لیبیا کا متوقع مستقبل

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

کرنل قذافی کے شخصی و ذاتی وسیکولراقتدارکاسورج غروب ہونے کے بعداس وقت مملکت لیبیاکے جملہ معاملات ”المجلس الوطنی الانتقالی الموقت،لیبیا“(Libyan NationalTransitional Council(NTC) )کے ہاتھ میں ہیں۔10اگست 2011کو کونسل کے نائب صدر عبدالحفیظ غوفہ نے ایک پریس کانفرنس میں کونسل کے منشور کااعلان کیا،جس کے دو حصے تھے ،پہلے حصے میں حقوق و فرائض اوردوسرے حصے میں مستقبل کا لائحہ عمل ہے۔اس کونسل نے اپنامنشور ”الاعلان الدستوری“کے نام سے جاری کیا ہے جس کاآغاز اﷲ تعالٰی کے بابرکت نام سے کیا گیاہے اور اس منشور کے پہلے باب ”الباب الاول،احکام عامہ“کے تحت پہلی دفعہ”مادہ(1)“کے تحت لکھا گیاہے کہ ”ریاست کا مذہب اسلام ہوگااورریاست کے جملہ قوانین کا منبع و مصدر شریعت اسلامیہ ہو گی “۔منشور کے دوسرے باب ”باب الثانی،الحقوق والحریات العامة“ میں ”مادہ(7)کے تحت لکھاگیاہے کہ ہرانسان کی تکریم اﷲ تعالٰی کے اس حکم کے تحت کی جائے گی کہ وہ زمین پر اﷲ تعالٰی کا خلیفہ ہے“۔لیبیاکے مشہور شہربن غازی میں اس دستورکی منظوری کے بعد 3رمضان1432ھ بمطابق 3اگست2011کوذمہ داران کے دستخطوں سے یہ جاری کیاگیاجب کہ دستور پر دونوں تاریخیں رقم کی گئی ہیں۔ان کے علاوہ دستورمیں دیگر شہری آزادیاں،نجی حقوق اور ریاستی معاملات کے تشریح و توضیع بھی کی گئی ہے۔دستورمیں لیبیاکی عوام سے وعدہ کیا گیا ہے کہ تیس دنوں میں عبوری حکومت بنائی جائے گی،نوے دنوں میں انتخابات کے بارے میں قانون سازی کی جائے گی،دوسوچالیس دنوں میں پارلیمان کے انتخابات کراچکے جائیں گے،یہ تمام انتظامات لیبیاکی عبوری کونسل کے تحت ہوں گے اور عبوری کونسل کا کوئی رکن انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہ ہو گا۔

اس سے قبل کرنل قذافی کے سیکولر آئین کا آغاز اس طرح ہو رہاتھا کہ”لیبیاایک آزادعرب جمہوریہ ہے جس کے اقتداراعلٰی کے مالک عوام ہیں،لیبیاکے عوام عرب قوم کاحصہ ہیں اور عربوں کی یکجہتی چاہتے ہیں اور لیبیاسرزمین افریقہ کا خطہ ہے“۔1969ءمیں بنائے جانے والے اس قومیت کے تعصب سے بھرے ہوئے سیکولر آئین نے لیبیاکی عوام کو جو کچھ دیاوہ نوشتہ دیوار ہے اوراس سیکولرازم سے تنگ آمد بجنگ آمدکے مصداق لیبیاکے اقتداراعلٰی کے مالک عوام نے ہی اس سیکولرآئین کے خالق کواٹھاباہر کیاہے۔لیبیاکی طرح دیگروہ تمام عرب ریاستیں جنہوں نے اسلام اورامت مسلمہ کی بجائے زمین،وطن ،زبان اور نسل سے اپنی نسبت جوڑنے کی کوشش کی عراق،یمن،مصراورشام وغیرہ نے سیکولرازم کے اثرات بداپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیے اور آج ان تمام ممالک کے عوام کے ہاتھ ان ملکوں کی سیکولرقیادت کے گریبانوں تک پہنچ چکے ہیں۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں عوام الناس کا واضع جھکاؤ اسلام اور اسلامی شریعت کی طرف ہے۔استعمارسے عوام نے آزادیاں حاصل کیں،عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں،عوام نے اپنااوراپنی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگاکراپنے سے کئی گنابڑے دشمن سے براہ راست ٹکر لی اور جمہوریت کے راستے سے تو کہیں میدان سجاکر طاغوتی طاقتوں کو ملک بدر کیا لیکن ہائے بدقسمتی کے ان بدیسی آقاؤں سے خلاصی کے بعد مقامی وخاندانی سامراج امت کی گردنوں پر مسلط ہو گئے اور انہوں نے عوام کی مرضی کے علی الرغم سیکولرازم میں پناہ ڈھونڈی اوراغیارکے مفادات کی خاطر اپنوں کی گردن زدنیاں کیں،اس سامراج کی بندوقیں دشمن کے سامنے خاموش رہیں اور اپنوں پر آگ اگلتی رہیں لیکن آخر کب تک؟؟؟

لیبیاکی موجودہ قیادت نے جو آئینی خاکہ دیا ہے اس کی ابتدائی اسلامی دفعات سے ہی موجودہ قیادت کی ذہنی سطح کااندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ قیادت واضع طور پر تعلیمات اسلامی کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتی ہے۔حالانکہ خبروں کے مطابق اس وقت یہ قیادت ایک طرح سے دوراہے پرکھڑی ہے اور بیرونی سیکولرطاقتوں کی آشیربادسے ہی یہ قیادت اپنے قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ان حالات میں بیرونی طاقتوں کو خوش کرنے کی بجائے اپنی دینی حمیت کا برملا اظہار اس قیادت کی جرات اور بالغ نظری کا بین ثبوت ہے۔لیبیامیں انتخابات کا وعدہ کیا گیاہے اورظاہر ہے کہ انتخابات کے بعد ہی آنے والی مستقل پارلیمان ہی مملکت کو کوئی مستقل آئین دے پائے گی لیکن تب بھی اس عبوری آئین کی اسلامی روح کومستقبل میں بننے والے بننے والے آئین سے نکالنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ مستقبل کے لیبیاکو آئینی و قانونی و دستوری بنیادیں یہی عبوری آئین ہی فراہم کرے گا۔اور پھر ہمیں توقع ہے کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں سیکولرازم سے پٹی ہوئی عوام کی اکثریت جوقیادت فراہم کرے گی وہ نہ صرف یہ کہ سیکولرازم و قومیت پرستی کے بدبودارخیالات سے نفرین ہو گی بلکہ ایک اسلامی ملک کے عوام کی صحیح نمائندہ قیادت ہو گی۔

لیبیاکے موجودہ انقلاب میں اسلامی ذہن رکھنے والے راسخ العقیدہ اور بنیاد پرست مسلمان بھی انقلابی قیادت کے شانہ بشانہ رہے اور انہوں نے شخصی و سیکولرآمریت کاساتھ دینے کی بجائے اسلامی جمہوری قوتوں کا کھل کر ساتھ دیا۔مشرق وسطی کے مشہور تجزیہ نگار”عمرآشور“نے اس پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔تجزیہ نگار کے مطابق”عبدالحکیم بلحاج“وہ جواں ہمت نوجوان تھا جس نے قذافی کے محل ”العزیزیہ“پر حملے کی قیادت کی تھی،بلحاج کا جہادی نام ”ابوعبداﷲ الصادق “ہے۔یہ نوجوان لیبیاکی جہادی تنظیم”Libyan Islamic Fighting Group (LIFG)“کا کمانڈر رہا ہے۔تجزیہ نگار کے مطابق اس جہادی گروپ کے تعلقات،القائدہ،طالبان اور مصر کی جہادی تنظیموں سے بھی رہے ہیں۔لیبیاکے موجودہ قذافی دشمن سرگرمیوں میں یہ جہادی گروہ صف اول میں اپنی بھرپور جدوجہد کے ساتھ شریک کار رہاہے۔مجاہدین کی یہ تنظیم 1990ءمیں قائم ہوئی تھی اور موجودہ انقلاب سے پہلے تین بار اس تنظیم نے 1995،1996اور1998میں کرنل معمر قذافی کے خلاف خروج کی کوشش کی،لیکن تنظیم کے ارکان کو چن چن کر ختم کر دیاگیا۔پھر بھی زیرزمین یہ لوگ اپنی جمع خاطر میں مصروف عمل رہے یہاں تک حالیہ انقلاب میں ایک بار پھر یہ لوگ ابھر کر سامنے آئے اور اس بار عوام کا ایک جم غفیر بھی ان کے ہم رکاب تھا۔کمانڈربلحاج نے ایک طویل وقت قذافی کے قید خانوں میں گزارااور 2010میں جب مغرب میں قذافی کے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر شور اٹھا تو سیف الاسلام قذافی نے اس کمانڈر کو رہا کیا۔یہ داستان نہ معلوم کتنے ہی راسخ العقیدہ مسلمانوں پردہرائی گئی ان میں سے کتنے زندہ بچے اور کتنوں نے سیکولرقوم پرست قذافی کے قید خانوں میں ہی قفس عنصری سے رہائی پائی ؟؟یہ خدا ہی جانتاہے۔

لیبیاکی اسلامی جہادی تنظیمLibyan Islamic Fighting Group (LIFG)اور موجودہ انقلابی قیادتLibyan NationalTransitional Council(NTC)کے درمیان اتنے گہرے رابطے یورپ کی سیکولرقیادت کے لیے بہت فکرمندی کا باعث ہیں اور یورپی نامہ نگاراور تجزیہ نگار مسلسل اس طرح کے خدشات کااظہار کررہے ہیں آدھی صدی سیکولرازم میں گزارنے کے باوجود اسلام پسندی کے جراثیم لیبیامیں ختم نہیں ہوئے اور تجزیہ نگاروں نے تو اسے اسلامی انتہا پسندی تک کانام بھی دیا ہے۔امریکہ کی وزیرخارجہ نے توNTCکو یہ ”قیمتی مشورہ“بھی دیاہے کہ اسلام پسندوں کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیں۔ان سے کوئی پوچھے کہ امریکی قانون کی کون سی شق یا اقوام متحدہ کا کونساقانون انہیں یہ اختیاردیتاہے کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں اس طرح دیدہ دلیری کے ساتھ براہ راست مداخلت کریں۔اس کے مقابلے میں قذافی کے محل پر کامیاب حملے کے بعد بلحاج نے عوام سے فاتحانہ خطاب کیااور کہاکہ وہ صرف قذافی کو اپنا نشانہ بنائیں اور مملکت کی دیگراثاثوں کو محفوظ رکھیں تاکہ ایک نئے اوربہترین لیبیاکی تاریخ کا آغاز کر سکیں۔یہ فرق ہے سیکولرتخریبی قیادت اور اسلام پسندوں کی تعمیری قیادت کا۔امریکہ کی افواج نے دنیابھر میں قتل و غارتگری کا بازارگرم رکھاہے اورقذافی کی افواج نے نیٹو سے لڑنے کی بجائے اپنے ہی عوام پر ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائی ہیں جبکہ عرب وقائع نگار کے مطابق لیبیاکی جہادی قیادت کے یمین و یسار سینکڑوں اسلحہ بردارنوجوانوں کے باوجودکسی پر دست درازی نہیں کی اور فتح و کامیابی کے بعد بھی اپنے ہاتھوں کو عوامی و قومی اثاثوں کی تباہی سے دور رکھا۔

انقلابی قیادت اور جہادی قیادت کی مشترکہ جدوجہدجس طرح حالیہ وقتی کامیابی کا جواز بنی ہے اسی طرح ان کا اکٹھا رہنا جہاں لیبیائی سیاسی ومعاشی استحکام کا باعث ہو گاوہاں لیبیامیں بیرونی سازشوں کے سدباب کا باعث بھی ہو گا۔ہمیں امید ہے کہ آزادی کے اس موڑ پرلیبیا کی قیادت اپنے انقلاب کو اغوا نہیں ہو نے دے گی اوریہودی ذہن کے معاشی جال میں پھنس کر اپنی عوام کی آزادیوں پر قدغن لگانے کی بجائے اپنی آزاد خارجہ و اقتصادی پالیسیوں سے اپنے عوام کے روشن مستقبل کی ضامن ہو گی۔ایران کی مثال سامنے ہے جس نے انقلاب کے بعدمحض اﷲ تعالی ذات پر بھروسہ کیااور ایک طویل عرصہ بین الاقوامی تنہائی میں گزارالیکن آج کاایران آزاداسلامی خارجہ پالیسی کے باعث عالمی برادری اور امت مسلمہ میں اپنا ایک نمایاںو قابل عزت مقام رکھتاہے،یہ اس لیے کہ پاسداران انقلاب اور سیاسی قیادت ہر مشکل موڑ پر شانہ بشانہ رہے۔اسی طرح لیبیا کی قیادت بھی اگر بیرونی انحصارکی بجائے اپنی داخلی مجاہدانہ قوت پر انحصارکرتی رہے گی تو پورے افریقہ کے پسے ہوئے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور عام انسانوں کے لیے بالعموم سیکولرازم کی منافقانہ و خلاف انسانیت عزائم سے آزادی کا پیش خیمہ بنے گی، انشاءاﷲ تعالٰی۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 524385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.