منیش سسودیہ کی گرفتاری نہ صرف دہلی بلکہ
قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ بی جے پی اور عآپ کے درمیان
دہلی کے اندر اقتدار کی دلچسپ جگل بندی تھی۔ ایوان پارلیمان اور بلدیہ میں
کمل کھلتا تھا مگر صوبائی اسمبلی میں زور و شور سے جھاڑو چل جاتا تھا ۔
دہلی کے بلدیاتی انتخاب میں اپنی پکڑ بنائے رکھنے کی خاطر بی جے پی نے عام
آدمی پارٹی کے وزیر صحت ستیندر جین کو گرفتار کرکے اس کی طبیعت خراب کردی۔
وہ ہنوز قید و بند کی صعوبت جھیل رہے ہیں۔ گجرات انتخابی مہم کے دوران جب
اروند کیجریوال نے خود کو ’کٹر ایماندا ر‘ کے لقب سے نوازہ تو اچانک تہاڑ
جیل سے ستیندر جین کی ویڈیوز نکلنا شروع ہوگئیں۔ اس میں پہلے تووہ گھر کا
لذیذ کھانا نوش فرماتے ہوئے نظر آئے ۔ عام آدمی پارٹی نے اس پر صفائی دی
چونکہ وہ جین ہیں اس لیے پر ہیزی کھانا گھر سے منگواتے ہیں ۔ دھرم کا
معاملہ آگیا تو ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں کوئی قیدی ان کے پاوں
دباتا دکھائی دیا ۔ عآپ نے پھر صفائی دی کہ وہ فیزیو تھیراپی کروا رہے ہیں
اور بی جے پی والے ایک سن رسیدہ بیمار رہنما کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کیجریوال
کے لوگوں نے بی جے پی کے سارے حربے ناکام کردئیے تو وہ سلسلہ بند ہوگیا۔
ستیندر جین کی مذکورہ ویڈیوزکے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ کٹرّ ایماندار
پارٹی کا اہم رہنما بدعنوانی کے الزام میں جیل کے اندر عیش کررہا ہے۔ اس
تشہیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ پندرہ سال تک دہلی میونسپل کارپوریشن میں راج
کرنے والی بی جے پی بلدیاتی انتخاب ہار گئی مگراس نے سبق نہیں سیکھا ورنہ
وہ پرانی غلطی کو دوہراکرمنیش سسودیہ کی گرفتار نہیں کرتی۔ پچھلے اسمبلی
الیکشن میں عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان بیس فیصد کا
فرق تھا جو بلدیاتی انتخاب میں تین فیصد پر آگیا اس لیےزعفرانیوں نے سوچا
کیوں نہ کیجریوال کو مزید کمزور کرکے جھاڑو کو بکھیر دیا جائےلیکن وہ فرق
میں کمی کی وجہ بھول گئے۔ مسلمانوں کے کیجریوال کا ساتھ چھوڑا کر کانگریس
کا ہاتھ تھام لینے کے سبب ووٹ کم ہوئے تھے ۔ منیش سسودیہ کی گرفتاری نے
کانگریس اور عام آدمی کو قریب کردیا ہے۔ یہ قربت اگر پارلیمانی کے اندر
الحاق میں بدل جائے تو دہلی میں کمل مرجھا جائے گا کیونکہ ان کے مشترکہ ووٹ
پچاس فیصد سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔
اڈانی کی بدعنوانی بی جے پی کی راہ میں بڑی پریشانی ہے۔ پہلے وہ اپنے گھپلے
دبا دیتی تھی مگر اس عالمی مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانا ممکن نہیں ہے۔ منیش
سسودیہ کو گرفتار کرکے سبھی کو بدعنوان ثابت کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ رائے
دہندگان کو بتایا جارہا ہے کہ ’ہم تنہا نہیں بلکہ سب کے سب چور ہیں‘۔ اس
لیے بدعنوانی کے بجائے یہ دیکھو کہ ’ہم دیش بھگت تلک لگا کر اوربھگوا وستر
دھارن کرکے چوری کررہے ہیں اس لیے کم از کم ہندوتوا کے نام پر ووٹ کی دکشنا
دے دو‘ لیکن یہ داوں الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔ انسان غیر کی چوری برداشت کرلیتا
ہے مگر اپنے کی دھوکہ دہی کو سبق سکھاتا ہے۔ وہ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے
دوں گا ‘ کا نعرہ لگانے والے کو دیکھتا ہے کہ سارا چارہ صرف ایک مقدس گائے
کے آگے پروس کر کروڈوں کوماہانہ پانچ کلو اناج پر گزارہ کرنے پر مجبور
کردیا گیا ہے تو غصے میں آکر انتقام بھی لے سکتا ہے۔ یہ منفی حکمت عملی
خطرناک ہے۔
ایوان پارلیمان کے اندر اپنی حالیہ تقریر میں وزیر اعظم نے بجا طور
پراعتراف کیا تھا کہ انفورسمنٹ ڈِپارٹمنٹ(ای ڈی) نے حکومت کے سارے مخالفین
کو متحد کردیا ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ حزب اختلاف کا اتحاد فائدے مند یا
نقصان دہ ہے؟ متحدہ اپوزیشن اگر بی جے پی کے مفید ہے تو انہیں ای ڈی کی
خوراک بڑھا دینی چاہیےورنہ کم ازکم انتخابی سال میں اس کا استعمال کم
ہوجانا چاہیے۔ حزب انتخاب کو متحد کرکے مقابلہ کرنے مشورہ دینے والا مشیر
وزیر اعظم کا خیر خواہ نہیں ہے۔ نرگسیت کا شکار مودی جی ویسے بھی بیجا خود
اعتمادی میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم ایوان پارلیمان میں اس کا اظہار
کرتے ہوئے اپوزیشن بینچ کی طرف سینہ ٹھوک کر کہا تھا کہ آج ملک دیکھ رہا
ہے کہ ایک اکیلا کتنوں پر بھاری پڑ رہا ہے ۔ میں ملک کیلئے جیتا ہوں، ملک
کیلئے کچھ کرنے کو نکلا ہوں ۔ ان کا یہ زعم ان کو اقتدار سے محروم کرسکتا
ہے گا کیونکہ تاریخ گواہ ہے متحدہ اپوزیشن کا مقابلہ نہ تو اندرا و راجیو
گاندھی اور نہ اٹل بہار ی کر سکے ہیں ۔ ان کو شکست فاش کے بعد اپنی غلطی کا
احساس ہوا اور مودی کو بھی ہوجائے گا۔
فی الحال ہر سیاسی پارٹی 2024 کی تیاری کررہی ہے۔ بی جے پی مخالفین کو ڈرا
دھمکا رہی ہے۔ کانگریس نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ اپنے مایوس کارکنان
میں حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ممتا بنرجی اور کے سی آر علاقائی
جماعتوں کا ایک تیسرا محاذ بناکر بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ
بنارہے ہیں۔ اروند کیجریوال ان سب سے الگ اپنا ڈیڑھ اینٹ کا مندر بناکر
ہنومان چالیسا پڑھ رہے ہیں۔ نوین پٹنائک اونٹ کے کروٹ کا اندازہ لگارہے
ہیں۔ اس دوران تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آرنے پٹنہ جاکر نتیش سے ملاقات
کی۔ غیر کانگریسی محاذ بنانے کے لیے اکھلیش اور ممتا بنرجی حیدرآباد میں
کے سی آر سے ملے ۔ ان سے ہٹ کر نتیش کمار نے دہلی میں سونیا گاندھی اور
راہل گاندھی سے ملاقات کی لیکن ساتھ ہی کیجریوال سے بھی ملے۔ یہ بی جے پی
کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی مگر اقتدار کے نشے میں دھت زعفرانی اس سے بے بہرہ
رہے۔
اس دوران پٹنہ میں بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل کنونشن منعقد ہوا ۔ اس
موقع پرنتیش کمار اور ٰ تیجسوی یادو کے علاوہ کانگریس رہنما سلمان خورشید،
جیتن رام مانجھی اور سی پی آئی-ایم ایل کے قومی جنرل سکریٹری دیپانکر
بھٹاچاریہ یکجا تھے۔ وہاں نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد پر زور دیتے ہوئے
کہاکہ اب کانگریس کو 2024 کا لائحہ عمل طے کرکے اپوزیشن اتحاد کو مضبوط
کرناچاہئے۔ کانگریس اگر تیار ہوجائے تو بی جے پی 100 سیٹوں پر سمٹ جائے گی۔
سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے نتیش کمار کایہ جواب دیا کہ جو آپ سوچتے
ہیں وہی کانگریس بھی سوچتی ہے بس آئی لویو کہنے میں پہل کا مسئلہ ہے؟ نتیش
کمار نے مطلع کیاکہ باقی تمام پارٹیوں کے فون آ رہے ہیں اور وہ متحد ہونے
کے لیے تیار ہیںوہ بولے کانگریس جس دن فیصلہ کرے گی ، اسی دن 2024ء کا
پارلیمانی الیکشن مل کر لڑنے کے لیے سب متحد ہوجائیں گے اور بی جے پی سے
نجات مل جائے گی۔ تیجسوی یادو نے بھی آنے والے انتخابات میں بی جے پی کو
شکست دینے کے لیے کانگریس پارٹی سے تمام علاقائی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم
پر لانے کی اپیل کی ۔
حزب اختلاف کے اتحاد میں جملہ چار رکاوٹیں ہیں۔ بی جے پی کے دباو میں مایا
وتی کسی کے ساتھ جانا نہیں چاہتیں۔ کے سی آر کو کانگریس کے مضبوط ہونے کا
خوف ستاتا ہے۔ ممتا بنرجی اور اروند کی آرزو مندی انہیں روکتی ہے۔ ایسے
میں بی جے پی کی بھلائی اس انتشار کو بڑھانے میں ہے لیکن اس نے شراب
گھوٹالے میں کے سی آر کی بیٹی کویتا کو ملوث کرکے کیجریوال سمیت بی آر
ایس کو اپنا دشمن بناکر کانگریسی اتحاد کی جانب ڈھکیل دیا۔ دسمبر کے
اندردہلی کی شراب پالیسی کے معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے کویتا پر
الزام لگائے تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے جیل میں ڈال دیں تب بھی نہیں ڈریں
گےاوربی جے پی کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔ابھی حال میں کویتا نے مرکزی حکومت
کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری والی ایل آئی سی
کمپنی کے ہولڈنگس 11 فیصد گھٹ گئی۔ ایل آئی سی میں سرمایہ کاری کرنے والے
متوسط درجہ کے لاکھوں افراد مودی سرکار سے پوچھ رہے ہیں کہ سی بی آئی، ای
ڈی، آربی آئی اس پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا یہ ادارے صرف سیاسی انتقام کے لئے
ہیں؟انہوں نے اڈانی گھوٹالے پر جے پی سی کا مطالبہ کیا۔ یہی بات عام آدمی
پارٹی کے سنجئے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ اڈانی کی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے
منیش سسودیہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ حقیقت اب اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ اڈانی اور ای ڈی نے مل کر حزب
اختلاف کو بی جے پی کے خلاف متحد کرنے کا کام کیاہے ۔ اتحاد کےراستے کی
دورکاوٹیں تو دور ہوچکی ہیں بعید نہیں کہ ممتا بنرجی پر کارروائی انہیں بھی
اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کردے ۔ تریتا یُگ میں رام نے راون کے
بھائی وبھیشن کو اس سے الگ کرکے اپنے ساتھ کیا اور ہنومان کی مدد سے راون
کی لنکا جلائی ۔کل یگ میں رام بھگت مودی نےہنومان بھگت کیجریوال کو اپنا
دشمن بنادیا ۔ بی جے پی نے منیش سسودیہ کو گرفتار کرکے سیاسی بھائی بندی
ختم کردی۔ عام آدمی پارٹی پر سنگھ کی بی ٹیم ہونےکا الزام لگانے والوں کو
بتانا ہوگا کہ آخر اے ٹیم یعنی بی جے پی اس کو کیوں نگل رہی ہے؟ اس
گرفتاری نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی خود پسندی کے سبب بی جے
پی کا بلا واسطہ فائدہ تو ہوا ہوگا مگر وہ سنگھ پریوار کی بی ٹیم نہیں ہے ۔
منیش سسودیہ کی مقبولیت میں اس گرفتاری سے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن
اگر اس سے حزب اختلاف کے اتحاد کی راہ ہموار ہو جائے تو یہ قربانی رائیگاں
نہیں جائے گی۔
|