ھماری ویب پر ہماری قلمی نگارشات کا سلسلہ بارہ برس پہلے
مضامین و منظومات پر تبصروں کی صورت میں شروع ہؤا تھا ۔ جو اکثر ہی ایک
پیرا گراف کے ہی برابر ہوتے تھے اور مختصر و مفصل سب کو ملا کر ان کی تعداد
تین چار سو کے قریب تو ہو گی ۔ ان کا ہم نے کوئی ریکارڈ نہیں رکھا بس لکھا
اور پوسٹ کر دیا ، زیادہ اہم متعلقہ پوسٹ کو فیورٹ کی لسٹ میں ایڈ کر دیتے
تھے اور وہی مقام ہمارے قلمی سرمائے کا مرکز تھا ۔ پھر گزشتہ سال کسی وقت
کمنٹس کو فیس بک کے ساتھ پلگ اِن کر دیا گیا اور اس کے بعد بذریعہ ویب ہی
کیے گئے تمام تبصرے ڈیلیٹ یا پھر آف لائن کر دیئے گئے بلکہ اب تو براہ راست
کمنٹس کا آپشن ہی موجود نہیں ہے ۔ یہ حادثہ کب پیش آیا ہمیں تو معلوم ہی
نہیں ہے مصروفیات اور مہنگائی نے یہاں ہماری بھی مت مار رکھی ہے ۔ کسی وقت
یونہی جائے حادثہ پر قدم رنجہ فرما لیا تو انکشاف ہؤا کہ ویب کمنٹس کا باکس
ہی موجود نہیں ہے ۔ دل کو خاصا دھچکا بھی لگا اگر پہلے سے معلوم ہوتا کہ
ویب کمنٹس داغ مفارقت دینے والے ہیں تو فیورٹ کی لسٹ میں جا کر کم از کم
اپنے تحریر کردہ وہ تبصرے جو کسی چھوٹے موٹے کالم ہی کے برابر تھے تو ان کو
کاپی پیسٹ کر کے نوٹس کے فولڈر میں محفوظ کر لیتے ۔ خیر اب کر بھی کیا سکتے
ہیں صبر کے علاوہ ، پاکستانی اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی ہماری
سینکڑوں تحریروں کا آج ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ان پر بھی تو
فاتحہ پڑھ ہی چکے تو چلو ایک بار اور سہی ۔
ھماری ویب سے وابستگی کے پانچ برسوں بعد پبلک کے پُر زور اصرار پر ہم ناچیز
نے مضامین لکھنے کا بھی آغاز کیا اور اس کے اگلے سات برسوں میں وقتاً فوقتاً
جو کچھ لکھا اس کی تعداد دو سو پلس ہے ۔ اور اس میں سے صرف ایک ہی تحریر کو
فیچرڈ آرٹیکلز کی کیٹیگری کے تحت ہوم پیج پر شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہؤا
اور سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کا بھی ، اس میں خلافِ عقل ایک حقیقی واقعے کا
ذکر تھا جو کہ ہمارے ساتھ پیش بھی امریکہ کی سرزمین پر آیا گلے میں پہنی
ہوئی طلائی چین کے غائب ہو کر پھر واپس آ جانے سے متعلق ۔ ورنہ تو ایک عام
اعتراض سننے میں آتا ہے کہ ایسے وقوعے صرف برصغیر پاک و ہند میں ہی کیوں
برپا ہوتے ہیں؟ بلکہ یہیں کچھ اور بھی محیر العقول مشاہدات کا سامنا ہؤا وہ
بھی ہم نے ھماری ویب پر ہی تحریر کیے ان کو بہت پڑھا بھی گیا کیونکہ ایسے
واقعات کے بیانیے میں خوف و تجسس کے ساتھ بے پناہ کشش بھی ہوتی ہے پڑھنے
والوں کو بہت دلچسپی ہوتی ہے ایسی تحریروں میں ۔ اور پورے چار برس بعد
تحریر مذکورہ ایک ادبی گروپ میں شیئر کی گئی ہے اور اس نے گویا ہر ایک کو
اپنے اپنے تجربات شیئر کرنے کی مہمیز دے دی ۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے چیز کے
غائب ہو کر اس کا واپس آ جانا یا گم ہو کر غیر منطقی طور پر مل جانا کوئی
معمول کی بات ہو ۔ اور مزے کی بات ہے کہ خود ہمیں بے ساختہ پچیس برس پہلے
کا ایک ناقابل یقین واقعہ یاد آ گیا جو ذہن سے تقریباً محو ہی ہو چکا تھا
نہ ہؤا ہوتا تو ہم نے اسے ضرور سپرد تحریر کر دیا ہوتا ۔ خیر اب بھی کچھ
نہیں گیا شاید اس کو ضبط تحریر میں لانے کا وقت ہی ابھی آنا تھا ۔
کراچی سے نواب شاہ کے درمیان بذریعہ ٹرین سفر کرتے ہوئے گرمی اور گرد کے
باعث ایک چھوٹا سا تولیہ ہینڈ کیری کے اوپر ہی رکھ لیا تھا اور راستے بھر
اس کو استعمال بھی کیا تھا مگر ٹرین سے اترتے ہوئے وہ کہیں گر گیا ۔ بیس دن
نواب شاہ میں قیام کے بعد کراچی واپسی ہوئی ، وہ ہینڈ کیری ایک طرف رکھ دیا
۔ تیسرے دن دیکھا کہ گمشدہ تولیہ اس کے اوپر رکھا ہؤا تھا ۔ حیرت کے ساتھ
ہیبت بھی طاری ہو گئی تھی ہم پر ، تولیے کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا
تھا پھر ہمت مجتمع کر کے اس کو کچھ عرصے تک استعمال کیا پھر اس کو جھاڑن
بنا لیا ۔ آج پہلی بار خیال آیا ہے کہ وہ تو ایک نوادر تھا جانے کون سی
ماورائی مخلوق کے ہاتھوں ہوتا ہؤا اس کی نوازش سے ہم تک پہنچا تھا سینکڑوں
میل کا فاصلہ طے کر کے ۔ اور ہم نے کیا قدر کی اس بیچارے کی؟ اسے جھاڑ
پونچھ کا کپڑا بنا دیا ۔ ہمیں تو اسے ایک انوکھی یادگار کے طور پر ہمیشہ کے
لئے سنبھال کر رکھ لینا چاہیے تھا ۔ مگر وہ تو کھو جانے کے بعد پلٹ کر ہمیں
یاد بھی نہیں آیا تھا اور جب پلٹ کر واپس آیا تو اتنے عجب غضب واقعے کو ہم
نے اتنا سرسری لیا کہ چوتھائی صدی بیت گئی اسے فراموش کیے ہوئے ۔ چند برس
پہلے چین کھوئی تو چین کھو گیا تھا کیونکہ وہ سوتی دھاگے سے نہیں بنی ہوئی
تھی ۔ اور اس واقعے کو شیئر کرنے کا خیال آتے ہی ہم نے جھٹ سے لکھ بھی ڈالا
تھا ۔ اور ہماری دو سو قلمی کاوشوں میں سے اسی کو خصوصی مقام حاصل ہؤا اور
اب پھر کہیں دھوم مچی ہوئی ہے کریڈٹ تو بہرحال ھماری ویب کو ہی جائے گا جو
ہماری تو راج دلاری ہے اور مرتے دم تک رہے گی ۔ |