آنکھیں جمائے ___ سانس روکے ___
ساکت و جامد ___ میں ای۔میل دیکھ رہا تھا ___ مجھے لفظ نہیں پٹاخے معلوم ہو
رہے تھے ___ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60فیصد دولت پر قابض ہیں ___ دیگر
6ارب انسان بقیہ 40فیصد پر تصرف رکھتے ہیں ___ انٹرنیشنل پرنٹ و الیکٹرانک
میڈیا کے 90فیصد اہم ترین ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں ___ IMF، نیویارک
ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی،
وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی پی، سٹار ٹی وی ___ میرے خدایا! یہ فہرست
تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ___ ای۔میل کی آخری سطور نے مقناطیسی اثر
دکھاتے ہوئے میری نظر قابو کر لی ___ اِس حقیقت کی وجوہات میں ایک بنیادی
وجہ ___ ہزاروں سال سے یہودی ایک بات پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں ___ وہ
اپنی آمدنی کا 20فیصد اپنے مذہب ، قوم اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے
خرچ کردیتے ہیں ___ اللہ تعالیٰ صرف رب المسلمین تو نہیں ___ وہ رب
العالمین ہے ___ غیر مسلموں کے لیے آخرت میں کوئی جزاء نہیں ___ دنیا میں
تو ہے! ___ میں آہستہ آہستہ کرسی پر نیم دراز ہو گیا ___ سر کرسی کی پشت پر
رکھ کر آنکھیں موند لیں ___ لمحوں میں سال پیچھے کی طرف دوڑ گئے ___ منشی
محمد ___ میرے ذہن میں ایک نام اُبھرا ___ مشکل سے گذر بسر کرنے والا ایک
غریب آدمی ___ ایک دن بیٹھے بٹھائے فیصلہ کر لیا ___ چاہے جو کچھ ہو ___
اپنی آمدنی سے 4فیصد اللہ کی راہ میں(فی سبیل اللہ) خرچ کرنا ہے ___ بازار
میں کھڑے ہو کر کپڑا بیچنا شروع کر دیا ___ نہایت ایمانداری کے ساتھ 4فیصد
اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ___ کاروبار میں کسی انسان کو نہیں ، اللہ کو
حصہ دار بنا لیا ___ کچھ عرصہ گذرا ___ ایک پاور لوم لگا لی ___ پھر فیکٹری
بن گئی ___ لیکن 4فیصد باقاعدگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے ___
پھر وہ دن بھی آیا ___ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے ایک
ہسپتال''منشی محمد ہسپتال'' تعمیر کر کے حکومت کے حوالے کر دیا ___ ذہن میں
روشنیاں جگمگا اُٹھیں ___ مولائے کائنات، شیر ِ خدا، حیدر ِ کرار، علی
المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے ___ ''اگر تنگ دستی آ جائے تو میں
صدقہ دے کر اللہ سے تجارت کرتا ہوں'' ___ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک
شخص نے عرض کیا ___ آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے باقی ماندہ زندگی کا رزق
یکبارگی عطا کر دے ___ میں کچھ دن مصیبتوں کے بھنور میں عیش سے گزار لوں
___ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی ___ رزق عطا کر دیا گیا ___ اُس
نے جتنا کھانا تھا ، کھا لیا ___ بقیہ خراب ہو جانے کے ڈر سے غریبوں میں
تقسیم کر دیا ___ اُس کا لنگر چل نکلا ___ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گذر
ہوا ___ لوگوں کا ہجوم دیکھا تو پتہ چلا کہ اُسی شخص نے لنگر کھول رکھا ہے
جس نے بقیہ ساری زندگی کا رزق یکبارگی مانگ لیا تھا ___ چنانچہ حقیقت جاننے
کے لیے مالک ِ کائنات سے رجوع کر لیا ___ جواب دیا گیا کہ وہ شخص تو اپنے
رب سے تجارت کر رہا ہے ___ ہر بار اُس کی مخلوق میں رزق بانٹ کر واپس کر
دیتا ہے ___ اِسی وجہ سے کئی گنا اُسے واپس دینا قانونِ قدرت ہے ___ اِسی
لیے اتنی ریل پیل ہے ___ اگر ہم بھی ریل پیل چاہتے ہیں تو آج ہی اللہ سے
تجارت شروع کر دیں ___ |