میرے بچپن کے سفر کی کہانی میرے زبانی

ہم گزرے دنوں کو یاد کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے اہل علم اور تجربہ کار لوگ ہوگے جو شاید ماضی کو سوچنے سے بھی منہ کرتے ہیں ہوگے ۔ مگر میں ایسے نہیں کرتا میں بھی ایک طالب علم ہونے ناطے اپنی رائے کا حق رکھتا ہو کیو کہ ہمیں ریسرچ کرنا چاہیے ہر اس بات کی جس کا تعلق اس معاشرے سے ہے۔ میں اکثر یہ بات سوچتا ہو آ خر ماضی کی طرف کیو نہیں دیکھنے دیا جاتا ۔ مگر میں میری ذات سے منسلک ہر انسان کو گزرے زمانے میں جانے کی اجازت دو گا وہ کس اور کیو زرا سنئیے گا۔ میں دو ہزار دس کی بات کرتا ہوں جب ہم میٹرک کے طالب علم تھے اس وقت تو رات بھی دن کی طرح نظر آ تا تھا آ نکھوں کی بینائی دن سے زیادہ رات کو طاقتور لگتی تھی۔ ہر وہ کام جسے ہم آ ج نا ممکن سمجھتے ہیں تو اس وقت ممکن بنا لیتے تھے یہ ہی ماضی کو یاد کرنے کا سبب ہو شاید ۔ کیو کہ اسوقت ہم یہ بھول جاتے تھے کہ ہمارے والدین ہمارے بہن بھائی ہمارا انتظار کر رہیں ہو گے۔ اسی طرح ایک رات کی بات کرتا ہو جو دسمبر کی تیس تاریخ دو ہزار دس اتوار کی شام تھی۔ اس رات میرے بھانجے نعمان محسن سے میری بات ہوئی تب موبائل اتنے عام نہ تھے مگر نوکریاں کمپنی کے موبائل چند لوگوں کے پاس تھے ۔ میرے محسن نے مجھے بتایا کہ مامو جان آ ج رات یہاں پر میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے۔ میں نے پوچھا جناب والا نعت خواں کون کون آ رہیے ہیں تو انہوں نے بڑے اچھے انداز میں بتایا کہ نامو جان احمد علی حاکم ، سید زبیب مسعود اور قبلہ مرحوم خالد حسین خالد صاحب تشریف فرما ہیں ۔ میں تو خوشی سے جھوم اٹھا کیو کہ یہ سارے ہی میرے بڑے دل کو بھانے والی شخصیات تھی۔ میں جلدی سے گھر سے ا پنے سکول علامہ اقبال ماڈل پہچا کیو کہ تقریباً چھ بجے کے قریب ہماری پڑھائی شروع ہو جاتی تھی ۔ میں نے آ تے ہی اپنے سر پرنسپل جناب عزت راجہ فاروق عادل صاحب سے اجازت طلب کی اور اپنے ہم جماعتوں سے یہ بات بتلائی کہ آ ج میلاد النبی صلی ہے اگر آ پ سب بولے تو چلے سب نے پوچھا کہ کہاں پر ہے ۔ میں جواب دیا کہ جنڈیالی بنگلہ سے آ گے چل نمبر 55/15 تھوڑا آ گے انہوں نے پوچھا کہ کتنا سفر ہے اور کس چیز پر جانا ہے ان دنوں حالات خراب تھے موٹر سائیکل تو ہم سب کے پاس تھے مگر جانا ممکن نہیں تھا۔ تب ہمارے سر کاشف صاحب ، صدیق بھائی اور وقاص بھائی نے کہا کہ افضل بھائی چلے چلتے ہیں ۔ تیاری کریں میرے خیال میں ہم نے چائے انڈے فٹہ فٹ تیار کیے اور کھا کر اپنے سر سے پوچھ کر اس سفر پرنکل گے میرے گاؤں کا نام چک نمبر 123/7ای آ ر ہے جو دریائے راوی کے بالکل قریب واقع ہے دریائے راوی ہمارے گاؤں کی شمال میں موجود ہے ہمارے گاؤں سے جنوب والی سائد پر چک نمبر 124/7ای آ ر ہے جس کے آ گے لوہر باری دوآب ہے یہاں ایک موڑ ہے جسے ہم گوڈا موڑ کہتے ہیں ان دنوں یہاں پر ڈاکو راج تھا کوئی آ دمی ایسا نہیں جو شام کو یہاں سے گزرے اور بچ جائے ڈاکو دھلائی بھی کرتے اور باندھ کر یہی پھینک دیتے اوپر سے سردی شدید ۔ اسی گوڈا موڑ کے نزدیک ایک قبرستان بھی ہے جس کے بہت مشہور قصے ہیں ۔

( تحریر جاری ہے-------------------------------)
 

Muhammad afzal Jhanwala
About the Author: Muhammad afzal Jhanwala Read More Articles by Muhammad afzal Jhanwala : 8 Articles with 4087 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.