ماہ جنوری میں شائع ہونے والے کالم "صوبائی اسمبلیوں کی
تحلیل اور آئینی تقاضے" میں مفصل انداز میں عام انتخابات کے انعقاد کے
موضوع پر آئین کے آرٹیکل 224 کا حوالہ دیا تھا۔ آرٹیکل 224 کے مطابق اگر
قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی (پانچ سالہ) مدت پوری ہونے پر
تحلیل ہو گی تو 60 روز کے اندر نئے الیکشن کرائے جائیں گے۔ جبکہ قومی
اسمبلی یا صوبائی اسمبلی عام انتخابات کے بعد آئینی (پانچ سالہ) مدت پوری
ہوئے بغیر قبل از وقت تحلیل کردی جائے (جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے
تحت وزراء اعلی پنجاب و خیبر پختونخواہ نے اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں
کوتحلیل کردیا ہے) تو اس صورت میں ضمنی انتخابات کی بجائے اسمبلی تحلیل
ہونے کے 90 روز کےاندر صوبہ میں عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ پنجاب
کی صوبائی اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی اسلئے آئین کے مطابق صوبہ پنجاب
میں عام انتخابات 14 اپریل تک ہونا لازمی ہے۔ 18 جنوری کوکےپی کے صوبائی
اسمبلی تحلیل ہوئی، اسلئے آئین کے مطابق صوبہ کے پی کے میں عام انتخابات
18 اپریل تک ہونا لازمی ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا تاہم الیکشن
کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے شیڈول کا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوسکا۔
آئینی طور پر الیکشن کمیشن صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کا نوٹیفیکیشن
گورنر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے فرمان کے بعد ہی جاری کرنے کا مجاز
ہے۔ اعلی عدلیہ، سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی اورصدر پاکستان کی جانب
سے الیکشن کمیشن پر شدید دباؤ ہے کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخوں
کا اعلان کرے۔ یہاں تک کہ صدر پاکستان نے تو دونوں صوبوں کی اسمبلیوں کے
عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرکے اک بہت بڑا آئینی بحران بھی پیدا
کردیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں دونوں صوبوں کے گورنر صاحبان کا کردار
بھی انتہائی افسوسناک ہے، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 105 کی شق نمبر 3 کے تحت:
جب گورنر کسی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرے گا تو گورنر اسمبلی تحلیل کے 90
روز کے اندر اندر انتخابات کروانے کی تاریخ مقرر کرے گا۔ جبکہ آئین کے
آرٹیکل 48 کی شق نمبر 5 کے تحت :جب صدر قومی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے تو
صدر اسمبلی تحلیل کے 90 روز کے اندر اندر انتخابات کروانے کی تاریخ مقرر
کرے گا۔ ایک طرف صوبائی گورنر صاحبان اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرتے
دیکھائی نہیں دے رہے تو دوسری جانب آئینی ماہرین کے نزدیک صدر پاکستان کی
جانب سے صوبوں کے عام انتخابات کے اعلان کو غیر آئینی تصور کیا جارہا ہے۔
یہ تمام تر صورتحال پاکستان کے (پہلے ہی سے کمزور) جمہوری نظام پر منفی
اثرات مرتب کررہی ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان کے آئینی
سربراہان اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہے۔ مملکت میں جاری سیاسی
و آئینی بحران پر قابو پانے کے لئے 22 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان نے
ازخود نوٹس لے لیا ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ بہت جلد سیاسی و آئینی
بحران پر قابو پالیا جائے گا اور بہت جلد صوبوں میں عام انتخابات کی
تاریخوں کا اعلان ہوجائے گا۔ یہ بات کہنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس
نہیں ہوتی کہ پاکستان کی تجربہ کار اور کئی مرتبہ برسراقتدار رہنے والی پی
ڈی ایم جماعتیںخصوصا پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت
علماء اسلام دونوں صوبوں میں عام انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتی دیکھائی
دے رہی ہیں۔ حالانکہ پونے چار سال تک یہ جماعتیں پاکستان تحریک انصاف حکومت
کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی تھیں۔اورماضی میں عمران خان حکومت خاتمہ کے
لئے شبانہ روز اپنی توانیاں صرف کرتی دیکھائی دیں۔عمران خان کے دور حکومت
میں ان جماعتوں کا سب سے بڑا مطالبہ ہی عمران حکومت کا خاتمہ اور پورے ملک
میں عام انتخابات کا انعقاد تھا۔ مگر آج ان جماعتوں کوکیا مجبوری آن پڑی
کہ ان جماعتوں کے نمائندہ گورنر صاحبان عام انتخابات کی تاریخیں نہ دے
کراپنے حلف کی( جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کا عہدکیا تھا) سرعام خلاف
ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام کے مرتکب ہورہے ہیں۔ آخر پی ڈی ایم
جماعتیں کیوں عام انتخابات سے کنی کترارہی ہیں۔پی ڈی ایم جماعتوں کے
نمائندگان میڈیا پر یہ دعوے کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم جماعتیں ریاست پاکستان
کو بچانے کے لئے اپنی سیاست کو قربان کررہی ہیں۔ جبکہ حقیقت اسکے بالکل
برعکس ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نےاپنے بُرے طرز حکومت ، ہوشربا اور
نہ ختم ہونے والی مہنگائی، مالی معاملات پر قابو نہ پانے کی بناء پر پی ٹی
آئی کے بُرے طرز حکمرانی کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہی خوف پی ڈی ایم
جماعتوں کو کھائے جارہا کہ عام انتخابات میں یہ جماعتیں اپنے بُرے طرز
حکومت کی بناء پر بدترین شکست کا سامنا کریں گی۔بظاہر ایسا محسوس ہوتاہے کہ
شہر شہر گاؤں گاؤں پی ڈی ایم خصوصا ن لیگ کی سیاست کے جنازے نکل چکے ہیں۔
بس اب تدفین ہونا باقی ہے۔بہرحال سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو ایکشن لینے
کے بعد یہ بات اطمینان بخش ہے کہ بہت جلد دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے
انعقاد کے لئے تاریخوں کا جلد اعلان ہوجائے گا۔اور پی ڈی ایم جماعتوں کے
لئے عام انتخابات سے راہ فرار ناممکن ہوجائے گا۔دوست احباب یہ اعتراض کرتے
ہیں کہ عدلیہ بار بار کیوںانتظامی امور میں دخل اندازی کرتی ہے۔ ان
دوستوںکے لئے عرض ہے کہ جب ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے آئینی عہدیدران
اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں کہ تو اس خلا کو پورا کرنے کے لئے
عدلیہ کو ہی آنا پڑے گا۔ حالانکہ راقم اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سوموٹو
ایکشن لیکر انتظامی امور میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتامگر موجودہ حالات
میں راقم سوموٹو کی حمایت کئے بنا نہیں رہ پایا۔یعنی جو آپکی آئینی ذمہ
داری ہے وہ کام عدالتوں کے حکم پر کرناپڑے گا۔شائد اسی موقع کے لئے سو پیاز
اور سو جوتے والی کہاوت کو یاد کیا جاتا ہے۔ آئینی تقاضوں، عدالتی مداخلت
اور مملکت کے معروضی سیاسی حالات کی بناء پر پی ڈی ایم کے لئے دونوں صوبائی
اسمبلیوں کے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔
|