پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری باقاعدہ آئینی طور پر ہر حکومت کی
ذمہ داری اور لازم ہے اس سے پہلے مردم شماری پاکستان میں اب تک 1951، 1961،
1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔ مگر2017 کی مردم
شماری کے نتائج سندھ میں اور خاص کر شہری علاقوں جس میں کراچی ، حیدرآباد و
سکھر وغیرہ انتہاہی متنازع تھے جس پر سندھ کے شہری علاقوں پر اثر رکھنے
والی جماعتوں نے صوبائی ، قومی اور سینٹ کے فلور پر احتیجاج بھی اپنا
ریکارڈ کراتے رہے اور سندھ کے شہری علاقوں میں سماجی تنظیمیں بھی اپنا پر
امن احتیجاج پریس کلب ، پرنٹ ، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں احتیجاج
کرتے رہے جس پر اب وفاقی حکومت نے پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز تو
کیا ہے مگر سندھ میں جو سب سے زیادہ مسئلہ ہے کہ کیا یہ ڈیجیٹل مردم شماری
دو ہزار سترہ کے تنازعات کو ختم کر پائے گی؟
کیونک ابھی اس کی شروعات ہونے سے پہلے ہی سندھ کی دیہی سیاسی اور لسانی
جماعتوں کے احتیجاج اور سندھ ریاست کے اخباری بیانات ( سندھ سرکار کو ملک
میں جاری ڈیجیٹل مردم و خانہ شماری پر شدید تحفظات ہیں. مردم شماری پر صوبے
کے تحفظات دور کرنے کےلئے وزیراعلی سندھ نے وفاقی وزیر پلاننگ کو خط لکھ
دیا کہ ملک بھر میں جاری ڈیجیٹل مردم شماری کی موجودہ صورتحال پر سندھ
حکومت وفاق کی مدد کرنے سے قاصر ہے. لہذا سب سے پہلے مردم شماری کے حوالے
سے تحفظات دور کئے جائیں ) ابھی اس بیانات کی بازگشت تھم ہی نہیں تھی کہ
پیپلز پارٹی کے چیرمین اور وفاقی وزیر خارجہ کا بھی ( کہنا تھا کہ موجودہ
ڈیجیٹل مردم شماری ہماری شکایات کا ازالہ نہیں، ڈیجیٹل مردم شماری پر وفاقی
حکومت کو شکایات بھیجی ہیں، اس طرح کی ناقص ڈیجیٹل مردم شماری ہمیں قبول
نہیں، تحفظات دور نہ کیے گئے تو سندھ اس معاملے میں وفاقی حکومت کا ساتھ
نہیں دے گا، سندھ کے عوام پر ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دیں گے ) اس طرح کے
بیانات نے ایک دفعہ پھر سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کو یہ خوف میں مبتلا
کردیا ہے کہ کہیں وفاق اور پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سندھ حکومت اور سندھ کی
لسانی جماعتوں کے آگے اپنے اپنے مفادات کی خاطر پہلے کی طرح مردم شماری کو
سندھ کے شہری علاقوں کی حسرتوں پر کوئی کاری ضرب نہ لگ جائے کیونکہ اس ملک
میں یہی سب کچھ ہوتا چلا آیا ہے اور خاص کر سندھ کے شہری علاقوں سے گزشتہ
دہائیوں میں ہمیشہ مردم شماری میں انہیں گنتی میں ( اُڑان چھو ) یعنی غائب
کردیا. سندھ حکمران ہمیشہ کی طرح وفاق کو جب کبھی بھی اپنے مفادات کے لیے
جھکانا ہوتا ہے تو لسانی جماعتوں میں چابی بھر دی جاتی ہے . جس کو عرف عام
میں سندھ کارڈ کہلاتا ہے جو 1971 سے لے کر آج تک ہر اہم سیاسی صورتحال پر
سندھ کے حکمران جب وفاق اور اسٹیک ہولڈروں پر جس طرح کی سیاسی صورتحال ہوتی
ہے بڑی کامیابی سے دباؤ ڈالکر ایسے جس طرح سے بھی اپنی طرف بڑی شاطرانہ
انداز بڑی کامیابی سے اپنے طرف موڑ لیا جاتا ہے اور اس کارڈ کس اہم سیاسی
صورتحال پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور شائد مردم شماری میں بھی یہ بھرپور
طریقے سے کھیلا جائے گا. حالانکہ ڈیجیٹل مردم شماری میں غلطی کی گنجائش نہ
ہونے کہ برابر ہے. مگر جس طرح سے ماضی میں سندھ شہری علاقوں کی آبادی کو یک
وجنبیش وقلم آفسوں میں بیٹھ کر اقلیت میں تبدیل کرایا جاتا رہا ہے اس سے
فائدہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کے لوگ تو نہ اُٹھا سکے بلکہ جو فائدہ
اُٹھارہے ہیں وہ سندھ کی ریاست اور دیہی لسانی جماعتوں کو نظر نہیں آرہا
اور نہ انہیں آئیگا اگر یہ سب کچھ انہیں نظر آتا تو آج سندھ کے دیہات اور
شہروں کی جو حالت ہے وہ نہ ہوتی اگر یہ سندھ کے حکمران اپنی دھرتی ماں سے
اتنی ہی محبت رکھتے تو وفاقی حکمرانوں سے اس پر بات کرتے اور سندھ کی تمام
سیاسی ، مذہبی ، لسانی و سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک ہم آواز بن کر اس
پر زور دیتے کہ پورے پاکستان اور صوبوں میں مردم شماری کے ساتھ ساتھ جس طرح
ہمارے ملک میں ہمیشہ پڑوسی دشمن ملک سے ہر کام پر آگے بڑھنے کی جستجو ہے
مگر جمہوری کردار میں ہماری سیاسی ، مذہبی ، لسانی و پاکستان کے……… اس پر
کبھی نہ اپنی آرا دیتے ہیں اور نہ ہی گفتگو کرنے میں اپنی دلچسپی اختیار
کرتے ہیں. بلکہ مثال کے طور پر ہمارے اسلامی جمہوریہ ملک پاکستان میں میں
آج تک ایک بھی معاشی مردم شماری نہیں کروائی گئی جبکہ مُلک کی نشوونما،
ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے معاشی مردم شماری انتہائی اہمیت کی عامل ہے۔
اس سے ہمیں یہ آگاہی ہوتی ہے کہ کن کن شعبوں میں حکومت کو روزگار بڑھانے
میں مدد یا مزید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔اس پر وفاق اور صوبائی حکومتیں
اپنے لوگوں کے لیے بجٹ میں بہترین پالیسیاں بناسکتے ہیں. دنیا بھر میں
معاشی مردم شماری کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک جامع پیمانہ یعنی (ریڑھ کی
ہڈی ) ہے جو اس کی صنعتوں متفرق شعبوں اور منڈیوں کے بارے میں اعدادوشمار
فراہم کرتی ہے۔جبکہ ہمارے دشمن ملک ( انڈیا ) میں اب تک سات مرتبہ اقتصادی
مردم شماری کراوائی جا چکی ہیں . جبکہ پاکستان نے ابھی تک ایک بھی نہیں
کرواسکے نہ ہی جمہوری حکمرانوں نے اور نہ آمریتی ادوار میں اس اقتصادی
شماری پر وفاق بھی صوبہ اور ملک کی تمام سیاسی ، مذہبی، لسانی و سماجی
تنظیموں نے چپ سادھ لیا ہے. ہاں مردم شماری میں یہ ہی سندھ کی سیاسی و
لسانی جماعتیں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقاریر و بیانیہ داغ دیتے ہیں. جبکہ
پاکستان کے چاروں صوبوں میں مردم شماری پر مخلتف سیاسی ، مذہبی و لسانی قوم
پرست جماعتوں کو لاحق خدشات و تحفظات صرف اور صرف اپنی اپنی سیاسی عمل داری
قائم رکھنے اور اپنی قومیت یا اپنے حمایتی ووٹروں کو یکجا رکھنے کے گرد ہی
گھومتے ہیں. سندھ میں کبھی بھی سندھ کے حکمراں یا قوم پرست جماعتوں نے مردم
شماری کے دوران صحت عامہ، مذہب، تعلیم یا پھر ترقیاتی منصوبوں کی گنتی کو
اپنے اعتراضات یا تحفظات میں بنیاد نہیں بنایا۔ سندھ صوبہ کے علاوہ تمام
صوبوں میں سیاسی تحفظات اور خدشات کی نوعیت مخلتف ہے۔ 2017 کی مردم شماری
میں ان گنت دھاندلیاں منظر عام پر آئی ہیں. سندھ جیسے کثیر السانی صوبے میں
شہری آبادی کو کم دکھانے کی دلیل عیاں ہیں کہ دیہی سندھ کے شہروں گھوٹکی،
لاڑکانہ اور شکارپور کی آبادیاں گذشتہ 19 سالوں میں %300اور %400 فیصد بڑھ
گئیں جبکہ سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی صرف دو گنی ہوئی جو کہ زمینی حقائق
ناقابل غیر فطرتی اور غیر قدرتی بات ہے۔
اِس کا ثبوت مردم شماری کے 'بلاک' کی تعداد سے بھی لگایا جا سکتا ہے. ایران
اور مصر کے علاوہ بھی بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہ ملک اپنی مردم شماری
کے لیے ڈیجیٹل طریقہ کار اپنا چکے ہیں۔ انھوں نے اس طریقہ کار کے لیے کم از
کم دو سال کی منصوبہ بندی کی اور بڑی کامیابی سے مردم شماری کے نتیجہ حاصل
کیے ہیں اور جس میں کوئی غلطی کی گنجائش سامنے نہیں آئی ہے. پاکستان وہ بھی
خاص کر سندھ میں ہر مردم شماری کو متنازع بنادیا جاتا ہے جس کی خاص وجہ صیح
شماری میں بدنیتی ہمیشہ سے شامل رہی ہے. جو اس ملک اور سندھ صوبہ کی عوام
کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے.
|