یہ جو ”موئی“ گلے پڑی ہے، اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا،ہماری
اُردو بھی ہے تو آوارہ سی،مگر جو آوارگی کی رسم اس انگریزی نے چلائی وہ بے
ہودگی کی حدیں بھی پار کر چکی۔گھر گھر دہشت گردی پھیلاکر لبِ بام ایسے
رقصاں ہے جیسے یہ اس کے باپ کا ”چوبارہ“ ہے۔ نہ خود ڈھنگ سے آتی ہے اور نہ
اُردو اور دیگر زبانوں کو ڈھنگ سے آنے دیتی ہے۔بڑے بڑے اُردو داں اس کے نرم
و ملائم لہجے کو زہرِ ہلاہل گردانتے رہے،چیخ چیخ کر بتاتے رہے ”ہر کہ آں را
بپذیر د نابود می شود“مگر مجال ہے جو یہ منہ پھٹ ہمارے منہ کو لگی تو پھر
چھُوٹ جائے۔ تکبر و غرور سے بھری،بے ہودہ و آوارہ، ذہنوں اور مزاجوں پر
دہشت پھیلاتی دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی۔ نسلوں پر نسلیں تباہ کئے
جا رہی مگر کسی بھی قوم کوسکون نہیں لینے دے رہی۔
انگریزی کو میں دنیا کی دہشت گردزبان کہتا ہوں۔ جس طرح اس نے دنیا کی اپنی
روایتی زبانوں میں گھس کر ان کا تیا پائنچہ کیا کیوں نہ اس کو دہشت گرد کہا
جائے۔ کسی زبان کو اس نے سالم نہیں چھوڑا، آپ اپنی اُردو ہی دیکھ لیں۔ ہاں
یہ سچ ہے کہ اُردو ایک لشکری زبان ہے جس کا دل کہیں سے اور گردہ کہیں سے
لیا گیا،مگر پھر بھی ایک رابطہ زبان تو بنا لی گئی جس کی ایک اپنی چاشنی
ہے۔ مگر اس انگریزی نے بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ اب تو پنجابی یا اُردو،
ہندی ہو یاسندھی، پشتو ہو یا بلتی کوئی بھی اس دہشت گردکے مظالم سے محفوظ
نہیں۔ انگریزی کے دہشت زدہ حملوں کی وجہ سے زخموں سے چورخصوصاً ہماری اُردو
بے چاری لگتا ہے،اگلی چند دہائیوں میں آخری سانسوں پر ہو گی۔ چھوٹا ہو یا
بڑا،پیر ہو یا فقیر، عالم ہو یا اَن پڑھ اس ”موئی“ کا ہر کوئی زخم خوردہ
ہے۔
اوپر سے ہمارے نخرے اور مزاج ہی نرالے، پنجابی ٹھوکیں یا اُردو ٹھونسیں اس
کا تڑکا مثل سفوفِ ہاضمہ ضرور لگانا ہوتا ہے اور یہ انگریزی بے شرم و بے
حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے زبانِ نازک سے ایسے ڈھلکتی ہے کہ خدا کی پناہ،
سامنے والے بھانویں نگلے یا اُگلے ہم نے بہرحال اس ”مر جانی“ کو کونینِ
شیریں سمجھ رکھا ہے۔
|