علم حدیث اور محدثین عظام قسط - 4

سید المحدّثین امام ابوداؤد سلیمان السجستانی:
کتب حدیث کا مقبول اور مستند ترین مجموعہ جو”صحاح ستہ“ کہلاتا ہے اس میں عام طور سے تیسرے درجے میں امام ابوداؤد کی ”سنن ابو داؤد“کوشمار کیا جاتا ہے ۔”سنن“ حدیث کی اُس کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں اکثر دینی اَبواب سے متعلق احادیث کو فقہی ترتیب پر جمع کیا گیا ہو چونکہ امام ابوداؤد کی کتاب اسی طرز پر تصنیف ہوئی ہے اس لیے اسے ”سنن ابو داؤد“کہا جاتا ہے۔

”سنن ابو داؤد “کے مصنف کا اصل نام سلیمان اورکنیت ابوداﺅد ہے۔والد کا نام اشعث بن اسحق تھا،آپ سیستان کے رہنے والے تھے،جوہرات اور سندھ کے درمیان بلوچستان کے قریب واقع ہے، سیستان کو عربی میں سجستان کہا جتا ہے اس لئے وطن کی طرف منسوب ہو کر ”سجستانی“ کی نسبت سے مشہور ہوئے ۔امام ابو داؤد، سیستان میں202ھ میں پیدا ہوئے لیکن زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا اور وہیں اپنی کتاب سُنن تالیف کی اسی لئے ان سے روایت کرنے والوں کی تعداداُن علاقوں میں زیادہ ہے۔ آخر عمر میں بعض وجوہ سے 271ھ میں بغداد کو خیر باد کہا اور زندگی کے آخری چار سال بصرہ میں گزارے جو اس وقت علم وفن کے لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا اور وہیں بروز جمعہ 275ھ کو وفات پائی۔

جس زمانے میں انہوں نے آنکھیں کھولیں اس وقت علم حدیث کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا تھا اس لئے امام موصوف نے مختلف شہروں اور ملکوں کاسفر کیا اور اس زمانہ کے تمام مشہور اساتذہ وشیوخ سے حدیث حاصل کی ،صاحبِ اِکمال نے لکھا ہے:قدم بغدادغیر مرة،بغداد متعدد بار تشریف لائے ،نیز تحصیل علم کے لئے عراق،خراسان،شام،الجزائر وغیرہ مختلف شہروں کی خاک چھانی اور ہر جگہ کے اَرباب فضل وکمال سے استفادہ کیا ۔

امام ابوداﺅد ؒ تحصیل علم کے لئے جن اکابروشیوخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کااحاطہ دشوار ہے خطیب تبریزی فرماتے ہیں کہ:اخذ العلم ممن لایحصیٰ۔انہوں نے بیشمار لوگوں سے حدیثیں حاصل کیں۔ ان کی سُنن اور دیگر کتابوں کو دیکھ کر حافظ ابن حجر کے اندازے کے مطابق ان کے شیوخ کی تعداد تین سو سے زائد ہے ۔وہ امام بخاری کے بہت سے شیوخ میں ان کے شریک ہیں، ان کے اساتذہ میں امام احمد ،محدث قعنبی ،ابوالولید طیالسی،مسلم بن ابراہیم اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ فن شامل ہیں ۔

ان کے تلامذہ کا شمار بھی مشکل ہے ان کے حلقہ درس میں کبھی کبھی ہزاروں کا اجتماع ہوتا تھا۔ علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ ان کے لئے سب سے زیادہ قابل فخر بات یہ ہے کہ امام ترمذی اور امام نسائیؒ ان کے تلامذہ میں سے ہیں اور امام احمد ؒ بن حنبل نے بھی ”حدیث عتیرہ“ کو ان سے سُنا ہے اور امام ابوداﺅدؒ اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔

ابو حاتم فرماتے ہیں کہ امام موصوف فقہ وعلم اور حفظِ حدیث ،زہد وعبادت یقین وتوکل میں یکتائے روزگار تھے ۔ان کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے کرتہ کی ایک آستین تنگ ہوا کرتی تھی اور ایک کشادہ، جب اس کا راز دریافت کیا گیا تو بتایا کہ ایک آستین میں اپنے نوشتہ(تحریرات) رکھ لیتا ہوں اس لیے اس کو کشادہ بنا لیا ہے اور دوسری کو کشادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی نہ اس میں کوئی فائدہ تھا اس لئے اس کو تنگ ہی رکھا ہے۔ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤدؒ ورع وتقویٰ ،عفت وعبادت کے بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ کہا گیا ہے کہ امام موصوف رفتار وگفتار میں اپنے استاد امام احمدؒ بن حبنل کے بہت مشابہ تھے۔

امام موصوف کو علم وعمل میں جو امتیازی مقام حاصل تھا اس زمانے کے علماءومشائخ کو بھی اس کا پورا پورا اعتراف تھا چنانچہ حافظ موسیٰ بن ہارون فرماتے ہیں کہ امام ابوداﺅدؒ دنیا میں حدیث کیلئے اور آخرت میں جنت کیلئے پیدا کئے گئے تھے میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔امام ابراہیم حربی کا یہ فقرہ ابوداﺅدؒ کے متعلق مشہور ہے کہ حدیث کو ان کیلئے اس طرح نرم کردیا گیا تھا جیسے حضرت داﺅد علیہ السلام کیلئے لوہا،محدث حاکم کی رائے یہ ہے کہ ”امام اہل الحدیث فی عصرہ بلا مدافعة امام ابوداؤد“ امام ابوداؤد بلاشک اپنے زمانے میں محدثین کے امام تھے۔

امام ابوداؤدؒ نے اس ”سُنن“ کے علاوہ دیگر تصانیف بھی کیں۔ سوانح نگاروں نے جن تصانیف کا سراغ لگایا ہے وہ درج ذیل ہیں:
مراسیل ، الرد علی القدریہ ، الناسخ و المنسوخ ، ماتفرد بہ اہل الامصار ، فضائل الانصار ، مسند مالک بن انسؓ ، المسائل ، معرفة الاوقات ، کتاب الوحی ۔ لیکن آپ کی سب سے اہم اور معروف و متداول کتاب ”سُنن“ ہے ۔

اس کتاب کی تالیف کی ضرورت کیوں پیش آئی اور پھر وہ کیا امتیازی وصف تھا جس سے اس کتاب کو ”صحاح ستہ“ کی صف میں جگہ ملی۔ یہ بات سمجھنے کیلئے ہمیں صحاح ستہ کے مقاصدتصنیف جاننا ضروری ہے ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تالیف کی وجہ اور مقصد تو پہلے ان کتابوں کے تعارف میں ذکر ہو چکا ہے اب سنن ابوداؤد کے مقصد کو جاننا ہے ۔ امام ابوداؤد اپنے زمانے میں یہ ضرورت محسوس کی کہ علم حدیث میں ایک نئی کتاب اس انداز سے مرتب کی جائے جس میں اُن احادیث کو جمع کیا گیا ہو جن سے ائمہ فقہ مثلا امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہ نے اپنے مذاہب فقہیہ پر استدلال کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:امام ابوداؤد کا مقصد یہ تھا کہ ایسی احادیث کو یکجا کردیں جس سے فقیہ حضرات اپنے فقہی مسالک پر استدلال کرتے ہیں اور جو احادیث اُن میں رائج ہیں اور جن احادیث کو مختلف شہروں کے علماءنے احکام فقہیہ کی بنیاد بنایا ہے ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب ایک مجتہد کےلئے کافی ہے اور اَحکام و مسائل والی احادیث پر مشتمل کوئی کتاب اس سے بہتر نہیں ہے ۔

کتاب کی تصنیف میں امام صاحب کے اخلاص اور بے پناہ جد و جہد کی وجہ سے اسے وقتِ تصنیف سے ہی قبولیت عامہ نصیب ہوگئی تھی جو آج تک قائم و دائم ہے۔حافظ ابو طاہر فرماتے ہیں کہ مجھ سے حسن بن محمد نے خوداپنا یہ خواب بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا اور نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص سنت پر عمل کرنا چاہے اسے چاہئے کہ سُنن ابوداؤد پڑھے۔ اس کتاب کو اس وقت کے صرف محدثین نے ہی نہیں سراہا بلکہ صوفیاءکرام بھی اس پر بہت خوش ہوئے۔ حضرت سہل تستریؒ جو اس زمانے کے معروف اہل اللہ اور صوفیاءمیں سے تھے اس کتاب کی تالیف کے بعد مصنف سے ملنے کے لئے آئے اور فرط عقیدت سے امام صاحب کی زبان کا بوسہ لیا۔

امام ابوداؤد نے پانچ لاکھ احادیث کے مجموعے سے چار ہزار آٹھ سو احادیث منتخب کرکے اپنی اس سُنن میں ذکر کی ہیں۔اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پھر ان چارہزار آٹھ سو احادیث سے چار احادیث منتخب کرکے فرمایا:انسان کو اپنے دین پر عمل کرنے کے لئے یہ چار حدیثیں کافی ہیں۔وہ چار حدیثیں نفع عام کے لئے ذیل میں درج کر دی جاتی ہیں:
(۱)انما الاعمال بالنیات(تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)
(۲)من حسن اسلام المرءترکہ مالایعنیہ (انسان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے)
(۳)لایکون المومن مومناحتی یرضی لاخیہ ما یرضی لنفسہ ( کوئی مومن اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہ کرے جس کو اپنے لئے پسند کرتا ہے)
(۴)الحلال بیّن و الحرام بیّن....الخ(حلال و حرام واضح ہیں ، مگر ان کے درمیان بعض مشتبہ و مشکوک چیزیں بھی ہیں ، جو ان سے بچے گا وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر سکے گا۔

یہ چار حدیثیں انسان کے لئے کیسے کافی ہیں اس کا آسان اور مختصر جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث عبادات کی درستگی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ جو عبادت اور نیک عمل کیا جائے وہ خالص اللہ کی رضاجوئی کے لئے ہو، اس میں ریاءکاری ، دکھلاوا اور شہرت پسندی کے جذبات کارفرمانہ ہوں۔ دوسری حدیث سے اپنی عمر عزیز کے اوقات کو قیمتی بنانے کی ترغیب اور اہمیت معلوم ہوتی ہے ۔ تیسری حدیث سے حقوق العباد کی اہمیت ، ضرورت اور پہچان حاصل ہوتی ہے اور چوتھی حدیث ایسے مسائل میں واضح راستہ پیش کرتی ہے جس میں علماءکو شک و ترددواقع ہوا ہو۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344117 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.