چھتیس گڑھ کے رائے پور میں پچھلے جمعہ سے
کانگریس کے 85ویں کنونشن کا اہتمام کیا گیا۔ اس اجتماع میں 15000 سے زیادہ
کانگریس رہنما جمع ہورہے تھے۔ قومی صدر ملکارجن کھڑگے سمیت راہل گاندھی اور
پرینکا گاندھی کے استقبال کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔ کنونشن میں اس سال ہونے
والے اسمبلی اور 2024 کے لوک سبھا انتخاب کی تیاری کا خاکہ پیشکش کے لیے
تیار کیا جارہا تھا اور آخری دن یعنی 26 فروری کو جلسہ عام کو کامیاب کرنے
کی مہم چل رہی تھی لیکن قومی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے مکمل سناٹا تھا
کہ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ عصر حاضر کے میڈیا کی خوبی یہ ہے کہ اس کو
بولنے ، جھوٹ بولنے اور خاموش رہنے کی بھی اجرت ملتی ہے۔ اس دوران اچانک
رائے پور سے ای ڈی کے چھاپوں کی خبر آگئی۔ یہ چھاپہ چونکہ کانگریس رہنماوں
کے گھروں پر مارے جارہے تھے اس کے طفیل کنونشن کی ہلکی سی خبر بھی آگئی
ورنہ کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
اس چھاپہ ماری پر احتجاج کرتے ہوئے کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے کہا موجودہ
حکومت میں ای ڈی کا مطلب جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔ 2002 سے 2014 کے درمیان
یو پی اے حکومت نے 112 چھاپے مارے لیکن مودی سرکار نے 8 سالوں میں 3010
چھاپے ماردیئے ۔ان میں 95 فیصد چھاپے اپوزیشن پر تھے۔ راہل گاندھی سے ای ڈی
نے 50 گھنٹے تک اور سونیا گاندھی سے ای ڈی نے مسلسل تین دن پوچھ گچھ کی
گئی۔ موجودہ صدر ملک ارجن کھڑگے کوبھی ای ڈی نے نہیں بخشا۔ چھتیس گڑھ
کےچھاپوں کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی
بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی سے خوفزدہ ہے اور اس لیے پارٹی کے قومی کنونشن
سے قبل خزانچی، کچھ ارکان اسمبلی ، کئی کارپوریشن کے چیئرمین اور ایک
ترجمان کے یہاں ای ڈی چھاپے پڑے۔ اس وقت پون کھیڑا نہیں جانتے کہ اس کی سب
سے بڑی سوغات یعنی گرفتاری تو ابھی باقی ہے۔
پون کھیڑا کی گرفتاری نے کنونشن کے علاوہ ا ن کے نہایت ظریفانہ اور
جرأتمندانہ بیان کو بھی مشہور کر دیا ۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر تو آئی
تھی کہ بی جے پی والوں کو ان کا کوئی بیان ناگوار گزرا ہے لیکن یہ لوگ
چونکہ ہوا سے لڑتے رہتے ہیں اس لیے لوگوں نے اسے نظر انداز کردیا ۔ عوام نے
سوچاکہ یہ مخالفت برائے مخالفت یا اڈانی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی کوشش
ہوگی۔ بی جے پی والے تھوڑا بہت شور شرابہ کرکے اگر بھول بھال جاتے تو ان کے
حق میں بہتر تھا ۔ ان کی گرفتاری نے سارے ذرائع ابلاغ کوان کا بیان شائع
کرنے اور نشر کرنے پر مجبور کردیا ۔ تب جاکرپتہ چلا کہ وہ تو بہت ہی کڑوا
سچ تھا ۔ سچائی کتنی بھی کڑوی ہوصداقت ہوتی ہے ۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے
کہ ایک کے لیے کڑوی چیز دوسرے کو میٹھی بھی لگ سکتی ہے۔ اس لیے بی جے پی کو
دی گئی یہ دوائی دراصل اس کے مخالفین کی خاطر ایک لذید مٹھائی ثابت ہوئی ۔
انہوں نے اسے بار بار سن کراور پڑھ کر اس کا مزہ لیا ۔ پون کھیڑا کی
گرفتاری اگر نہ ہوتی تو لوگ اس لذت سے محروم رہ جاتے اس لیے امیت شاہ کی
دہلی اور بسوا سرما کی آسام پولیس شکریہ کی حقدار ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل انصاف کا تقاضہ ہے کہ بی جے پی کے اعتراض پر بھی ایک نظر
ڈال لی جائے۔ ان کو پہلی پریشانی یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اہانت گویا ملک کی
توہین ہے۔ ویسے آئین کے مطابق سبھی شہری یکساں حقوق رکھتے ہیں ۔ وزیر اعظم
بھی عام باشندوں کی طرح ایک ہی ووٹ دے سکتا ہے۔ ویسے مودی جی کی حیثیت بھی
صرف وزیر اعظم کی نہیں بلکہ پارٹی لیڈر کی بھی ہے۔ وہ ملک بھر میں گھوم
گھوم کر اپنی پارٹی کا پرچار کرتے ہیں اور ان کی یہ مہم وزیر اعظم کی حیثیت
سے نہیں بلکہ بی جے پی رہنما کے طور پر ہوتی ہے۔ آج جبکہ یہ مضمون لکھا
جارہا ہے وہ میگھالیہ کے انتخابی دورے پر ہیں ۔ وہاں مودی جی فرما رہے ہیں
کچھ لوگ جن کو ملک نے مستر دکردیا وہ مایوس ہوکر مالا جپ رہے ہیں کہ مودی
تیری قبر کھدے گی لیکن دیش کہہ رہا ہے ملک کونے کونے میں مودی تیرا کمل
کھلے گا۔ یہ سوال ملک کا پردھان منتری کررہا ہےیا پارٹی کا پرچار منتری؟
اسی طرح انہوں نے ناگالینڈ میں کہا کہ کانگریس نے شمال مشرق کو اے ٹی ایم
مانا ہوا تھا ۔ سرکار ی رقم عوام تک نہیں بلکہ بدعنوان جماعتوں کی تجوری
میں پہنچتی تھی۔ یہاں پر وہ حزب اختلاف پر بدعنوانی کا الزام لگانے والے
زعفرانی رہنما ہیں ایسے میں ان پر کیا جانے والا جوابی حملہ وزیر اعظم پر
نہیں بلکہ بی جے پی لیڈر پر ہوگا ۔ یہ فرق جب تک عوام وخواص کی سمجھ میں
نہیں آئے گا اس وقت تک آئینی عہدے کی اہانت والی یہ الجھن موجودرہے گی۔
مودی بھگتوں کو ایک اعتراض یہ ہے کہ کھیڑا نے مودی جی کے آنجہانی والد کی
توہین کی ہے ۔ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ان کے بارے میں تو کچھ کہا ہی نہیں
گیا۔ نریندر مودی کے پورے نام میں دامودر داس شامل ہے۔ اس لیے یہاں نہ تو
وزیر اعظم مخاطب ہیں اور نہ دامودر داس کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ بی جے پی
پارلیمانی بورڈ کے رہنما نریندر مودی سے خطاب کیا گیا ہے۔ ویسے نریندر مودی
کی توہین سے پریشان ہونے والوں کو ان کے زبان و بیان پر بھی توجہ دینی
چاہیے۔ ابھی حال میں انہوں نے ایوان پارلیمان میں سوال کیا تھا کہ اگر نہرو
سے اتنی محبت ہے تو کوئی ان کا نام اپنے ساتھ کیوں نہیں لگاتا؟ مودی جی اس
وقت وزیر اعظم کی حیثیت سے ایوان بالہ سے خطاب کررہے تھے انہیں راہل گاندھی
کےپرناناکا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور وہ بھی ملک کے وزیر اعظم تھے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ مودی جی خود اپنے ساتھ نانا کا خاندانی نام لگاتے
ہیں یا دادا کا؟ ایسے میں اگر راجیوگاندھی اپنے والد فیروز گاندھی کا نام
لگاتے تھے توکیا غلط تھا ۔ سونیا گاندھی کا اپنے شوہر کے حوالے سے گاندھی
نام لگانا اور راہل کا گاندھی کہلانا کیسے غلط ہوگیا ؟ آخر بی جے پی والوں
کو گاندھی سے کیا پریشانی ہے؟2019کے اندرپرتاب کڑھ اترپردیش ایک انتخابی
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ :’’تمہارے
والد کو ان کے درباریوں نے ’مسٹر کلین‘ کے خطاب سے نوازہ تھا لیکن ان کا
انتقال بدعنوان نمبر ایک کی حیثیت سے ہوا۔ یہ جملہ ایک وزیر اعظم نے اپنے
پیش رو آنجہانی وزیر اعظم کے بارے میں کہا تھا۔ کیا یہ اس کے وقار کو زیب
دیتا تھا ؟ کیا اس سےر اجیو گاندھی کے پسماندگان کے جذبات کو ٹھیس نہیں لگی
ہوگی؟ کیا یہ ایک آئینی عہدے کی توہین نہیں تھی ؟ مودی جی بوفورس نامی جس
بدعنوانی کا ذکر کررہے تھے اس کو دہلی کی ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔ بی
جے پی نے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کی۔
مودی نے اپنی تقریر میں ایک ایسے رہنما کی اہانت کی جس نے دہشت گردی کا
شکار ہوکر جان گنوائی۔ اس وقت کہاں گئے تھے جذبات و احساسات کے علمبردار ؟
منموہن سنگھ کے عہدے پر ہوتے ہوئے مودی جی نے رین کوٹ پہن کر نہانے والا
کہا تو کیا وہ ان کے حمام جھانکنے کے لیے گئے تھے؟ کیا وہ آئینی عہدے کی
توہین نہیں تھی جبکہ منموہن پر بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور
مودی خود اڈانی کو بچانے کے لیے جے پی سی سے بھاگ رہے ہیں۔شیش محل میں رہنے
والے دوسروں کی جانب پتھر نہیں اچھالتے ۔انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم
اپنا مرتبہ خود بھول جاتے ہیں اور ایک منتخب شدہ وزیر اعلیٰ کو ’دیدی او
دیدی‘ کہہ کران کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کا آئینی تقدس ہے تو
کیا وزیر اعلیٰ کا نہیں ہے؟ بی جے پی والوں نے جب سونیا گاندھی کو جرسی
گائے کہا تھا اس وقت اخلاق و عادات کہاں گھاس چرنے گئے تھے؟ پون کھیڑا کو
گرفتار کرکے بی جے پی والوں نے اپنے خلاف الزامات کی توپ کا دہانہ کھول دیا
اور لینے کے دینے پڑگئے۔
پون کھیڑا کو گرفتار کرکے اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے بی جے پی سازش پوری
طرح ناکام رہی ۔ قومی کنونشن میں ملک ارجن کھڑگے نے کہا کہ راہل گاندھی کی
کنیا کماری سے کشمیر تک ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران ملک بھر میں جو
توانائی پیدا ہوئی اور مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی معاملات پر جس طرح
بیداری آئی، اس جوش کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ وہ بولے یہ کنونشن ایسے وقت
میں منعقد ہو رہا ہے جب اس ملک کو بہت سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔جمہوریت
اور آئین کو خطرہ ہے۔ پارلیمانی ادارے بھی شدید بحران کا شکار ہیں۔ سیاسی
سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کے صدر نے پارٹی
رہنماوں کو تلقین کی کہ وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ یہ پون
کھیڑا کی بلا واسطہ تائید تھی۔ انہوں کارکنان کو اجتماعی فیصلہ کرنے کی بھی
ہدایت دی ۔ بی جے پی جہاں ہم دو اور ہمارے دو کی چلتی ہے اور تیسرے کسی فرد
کو کوئی پوچھتا تک نہیں یہ پہلو مفقود ہے ۔ وہاں مودی جی رائے پہلی اور
آخری ہوتی ہے اس کے برعکس کھڑگے نے کہا کہ جو آپ کی رائے بنے گی، وہی میری
اور سب کی رائے ہوگی۔ یہ دعویٰ بہت آسان مگر اس پر عمل مشکل ہے لیکن یہی
چلن ہرا جتماعیت کو مضبوط کرتاہے۔ ویسے اس کنونشن کی تشہیر امیت شاہ کی
مرہونِ منت پون کھیڑا کی گرفتاری تھی۔ اس کے لیے کانگریس کو مودی سرکار کا
شکر گزار ہونا چاہیے۔
(۰۰۰۰۰جاری)
|