الطاف بھائی ! پاکستان کے ساتھ کیوں نہیں؟

وطن عزیز کے عمومی حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان 2015 ءکیا 2012 میں بھی جاتا نظر نہیں آتا۔ کراچی جل رہا ہے۔بلوچستان میں لگی آگ کے شعلے اب سر سے بھی بلند ہونے لگے ہیں۔خیبر پختونخواہ کے قلب اور اس کے گرد و نواح میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔پنجاب میں نسبتاََ اس طرح کی بد امنی نہیں لیکن جنوبی پنجاب کی بے چینیاں اب قرار کی طلبگار ہیں۔کرپشن اپنی انتہائی حدوں کو چھو چکی۔ریاست عوام کی حفاظت میں ناکام ہو چکی۔کسی کی نہ جان محفوظ ہے نہ مال۔انصاف پاکستان میں اتنی بلندی پہ ہے کہ نظر اٹھا کے دیکھنا محال ہے۔وسائل پہ پانچ فیصد اشرافیہ کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔غریب کے پاس عزت تو ہوتی ہی نہیں ایک جان ہوتی ہے جو وہ آئے دن اس نظام کے ہاتھوں مجبور ہو کے قربان کئے جا رہا ہے۔چولہے بجھ رہے ہیں اور اندھیروں نے ہمارے ملک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔بہتری کی ہر صورت عنقا ہے۔امید کی کوئی کرن کہیں سے بھی طلوع ہوتی نظر نہیں آتی۔

اس سب کے باوجود مجھے پاکستان کے درخشاں مستقبل ،آنے والے دنوں میں اس کی عظمت و رفعت پہ اتنا ہی یقین ہے جتنا ایک مسلمان کو اپنے اللہ پہ یقین ہوتا ہے۔کوئی سمجھے یا نہ سمجھے میں اسے مملکت خداداد سمجھتا ہوں۔میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ جس طرح اس نے ہم بے وسیلہ لوگوں کو یہ وطن عطا کیا تھا اسی طرح وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا۔پاکستان بناتے وقت بھی ہماری قیادت کا یہی حال تھا۔قائد نے کیا اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کی نشاندھی نہیں کی تھی۔کیا انہیں "کھوٹے سکوں "کا شکوہ نہیں تھا۔یہ تو مسلمان کی تاریخ ہے کہ اسے ہر دور میں عبداللہ ابن ابی کی معنوی اولاد سے پالا پڑتا رہا ہے۔میر جعفر اور میر صادق تو ابھی کل کی بات ہے۔آج کے پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ جو کچھ کر سکتے ہیں پاکستان ان کی مجبوری نہیں اور پاکستان جن کی مجبوری ہے وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

الطاف بھائی کہتے ہیں کہ پاکستان توڑنے کی سازش ہو رہی ہے۔سازش تو چوری چھپے ہوتی ہے۔یہاں تو دشمنوں نے تاریخ بھی بتا دی ہے اور نئے ملکوں کے نقشے بھی جاری کر دئیے ہیں ۔ہم اہل زبان ہوتے ہوئے بھی اسے سازش ہی سمجھے جا رہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ دشمن سازش کر رہا ہے۔اسے اس کا حق بھی ہے کہ دشمن جو ٹھہرا لیکن اس سازش کے سارے مہرے تو ہم خود ہیں۔بلوچستان میں اسلحہ اور بندوق ہندو کی ہے لیکن انہیں چلانے والے ہاتھ ہمارے اپنے ہیں۔کراچی میں مارنے والے بھی ہمیں ہیں اور مرنے والے بھی۔ایم کیو ایم ہو پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی۔یہ اس قتل و غارت کے تین بڑے مجرم ہیں۔سپاہ صحابہ اور سنی تحریک والے کیا انڈیا سے آئے ہیں۔یہ سبھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔کسی بھی پارٹی کی قیادت خریدی جا سکتی ہے لیکن پارٹی کے باقی لوگ سبھی تو غدار نہیں ہو سکتے۔یہی لوگ بوریوں میں بند کرتے بھی ہیں اور پھر ایک دن انہی بوریوں سے ملتے بھی ہیں ۔انہی لوگوں کی کھوپڑیوں میں ڈرل کے ساتھ سوراخ کئے جاتے ہیں اور سوراخ کرنے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔قیادت کی اندھی تقلید ان لوگوں کواس بات کی تمیز ہی نہیں ہونے دیتی کہ یہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پہ ان کا اپنا آشیانہ ہے۔

الطاف بھائی تو رہتے ہی لندن میں ہیں ۔زرداری بھائی اور ان کے بچے بھی دبئی میں قیام پذیر ہیں۔بھائیا نواز شریف تو مسلمان ہیں اور بقول اقبال، چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا۔وہ تو اب اپنی نئی سوچ کے ساتھ بھارت میں بھی رہ سکتے ہیں۔پاکستان نے انہیں اتنا دیا ہے کہ وہ جاتی عمراءکی طرح ایک نیا پاکستان بنا سکتے ہیں۔اسفند یار بھی اب چونکہ امریکہ کی چوکھٹ پہ سجدہ نشین ہیں اس لئے ان کا رہائش کا مسئلہ بھی حل ہی سمجھیں۔اور کچھ نہ ہو سکے تو ان کا وطن مالوف بھارت تو ان کے لئے ہر وقت اپنی بانہیں وا کیے ہوئے ہے۔وہ اپنی "بلوریں" اور اپنا سیکیولر ازم ساتھ لے کے کسی بھی وقت بھارت ماتا کے چرن چھو سکتے ہیں۔جس جس کا سوچتا ہوں اس کا ایک اور وطن اور ایک اور گھر دکھائی پڑتا ہے۔نہیں ہے تو کراچی کے" بندو" کا کوئی اور گھر نہیں نواب شاہ کے "اللہ ڈینو" کے سر سے پاکستان کا سائبان چھنا تو اسے پھر پتہ نہیں کس کی چاکری کرنی پڑے۔پنجاب کے "گامے "کی خدا جانے دیہاڑی لگے گی یا نہیں۔پاکستان نہ رہا تو سرحد کا" غنچہ گل" کبھی گل بن سکے گا یا بنا کھلے ہی مرجھا جائے گا۔بلوچ تو ویسے ہی ان بھیڑیوں کے پاکستان میں ایسے ہے جیسے کسی گھر میں مانگا ہوا بچہ ہوتا ہے۔اس کی ساری توانیاں گھر والے استعمال کرتے ہیں اور ہر وقت کی جھڑکیاں بھی اس کا مقدر ہوتی ہیں۔

کاش ہم اندھے نہ ہوتے،بہرے نہ ہوتے اور ہماری عقل پہ اللہ نے پردے نہ ڈالے ہوتے تو ہم ان نوازوں آصفوں اسفندوں اور الطافوں سے سوال کرتے کہ ہمیں ہر روز مارنے اور دوسری صبح پھر اپنے مقاصد کے لئے ہمیں زندہ کرنے کا اختیار تمہیں کس نے دیا ہے۔لیکن ہم گامے ماجھے بندو اور غنچے اگر طاقت سوال رکھتے ہوتے تو ہم ان بھیڑیوں کو اپنے سر پہ سوار ہی کیوں کرتے۔اللہ رب العزت کبھی اسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت بدلنے میں خود دلچسپی نہ رکھتی ہو۔ہمارے حالات اس بات کے غماز ہیں کہ ہمیں اس طرح کے کسی فضول کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وطن پہ مسلط بھیڑیوں کو نوید ہو کہ بھیڑیں ابھی تک محو خواب ہیں اور اس وقت تک رہیں گی جب تک کہ ان کے جسم میں خون کا آخری قطرہ بھی آپ کی بھوک مٹانے کو موجود ہے۔

الطاف بھائی نے اپنی ویڈیو پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نفرت کے خاتمے کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کا سوچ سکتے ہیں۔الطاف بھائی نفرت کے خاتمے کے لئے پاکستان کے ساتھ کیوں نہیں۔پاکستان آپ کے بزرگوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔اس پہ کڑا وقت ہے آپ اگر اسے بچانے میں کردار ادا کریں تو رہتی نسلیں بھی آپ کی مشکور ہوں گی۔یاد رکھئے زندگی چند روزہ ہے۔لوگ سلطان ٹیپو اور سراج الدولہ کو بھی یاد رکھتے ہیں اور میر جعفر اور میر صادق کو بھی۔راستے آپ کے سامنے ہیں اور اختیار کا حق بھی آپ کا۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54160 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.