جب پاک۔بھارت جوہری میزائل جنگ کے دہانے پر جا پہنچے۔۔

 26 فروری 2019کا دن پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن بھارت نے بالاکوٹ پر نام نہاد’سرجیکل سٹرائیک‘ کیا عددی طاقت کے نشے میں چور بھارتی فضائیہ کے جنگی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور بالا کوٹ کے علاقے تک پہنچ گئے۔ بھارتی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی پر پاک فضائیہ فوری حرکت میں آئی تو بھارتی فضائی جنگی طیارے اس بُری طرح فرار ہوئے کہ بھاگتے ہوئے طیاروں نے اپنی رفتار بڑھانے کیلئے پے لوڈ بھی گرا دیا جس سے کئی درختوں او ر ایک کوے کو نقصان پہنچا۔ بھارت نے اپنی اس حرکت کو ’سرجیکل سٹرائیک ٹو‘ کا نام دیا اور دعویٰ کیا کہ اس میں 350 دہشت گرد مارے گئے لیکن آج تک اس کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور عالمی سطح پر بھی اس امر کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ پاکستان پر حملہ کسی مبینہ دہشت گرد گروپ کے ٹھکانے پر کیا گیا تھا، ملکی و عالمی ذرائع ابلاغ کو اس جگہ کا دورہ بھی کرایا گیا جہاں بھارت نے دعوی کیا تھاکہ اسے کامیابی ملی ہے تاہم بھارتی حملے کا جواب پاکستان نے اگلے ہی دن یعنی 27 فروری 2019 کو بھارت کے دو طیارے گرا کر اور ایک پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کرکے دیا۔ جسے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا اور خیر سگالی کے طور پر پائلٹ کو رہا کرکے ثابت کیا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ واضح رہے کہ پائلٹ کی گرفتاری کے بعد بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کا منصوبہ بنایا تھا، یہ اعتراف بھارت کی سکیورٹی کابینہ کمیٹی کے ایک اہم رکن نے کیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 27 فروری کو پاکستان اور بھارت خطرناک حد تک ایک دوسرے پر میزائل داغنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ مگ 21 طیارے کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کے پکڑے جانے کے بعد وزیر اعظم مودی نے انتہائی خطرہ مول لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں کے مطابق پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو یقین تھا کہ بھارت 27فروری کی رات مختلف پاکستانی اہداف کو کم از کم 9میزائلوں سے نشانہ بنانے کی منصوبہ بند ی کر رہا تھا، جواب میں پاکستان نے بھارتی اہداف کو کم از کم 13 میزائلوں سے نشانہ بنانے کی تیار ی کر رکھی تھی۔ ممکنہ بھارتی میزائل حملے کی رپورٹس جیسے ہی منکشف ہوئیں، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی چھاؤنیوں اور دفاعی تنصیبات والے علاقوں سمیت بعض شہری علاقوں میں بلیک آؤٹ کا حکم دے دیا گیا۔

سرجیکل سٹرائیک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا، مبالغہ آمیز اورمن گھڑت ثابت ہوا۔ 26فروری کے واقعے کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی بڑے پیمانے پر کوریج دی اور بہت سے خبر رساں اداروں نے صورتحال اور خطے پر اس کے ممکنہ مضمرات کا گہرائی سے تجزیہ کیا۔ امریکہ کی این جی او کے تھنک ٹینک ”نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ“ کے لیے یونائیٹڈ سٹیٹس آف پیس کے سینیئر مشیر برائے جنوبی ایشیا پروفیسر ڈینیئل مارکی نے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا، جس میں بھارت کے لبرل اور جمہوری ہونے کے دعوے کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ڈینیئل مارکی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر بالاکوٹ فضائی حملے میں عسکریت پسندوں کے کیمپ کو تباہ کرنے اور ایک پاکستانیF-16 کو مار گرانے کے بے بنیاد دعوؤں نے بھی امریکہ میں بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اس کے مواصلاتی حکمت عملی پر سوالیہ نشان کھڑا کیا۔ بھارتی فضائیہ نے پاکستانی علاقے میں مبینہ دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں پر فضائی حملے کا دعوی کیا تھا۔ بھارتی حکومت نے اسے قبل از وقت غیر فوجی حملہ قرار دیا تھا تاہم پاکستان نے اس امر کی تردید کی کہ نشانہ بنائے گئے علاقے میں ایسے کوئی کیمپ موجود ہیں اور اسے اپنی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کی خلاف ورزی قرار دیا۔

بھارت میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے ماہرین اور میڈیا ذرائع کی جانب سے مشاہدات اور تجزیے کیے جاتے رہے ہیں۔ قومی سلامتی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ کئی دہائیوں سے بھارتی سیاست میں ایک متنازع اور جذباتی موضوع رہا ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو اکثر سیاسی فائدے کے لیے ہوا دی جاتی ہے۔ خیال رہے باراک اوباما نے اپنی کتاب دی پرومسڈ لینڈ میں لکھا تھا 'پاکستان مخالف جذبات پر بھارت انتخابات جیتتا ہے۔’

بھارت نے اپنے اقدام کو 14 فروری 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہونے والے حملے کے بعد، جس میں 40 ہندوستانی سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے، سرجیکل سٹرائیک کے جواز کے طور پر باور کرایا۔ تاہم جنوری2022 میں کانگریس رہنما ادت راج نے مودی پر پلواماحملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا جبکہ 16 جنوری 2021 کو دی وائر کی رپورٹ میں ارناب گو سوامی کی لیک واٹس ایپ چیٹ کے مطابق پلواما حملے میں مودی سرکار خود ملوث تھے۔ بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت مہاراشٹرنو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے دعویٰ کیا کہ اگر پلوامہ کے حملے کے بارے میں قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈووال سے پوچھ گچھ کی جائے تو اس حملے کی پوری حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ راج ٹھاکرے نے ہلاک ہونے والے انڈین سیکورٹی اہلکاروں کو 'سیاسی مظلوم' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہر حکومت اس طرح کی صورتحال تخلیق کرتی ہے لیکن مودی کی حکومت میں یہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔‘ سازش کے تحت پلو امہ حملے کے بعد بھارت نے سفارتی اور معاشی اقدامات بھی کیے جن میں پاکستان کا موسٹ فیورڈ نیشن (ایم ایف این) کا درجہ ختم کرنا اور پاکستانی مصنوعات پر کسٹم ز ڈیوٹی عائد کرنا اور پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوششیں شروع کرنا شامل ہیں۔ بھارتی حکومت نے اپنی مسلح افواج کو حملے کا جواب دینے کی 'مکمل آزادی' بھی دی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان دعوؤں کی حمایت میں ثبوت مانگے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت بھی معطل کردی اور سفارتی تعلقات کو بھی کم کردیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے بھارتی اور پاکستانی زیر انتظام علاقوں کو الگ کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

بھارت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ (یو این ایم او جی آئی پی) 1949 میں جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کرنے اور رپورٹ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس گروپ میں مختلف ممالک کے فوجی مبصرین شامل ہیں اور اس کا مینڈیٹ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں پر مبنی ہے۔ یو این ایم او جی آئی پی نے بار بار ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی اطلاع دی، جس میں سرحد پار فائرنگ اور گولہ باری بھی شامل ہے۔ یو این ایم او جی آئی پی کا کردار ایسی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کرنا اور ان کی رپورٹ کرنا ہے، تاہم اس کے پاس ان کو روکنے کے لئے کاروائی کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔26فروری کے نام نہادسرجیکل سٹرائیک جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل موثر اقدامات نہیں کررہا اور اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے دو ایٹمی ممالک کے درمیان اس قسم کی مذموم کاروائیوں کے نتیجے میں جنگ چھیڑنے کے امکانات رہیں گے۔ پاکستان متعدد بار بھارتی جنگی ایڈونچر اور فالس سرجیکل سٹرائیک کی سازشیں بروقت آشکارہ کر چکا ہے۔ تاہم عالمی اداروں کا کردار اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ خطے میں جوہری جنگ کے امکانات دوبارہ پیدا نہ ہوں۔
 
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743607 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.