شونٹر ٹنل منصوبہ اور آزاد کشمیر کو گلگت بلتستان سے ملانے کا خواب
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
28اپریل1949کو پاکستان حکومت نے آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ ایک معاہدے، جسے معاہدہ کراچی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، کے ذریعے گلگت بلتستان کا انتظام خود سنبھال لیا۔گلگت بلتستان کو ڈوگرہ مہاراجہ سے آزاد کرانے اور پھر بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے میں کرنل حسن خان، میجر بابر اور کیپٹن حیدر کا کلیدی کردار تھا اور نیلم ویلی کے بالائی علاقے کی آزادی میں بھی کرنل حسن خان اور ان کے ساتھیوں کی فورس کا بنیادی کردار رہا۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے ۔ نیلم ویلی کے بالائی علاقوں سے گلگت بلتستان کے استور اور دیگر علاقوں میں مقامی لوگ پیدل آتے جاتے ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کا یہ پرانا مطالبہ ہے کہ ان دونوں خطوں کے درمیان آمد و رفت کا کوئی باقاعدہ راستہ ہونا چاہئے۔
عوامی مطالبے پہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو سڑک کے ذریعے منسلک کرنے کے حوالے سے تقریبا پانچ سال قبل وادی نیلم میں کیل کے قریب واقع شونٹر پاس سے ٹنل کے تعمیر کے منصوبے کی منظوری دی۔ستمبر2017 کو82ارب روپے کے اس منصوبے کا اعلان کیا گیا۔اس منصوبے کے تحت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے 12.68کلومیٹر روڈ ٹنل شونٹر نیلم ویلی سے رٹو استور تک کی تعمیرکے علاوہ کیل سے شونٹر تک 26کلومیٹر جیپ روڈ کو وسیع کرنا اور بہتری بھی شامل ہے۔عوامی مطالبات اور حکومتی اعلانات ایک طرف، اس منصوبے پہ کام شروع ہوتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی آئندہ ایک دو دہائیوں تک اس منصوبے پر کام ہونے کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔شونٹر پاس کے ارد گرد کے علاقے میں تقریبا تیس فٹ برف پڑتی ہے اور اگر یہ ٹنل اور راستہ بن بھی گیا تو یہ صرف گرمیوں کے موسم میں ہی کار آمد ہو گا۔بہر حال حکومتی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے میں کام ہونے کے کوئی امید نظر نہیں آتی ۔تاہم اس معاملے پہ سیاسی بیانات اکثر سننے میں آتے رہتے ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شونٹر ٹنل کی تعمیر سے اسلام آباد اور گلگت کے درمیان زمینی مسافت کم ہو جائے گی اورموجودہ کاغان روڈ کی نسبت کم وقت میں اسلام آباد سے گلگت پہنچنا ممکن ہو گا جبکہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔مظفر آباد سے کیل تک کا فاصلہ تقریبا229کلومیٹر ہے اور گاڑی کے ذریعے اس کی مسافت تقریبا 6گھنٹے ہے۔کیل سے شونٹر کا فاصلہ تقریبا26کلومیٹر ہے اور یہ جیپ روڈ کا نہایت کٹھن راستہ ہے جس میں کم سے کم تین گھنٹے لگتے ہیں۔پراجیکٹ روٹ شونٹر سے استور کے علاقے گوری کوٹ تک تقریبا80کلومیٹر ہے اور یہ علاقہ بھی کیل سے شونٹر کی جیپ روڈ کی طرح نہایت کٹھن راستہ ہے جس پہ جیپ کے ذریعے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔گوری کوٹ سے گلگت کا فاصلہ تقریبا120کلومیٹر ہے۔یوں مظفر آباد سے گلگت تک اس راستے کے ذریعے مسافت تقریبا460کلومیٹر بن جاتی ہے۔اگر یہ ٹنل اور راستہ تعمیر ہو بھی جاتا ہے تو اس کی افادیت مقامی آباد کے علاقہ سیاحتی نقطہ نظر سے ہی ہو گی اور موسم سرما میں یہ راستہ بند ہی رہے گا۔
چند ہی دن قبل گلگت بلتستان کے وزیر اعلی خالد خورشید کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نے شونٹر ٹنل اور سڑک کی تعمیر کے منصوبے سے متعلق ایک کمیٹی قائم کی جس میںآزاد کشمیر حکومت کے پانچ وزیر اور محکموں کے سیکرٹری شامل ہیں۔اس کمیٹی کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ یہ کمیٹی شونٹر منصوبے سے متعلق گلگت بلتستان حکومت کی کمیٹی اوروفاقی حکومت کی متعلقہ وزارتوں، ڈویژنوں کے ساتھ رابطے کا کام کرے گی۔وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے دورہ مظفر آباد کے موقع پر بتایا کہ گلگت بلتستان حکومت نے شونٹر پاس سے پچاس کلومیٹر سڑک کے لئے 5کروڑروپے مختص کئے ہیں ۔اس موقع پہ وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نے اعلان کیا کہ23مارچ سے مظفر آباد اور گلگت بلتستان کے درمیان بس سروس شروع کی جائے گی۔علامتی طور پر تو مظفر آباد سے گلگت بلتستان بس سروس شروع کرنا اچھا اقدام معلوم ہوتا ہے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ مظفر آباد میں گلگت بلتستان کے طلبہ زیر تعلیم تو ہیں لیکن اس بس سروس کے لئے اتنے مسافر میسر ہونے مشکل ہیں کہ جس سے یہ بس سروس کامیابی سے جاری رہ سکے۔
نیلم ویلی سے شونٹر پاس کے ذریعے گلگت بلتستان تک سڑک کی تعمیر کا منصوبہ پہلے چین کے سی پیک منصوبے میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ نہ رہا جس سے اس منصوبے پہ کام شروع ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو سڑک کے ذریعے منسلک کرنے کا ایک راستہ نیلم ویلی کے بالائی علاقے کی وادی گریس کے تائو بٹ علاقے سے پیدل راستہ استور کے علاقے منی مرگ، کالا پانی جاتا ہے جہاں سے استور تک سڑک تعمیر ہے۔ یوں تائو بٹ سے منی مرگ، کالا پانی تک سڑک کی تعمیر سے دونوں خطوں کو زمینی راستے کے ذریعے منسلک کرنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے اور اس کی مسافت بھی تقریبا بیس کلومیٹر ہے۔تائو بٹ سے منی مرگ کا علاقہ سیز فائر لائین یعنی لائین آف کنٹرول کے بہت قریب واقع ہے اور اس علاقے میں بھارتی فوجی بلندی کے مقام پہ ہیں۔تائوبٹ سے منی مرگ تک سڑک کی تعمیر پہ لاگت بھی اتنی زیادہ نہیں آتی اور اس سے دونوں خطوں کو منسلک کرنے کے علاوہ یہ سڑک ایک اہم ڈیفنس روڈ کی افادیت بھی دے سکتی ہے۔وادی نیلم کے بالائی علاقے اور گلگت بلتستان کے استور ضلع کے علاقے بلاشبہ جنت کا نمونہ ہیں۔ان خطوں کو سڑک کے ذریعے منسلک کرنے سے ان خطوں میں سیاحت کے فروغ کے علاوہ ان خطوںکی غریب آبادیوں کو ترقی اور خوشحالی کے وسیع مواقع بھی میسر آ سکتے ہیں۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|