روح بنا ہواہے۔ابھی تک ۱۹۴۷
سے جنم لینے والا ڈیو نڈرڈ لائن کا ایشو حل نہیں ہو سکا۔ ذولفقار علی بھٹو
نے اس مسئلے کی شدت کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ایشو پھر بھی
اسی جگہ پر قائم رہا ۔اپنے قدیم بیانیہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے
طالبان کی پیش قدمی جاری ہے لہذا کے پی کے کئی علاقے آجکل طالبان کے زیرِ
اثر ہیں ۔انھیں مقامی آبادی کی حمائت بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے
قدم جمانا مشکل نہیں ہے۔،۔
پاکستان داخلی انتشار کا شکار ہے۔رشوت ستانی،کرپشن ،مہنگائی اور نا انصافی
نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔طالبان کی شدت پسند سوچ کے پیشِ نظر عام
لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے تباہ شدہ معاشرہ کو طالبان کی سخت گیری ہی
پٹری پر ڈال سکتی ہے۔کبھی کبھی مجبوری میں زہر بھی کھنا پڑ جااتا ہے۔طالبان
کی مقبولیت محض اسی وجہ سے ہے کہ ان کے ہاں خصوصی مراعات کا کوئی وجود نہیں
ہے ۔ طالبان کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی شدت پسندی سے ساری
دنیا خا ئف ہے لیکن پھر بھی ان کی ا ما نت ودیانت مسلمہ ہیے ۔سخت گیری کے
باوجود عمومی تاثر یہی ہے کہ سادگی طالبان کا شعار ہے اور ان کے ہاں کرپشن
کا وجود نہیں ہے ۔ کسی زمانے میں عوام ایرانی انقلاب کے سرخیل امام خمینی
کے منتظر تھے کیونکہ پاکستانی عوام اپنی قیادت سے مایوس ہو چکے تھے ۔امام
خمینی نے جس طرح معاشرے میں سدھار پیدا کیا، انصاف و قانون کو یقینی بنایا
ا ور پھر جس طرح ایران کے بے راہ رو معاشرے کو سمت عطا کی وہ پوری دنیا
کیلئے حیران کن تھا۔امام خمینی جیسے راہنما تو صدیوں بعد پیدا ہوتے
ہیں۔لہذا امام خمینی کے پائے کا کوئی لیڈر آج ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتا
۔امام خمینی نے کرپٹ معاشرہ بدلا ،نیا معاشرہ تشکیل دیا ، انصاف کو نئی جہت
عطا کی۔قوم کو شعور عطا کیا اور ان کے اندر جرات ِایمانی کا شعلہ روشن
کیا۔پاکستان جس طرح جنگل کے قانون کی گرفت میں ہے اس میں کسی سخت گیر
حکمران کی ضرورت ہے جوصالح بھی ہو، آئین و قانون پر عمل داری کو یقینی بھی
بنا سکتا ہو ،جو اقربا پروری سے کوسوں دور ہو اور جس کا شکنجہ ظالموں کی
گردنیں ناپ سکتا ہو۔ایک زمانہ تھا کہ فوجی قوت اور اسلحہ کے زور پر ممالک
فتح ہوتے تھے اور جس ملک کے پاس زیادہ اسلحہ اور گولہ بارود ہو تا تھا وہی
فاتح قرار پاتا تھا ۔ماضی کی ساری عظیم سلطنطیں اسی اصول کے تحت قائم ہوتی
تھیں۔بڑے بڑے سیاسی خا ندان اور شہنشاہ تلوار کے زور پر فاتح قرار پاتے تھے
اور ان کا خاندان کئی صدیوں تک حکومت کرتا رہتا تھا ۔ شہاب الدین غوری ،
محمود غزنوی،ایلتمش،تغلق،ایبک اور کئی دوسرے حکمران شمال سے ہندوستان پر
حملہ آوار ہو کر اسے تاراج کرتے تھے۔سولہویں صدی میں پانی پت کے میدان میں
ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکشت دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیادیں
رکھیں تو تین صدیوں تک مغلیہ خاندان کا اقتدار قائم رہا۔اس کا اقتدار
انگریزوں کی آمد کے بعد ختم ہوا ۔ طالبان اپنی اسی عظیم سلطنت کے احیاء کے
بیانیہ پر قائم ہیں اور پاکستان پر اپنا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں۔قومیں اپنا
ماضی نہیں بھولتیں لہذا انھیں جب بھی موقعہ ملتا ہے تاریخ میں اپنے قائم
شدہ حق کو لینے کیلئے سر گرم ہو جاتی ہیں۔ترکی میں بھی سلطنتِ عثمانیہ کے
احیاء کی ایسی ہی تحریک زوروں پر ہے۔،۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برِ صغیر مختلف اقوام کا ایک خطہ تھا جس میں راجے
مہاراجے ہر چھوٹی بڑی ریا ست کا انتظام سنبھالے ہوئے ہو تے تھے۔کمزور راجوں
کیلئے بیرونی حملہ آوروں کے سامنے ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا تھالہذا خراج دے
کر جان چھڑا لی جاتی تھی ۔ صدیوں تک یہی وطیرہ برِ صغیر کا سیاسی چلن
تھا۔مغلیہ دور ِ حکومت نے ہندوستان کو کسی حد تک ایک ملک کی شکل دینے کی
کوشش کی ۔ان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں تبھی تو انگریز نے پورے برِ
صغیر کو ایک صدی تک طوقِ غلامی میں جکڑے رکھا ۔جمہوری کلچر کی آمد کے ساتھ
جتھہ بندی اور بندوق کلچر کا خاتمہ ہوا لہذا اب حکومتیں بندوق کے زور پر
نہیں بلکہ ووٹ کی پرچی سے تبدیل ہوتی ہیں ۔ طالبان کو یہ انفرادیت حاصل ہے
کہ ان کی حکومت بیلٹ سے نہیں بلکہ بلٹ سے قائم ہوئی ہے اسی لئے دنیا اسے
تسلیم کرنے سے ہچکچارہی ہے ۔ طالبان اپنی سوچ کو پرچی سے نہیں بلکہ مذہبی
شدت پسندی کی قوت سے دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ان کا سب سے
پہلا ہدف پاکستان ہے۔اس ہدف میں انھیں کامیابی ہو گی یا کہ نہیں اس کا دارو
مدار پاکستانی قوم کے ا خلاقی رویوں پر ہے ۔ اگر یہ قوم اسی طرح بد دیانتی
، جھوٹ،منافقت، اور مکرو فریب کی حامل رہی تو اس کے بچاؤ کے امکانات نابود
ہو جائیں گے۔قومیں اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنے اعمال سے زندہ رہتی ہیں
۔کتنی ہی منہ زور اقوام فسق و فجور میں پڑیں تو حرفِ غلط کی طرح مٹ
گئیں۔پاکستانی قوم کو اگر قائم رہنا ہے تو اسے اپنی موجودہ روش کو بدلنا ہو
گا ، آئین و قانون کا علم تھامنا ہوگا،عدل و انصاف کو سینے سے لگانا ہوگا،،
ملاوٹ اور بد دیانتی سے توبہ کرنی ہو گی ، جھوٹ سے کنارا کش ہو نا ہو گا ،
سچائی اور کمٹمنٹ کا دامن تھامنا ہو گا۔خدا کی خد ا ئی اور اس کی عظمت کسی
قوم کی مرہونِ منت نہیں ہوتی ۔اس کے ہاں کتنی ہی قومیں آئیں اور پھر صفحہ
ہستی سے مٹ گئیں لیکن خدا کی خدائی میں کوئی کمی واقعہ نہ ہوئی ۔اس کے ہاں
صرف وہی قوم چہیتی ہوتی ہے جو اصولوں کی پاسداری کرتی ہے۔اس کے برعکس وہ
قوم جو اصولو ں کا خون کر دیتی ہے اس کا وجود مٹ جاتا ہے ۔کسی شخص کو اس
غلط فہمی میں نہیں رہنا چائیے کہ افغانستان اسلامی ملک ہونے کے ناطے
پاکستان کی علاقائی حدود کا احترام کرے گا بلکہ انھیں اس بات کیلئے تیار
رہنا ہو گا کہ افغانستان پاکستان پر یلغار کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ اس
کی یلغار کی نوعیت کیا ہو گی اور اس میں کتنا خون بہے گا اس بارے میں تو
کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایسا ہو گا ضرور ۔ملکی حالات اس بات کا
عندیہ دے رہے ہیں کہ اسے ہو کر رہنا ہے ۔فوج کے خلاف عوامی نفرت کی جولہر
پیدا کی جا رہی ہے وہ بھی اس کا حصہ ہے۔اگر فوج کمزور ہو گئی اور عوام کا
اس سے اعتبار اٹھ گیا تو افغانی یلغار کی کامیابی انتہائی آسان ہو جائیگی
۔عمران خان کے طالبان سے روابط کوئی راز نہیں لہذا عمران خان کا سارا زور
فوج کے اندر انتشا ر اور بغاوت کو بڑھاوا دینے پر ہے۔شہباز گل،اعظم سواتی
اور فواد چوہدری یہی کام سر انجام دے رہے ہیں ۔کیا ان کی نفرت انگیز جذبات
عوام میں مقبولیت حاسل کر پائیں گے یا نقش بر آب ثابت ہوں گے اسی میں
پاکستان کا مستقبل پنہاں ہے۔امیدِ واثق ہے کہعالمی سازشوں کے باوجود
پاکستان کی سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آ ئیگی۔،۔
|