وطن عزیز پاکستان میں جمہوری
حکومت قا ئم ہوئے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ مسائل
جنہوں نے آمرانہ دور حکومت میں اس ملک کو اپنے پنجوں میں لیا تھا اب وہ اس
قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ حل تو درکنار اپنے قریب بھی کسی کو پھٹکنے نہیں
دے رہے او ر اب دیو کی شکل اختیار کر چکے ہیں لیکن عوام کی بدقسمتی کہ
جمہوری حکومت کے کرتا دھرتا نہ ہی ان مسائل کو حل کر رہے ہیں اور نہ اس
عرصہ میں کوئی حل پیش کر سکے ہیں ما سوائے اسی راگ کو الاپنے کے کہ ہمیں یہ
مسائل ورثہ میں ملے کوئی مثبت قدم اٹھانے کی زحمت نہ کی گئی ،کوئی ان ذی
عقل حکمرانوں سے سوال کرے کہ ورثہ میں تو ضرور ملے لیکن آپ نے ساڑھے تین
سال سے زائد عرصہ کس لئے گزارا ۔کیا کسی ایک مسئلہ کو حل کیا یا اس کا کوئی
حل پیش کیا بلکہ اب تو قرضوں کا بوجھ 60ارب ڈالر سے زائد ہو چکا ہے ،سٹیٹ
بنک حکمرانوں کی عیاشیوں کو پورا کرنے کےلئے دھڑا دھڑ اربوں روپے چھاپ رہا
ہے اسی گھمبیر صورت حال کے پیش نظر سٹیٹ بنک کے تین گورنرز نے اپنے عہدے سے
استعفیٰ پیش کر دیا ،دوسری طرف توانائی کا بحران شدید تر ہو چکا ہے ،بجلی
کئی کئی گھنٹوں کے لئے غائب رہنا معمول ہے ،تو اس کے بلز عوام کے لئے ایک
ڈراﺅنا خواب ہیں ایک عام گھرانا جو پورا مہینہ ایک لائٹ اور ایک پنکھا چلا
کر گزارا کرتا ہے اسے بھی کم از کم 1000سے زائد بل ادا کر نا پڑتا ہے ،
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب کیا کم تھا کہ گیس بھی نایاب ہوتی جا رہی ہے ،سخت
ترین گرمی کے موسم میں اگر CNG سٹیشن تین دن کے لئے بند ہیں تو یقیناً سردی
کے موسم میں بلکل نہیں کھلیں گے ،بجلی بحران کے حل کےلئے پہلے تو بڑی
ڈھٹائی سے تاریخوں پر تاریخیں دینے کا سلسلہ چلایا گیا لیکن رینٹل پاور
جیسے منصوبے جن سے حکمرانوں کو یقیناً بڑی آمدن متوقع تھی روک دئیے جانے پر
اب نہ ہی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی کوئی تاریخ ہے نہ ہی کوئی اور حل ،حالانکہ
اگر نیک نیتی سے سندھ کے ساحلوں پر پن بجلی کے منصوبوں پر محض 6ماہ سے1سال
کام کیا جائے تو ہماری طلب و رسد کا فرق ختم ہو سکتا ہے ،تھرکول کے وسیع
ذخائر ہمارے لئے قدرت کی طرف سے عطیہ ہیں جن سے ہم 500سال تک 50ہزار میگا
واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں لیکن نیت خالص نہ ہو تو کام کبھی نہیں ہوتے ،ہمارا
خطہ دنیا کا خوش قسمت ترین خطہ ہے جہاں پورا سال سورج اپنی آب و تاب کے
ساتھ چمکتا ہے اس طرح سولر انرجی ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی
ہو سکتی ہے ،لیکن بدقسمتی سے اس طرف غور کرنے کا موقع ہی نہ آنے دیا گیا اس
ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ میں ہماری حکومت نے مفاہمت کی سیاست کو خوب
پروان چڑھایا اور یوں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ
جانے دیا گیا لیکن بدقسمتی سے مفاہمت کی سیاست کی نظر ملک کے غریب عوام ہی
ہوئے اور کبھی کراچی میں لہو کی ندیاں بہائی گئی تو کبھی ملک کے کسی کونے
میں غریب عوام کو مسلا گیا ،شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیر ستان سمیت ملک
کے قبائلی علاقوں میں مرنے والوں کو تو ملک عزیز کا شہری ہی نہیں سمجھا
جاتا کہ ان کے مرنے پر حکمران کوئی افسوس کا اظہار کریں کراچی جو ملک کی شہ
رگ ہے اسی مفاہمت کی سیاست کی بھینٹ چڑ چکا ہے کہ وہاں صرف اور صرف غریب ہی
مرتا بھی ہے اور نقصان بھی اسی کی دکان ،گاڑی کا ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق
کسی بھی جماعت سے ہو لیکن کبھی بھی کسی جماعت کے لیڈر کو کوئی نقصان نہیں
پہنچا وہ کرسی کرسی کا کھیل اسی طرح کھیلے جا رہے ہیں اور عوام کے لئے
مہنگائی کا جن ایسا بے قابو ہوا کہ اب کسی سے بھی پکڑائی تک نہیں دے رہا
صرف بجلی کے بلز کی صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ ہر ماہ ان میں
اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے مارکیٹ کی تو پوچھے ہی نہ کہ کیا ہو رہا ہے ہر
دکاندار کے نرخ الگ و منفرد ہیں ،منصوبہ بندی کا اس قدر فقدان ہے کہ کسی کو
سمجھ نہیں آرہی کہ اس نے کیا کرنا ہے اور کس بارے میں میڈیا کو بتانا ہے ،ملکی
مسائل کا حل تو درکنار یہاں ان مسائل کو ختم کرنے کے لئے کمیٹیاں بنانے اور
ہر ہفتے ایوان میں اجلاس بلانے کا کام بڑے زور و شور سے ہو رہا ہے جن میں
صرف آمدن گفتن نشستن برخاستن کی صورت حال سامنے آتی ہے ملک کو سب سے زیادہ
مفاہمت کی ضرورت ہے لہٰذا ہمارے حکمران وہ لائے ہیں اور آئندہ عرصہ بھی اسی
کی چھتری تلے گزاریں گے ہمیں ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ حل ہوں نہ
ہوں کیونکہ آنے والوں نے بھی تو کچھ کرنا اور کہنا ہے ۔ |