پھر کہتا ہوں شخصیت پرستی یاخودپرستی درحقیقت بت پرستی
سے بدتر ہے،یادرکھیں جہاں شخصیت پرستی ہووہاں معبود برحق کی رحمت نہیں"
برستی" لہٰذاء ہماری قوم سیاسی موروثیت کاتابوت نابود کئے اور شخصیت"
پرستی" کی بری عادت چھوڑے بغیر اس" پستی" سے باہرنہیں نکل سکتی۔اناکے
اسیربھی اپنے خود کش رویوں کے ہاتھوں فنا ہوجاتے ہیں، وطن عزیز کی کوئی
مقتدر شخصیت" انا" اورانتقام کی کیفیت میں درست قدم نہیں اٹھاسکتی۔پاکستان
میں کپتان کوسرنگوں یاقابو کرنے کیلئے جو بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں
انہیں فوری تلف کرنا جبکہ آوازِ خلق کو قدرت کانقارہ سمجھنا ہوگا ۔جوعوام
کانبض شناس نہیں وہ فرض شناس نہیں ہوسکتا، عوام کے پیچھے چلیں ورنہ ہمارا
ملک آگے نہیں جائے گا ۔اپنے پیشرو کی ناکامی اوربدنامی کابوجھ اٹھانا
یاڈھوناحماقت کے سوا کچھ نہیں ،ریاست کی سا لمیت اورقومی وحدت بارے میں
سوچنا ہوگا ۔اگر تنگ و تاریک کنویں سے باہرنکلنا اورتاریخ میں زندہ رہنا ہے
توپھردرست کیمپ کاانتخاب کریں ،جوکوئی چوروں یعنی نیب زدگان اورعیب زدگان
کے ساتھ اظہار ہمدردی یاان کیلئے سہولت کاری کرے گااسے بھی لوگ چورسمجھ
بیٹھیں گے۔کوئی اپنے ہم وطنوں کی" نفرت" کے ساتھ "نصرت" کادامن نہیں تھام
سکتا پاکستانیوں سے اسے عزت ملے گی جوانہیں اوران کے اجتماعی فیصلے کوعزت
دے گا۔ یہ ہم وطنوں پر دھاڑنے ، انہیں پچھاڑنے اور ماضی کی غلطیاں دہرانے
نہیں بلکہ سدھارنے کاوقت ہے ، واشنگٹن کی ڈکٹیشن کومسترد کرتے ہوئے دوٹوک
انداز سےNo More"ـ" کہنا ہوگا۔پاکستان کی قسمت کے فیصلے ہرقیمت پراسلام
آباد میں کرناہوں گے ،عوام جس کومینڈیٹ دیں اداروں کواس کی اطاعت کرناہوگی
۔
حالیہ دنوں میں زمان پارک میں جوکچھ ہوا وہ نہ ہوتا تواچھا تھا ، ریاستی
طاقت کے بل پرکسی مخصوص سیاستدان کی سیاست کوکچلنا اس کے کروڑوں حامیوں
اوربالخصوص نوجوانوں کیلئے قابل برداشت اورقابل قبول نہیں ہوسکتا۔تاریخ نے
کسی حکمران کواپنے ہم وطنوں سے بھڑنے کے بعد زیادہ دیر تک حکومت کرتے ہوئے
نہیں دیکھا۔زمان پارک میں کپتان اوراس کے نہتے لیکن نڈر کارکنان کیخلاف
طاقت کے بیجا استعما ل کو بدترین انتظامی حماقت اورسیاسی عداوت کاشاخسانہ
کہنا بیجا نہیں ہوگا۔عمران خان کے کارکنان کونازک مزاج سمجھا جاتا تھا لیکن
ا نہوں نے اپنی تاریخی استقامت اوربھرپورمزاحمت سے اس تاثر کو دفن کردیا
ہے۔اس وقت عمران خان کااستقلال اوراس کے جانبازحامیوں کامورا ل کوہ ہمالیہ
سے زیادہ بلند ہے ۔میں سمجھتا ہوں فوجی آمر بھی اپنے ادوار میں سیاسی
قائدین و کارکنان کیخلاف اس طرح کی بربریت کامظاہرہ نہیں کیا کرتے
تھے۔منتقم مزاج حکمران اپنے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے کپتان اوراس کے حامی
کارکنان کوروندنے کے درپے کیوں ہیں، مکالمے سے معاملے کاپائیدار حل تلاش
کیاجاسکتا ہے ۔ ہماری ریاست اورسیاست سیاسی جنازوں کی متحمل نہیں
ہوسکتی۔حکمران زمان پارک میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہرگزنہ دہرائیں بلکہ اس سے
کچھ سیکھیں اوراپنی اصلاح کریں۔ ارباب اقتدار واختیار یادرکھیں ان کی ہٹ
دھرمی اور انتقامی سیاست سے ملک کے اندر نفرت اور بدانتظامی میں شدت آئے گی
۔نام نہاد جمہوری دورِ حکومت میں انسانوں کے بنیادی حقوق پامال کئے جارہے
ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کیلئے انصاف پرشب خون
مارنے کاسلسلہ فوری بندکیاجائے۔شہریوں کاشاہراہوں پر"انصاف مارچـ"
نویدانقلاب ہے۔کالے کوٹ نے بھی نیب زدگان کے کالے قوانین کیخلاف طبل جنگ
بجادیا۔ملک عزیز کاممتازقانون دان اعتزازاحسن،حامد خان اوراظہرصدیق کی
قیادت میں مستعدقانون دان ایک بار پھر آئین وقانون کے نگہبان بن کرابھرے
ہیں ۔عمران خان کی طرف سے بار بار تحفظات کا اظہار انہیں اطمینان بخش
سکیورٹی کی فراہمی کامتقاضی ہے۔ شہریوں اور سکیورٹی فورسزکے درمیان نفرت
کومزید ہوا نہ دی جائے ۔عوامی سطح پرناپسندیدہ حکمران اپنے مذموم عزائم کی
تکمیل کیلئے پولیس کاکندھا استعمال نہ کریں ۔ دوصوبوں میں انتخابات کی
تاریخ مقرر ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ہرجماعت کاجمہوری
اورآئینی حق ہے جوسلب نہیں کیا جاسکتا۔وزیراعظم سمیت وفاقی وزراء پی ٹی آئی
کیخلاف اشتعال انگیز بیانات جبکہ جارحانہ اور انتہاپسندانہ اقدامات سے
گریزکریں۔ نجی نیوز چینل بول کی نشریات کو بحال جبکہ سیاسی اسیران کوفوری
رہاکیاجائے ۔
ماضی میں جمہوریت کی حامی کسی جماعت کیخلاف اس قسم کی سیاسی جارحیت کی نظیر
نہیں ملتی،معاشرے کے سنجیدہ طبقات کی طرف سے جہاں اس سرکاری مہم جوئی کی
شدیدمذمت کی گئی وہاں لاہور پولیس کی کمانڈتبدیل کرنے کا مطالبہ بھی شدت سے
دہرایاگیا ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے 25مئی2022ء کا آزادی مارچ ناکام بنانے
کیلئے بھی کپتان کے کارکنان پربدترین تشدد اورچادروچاردیواری کاتقدس پامال
کیا گیاتھا،اس وقت بھی سی سی پی اولاہور کامنصب بلال صدیق کمیانہ کے پاس
تھا اورزمان پارک میں جاری آپریشن کے وقت بھی لاہور پولیس کی کمانڈموصوف کے
پاس ہے ۔پنجاب کے باصلاحیت اور مستعد آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انور نے
اپناعارضی منصب بچانے کیلئے اپنی نیک نامی اور اچھی شہرت داؤپرلگادی،کیا
حکمرانوں کے متنازعہ اور ناجائز ا یجنڈے کی تعمیل وتکمیل کرنا ڈسپلن
ہے۔پنجاب کے سابقہ پروفیشنل آئی جی پی راؤسردارعلی خاں نے سیاسی تنازعات
کاحصہ بننے سے آبرومندانہ انکار کرتے ہوئے منصب چھوڑدیاتھا ،انہوں نے عہدہ
قربان کردیا لیکن اپنی عزت اوراپنے باپ دادا کی تربیت پرآنچ نہیں آنے
دی۔ڈاکٹر عثمان انورکی طرف سے پولیس شہداء کے ورثاء کی بھرپور پذیرائی
مستحسن اقدام ہے لیکن کاش انہوں نے اپنے محکمے کے زندہ اورزندہ ضمیر
آفیسرغلام محمودڈوگر کیلئے بھی سٹینڈ لیا ہوتا، عدالت عظمیٰ کا واضح فیصلہ
ہوتے ہوئے غلام محمودڈوگر کوسی سی پی اولاہور کاچارج نہ ملنا ایک بڑا
سوالیہ نشان ہے ۔ ڈاکٹر عثمان انور یادرکھیں پنجاب پولیس اپنے پروفیشنل
ایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر کی مقروض ہے ،ان کا یہ قرض کون اداکرے گا
۔دوسری طرف ایک باصلاحیت پی ایس پی آفیسر ناصر منیف قریشی جواپنے سینئرز کے
تعصب اورانتقام کانشانہ بنا،وہ بھی کئی برسوں سے انصاف کا منتظر ہے۔دیکھتے
ہیں 1787پرعام سائلین کی شکایات براہ راست سننے اوران کاخاطرخواہ مداوا
جبکہ شہدائے پولیس کے ورثا کی عزت افزائی کرنیوالے نیک نیت ڈاکٹر عثمان
انور اپنے زندہ ٹیم ممبرز کوان کے جائزحقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے
کیا قدم اٹھاتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں نظریاتی سیاست کوفروغ
دیاجائے کیونکہ مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت کا دروازہ بند گلی میں
کھلتا ہے۔جولوگ اپنے بچاؤ کی تدبیر اوربہتر مستقبل کیلئے تدبر نہیں کرتے وہ
ہاتھ پاؤں سلامت ہوتے ہوئے بھی اندھے کنویں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ صرف
ہمارا درست انتخاب ہمیں مزید پانچ برسوں کیلئے ملک میں رائج فرسودہ نظام
کاغلام بننے سے بچاسکتا ہے۔ہمیں" برادری" کی سیاست کاسومنات پاش پاش
اور"بردباری" کامظاہرہ کرتے ہوئے قوم کیلئے ـ"سوچنا" اوراپناملک" سینچنا"
ہوگا۔ میں ذاتی حیثیت میں جمہوریت کو پاک سرزمین کیلئے نحوست اورنجاست
کاڈھیر سمجھتا ہوں،یہ" دوا" نہیں بلکہ شدید ترین"درد" ہے ۔اپنے کندھوں
پرجمہوریت کاتابوت اٹھائے جبکہ رہزنوں کی قیادت میں ہمارا منزل تک پہنچنا
خارج ازامکان ہے۔ آدم خور جمہوریت کی نحوست سے ہرالیکشن میں بیسیوں جمہور
بچے یتیم جبکہ عوام اس نظام کے ہاتھوں مزید تقسیم ہوجاتے ہیں ۔بدعنوانی میں
لتھڑے اس پارلیمانی نظام سے نجات اورنظام خلافت کی دوبارہ شروعات تک عوام
کو ملک میں" ٹوپارٹی سسٹم " کی آبیاری کیلئے چھوٹی چھوٹی نام نہاد پارٹیوں
سے اظہار بیزاری کرنا ہوگاکیونکہ سیاسی بونوں کو ملک میں عدم استحکام
پیداکرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی زیادہ قیمت وصول کرنے کیلئے
ہرمنتخب وزیراعظم کو بلیک میل کر ناہر حکمران اتحاد میں شامل چھوٹی پارٹیوں
کے بانیان کاوتیرہ رہا ہے اورڈیل نہ ہونے کی صورت میں یہ قومی مفاد کے نام
پر اپوزیشن کیمپ میں چلے جاتے ہیں جس سے نظام دھڑام سے زمین بوس ہوجاتا ہے۔
چندسانڈاقتدار کیلئے آپس میں بھڑنا اورہمارے وطن عزیز کے مفادات کومسلنا
اورکچلنا بندکردیں۔چندسیاسی خاندانوں کے درمیان جاری تصادم نے پاکستان
کوسیاسی ومعاشی عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں دیا ۔قومی سیاست کے جوکر
نماکردار جو محض اقتدار کیلئے اقدار کورونداجبکہ ایک دوسرے کوغدار کہا کرتے
تھے وہ ایک روز اچانک متحد اورعوام کااستحصا ل کرنے کیلئے مستعد ہو جاتے
ہیں۔ہم پاکستان کے داخلی بحرانوں سے نجات کیلئے کس مسیحا کاانتظار کررہے
ہیں،پاکستانیوں کیلئے آسمان سے من وسلویٰ یا کوئی نجات دہندہ نہیں اترے گا۔
ہمارا حکمران اورسیاستدان طبقہ بیدار ہونے کیلئے تیار کیوں نہیں ہے۔ محرم
کے روپ میں دندناتے مجرم پاکستان کی بوٹیاں کیوں نوچ رہے ہیں۔ہماری سیاسی
قیادت کا طرز سیاست مقروض ریاست پرڈرون حملے کے سوا کچھ نہیں۔جس خاندان
کاسربراہ آئی سی یو میں پڑا ہو وہ آپس میں ہرگز نہیں الجھتا، ہمارا پاکستان
آئی سی یو میں ہے جبکہ سیاستدان اس کیلئے صحتمندخون کاانتظام کرنے کی بجائے
سیاسی انتقام کوہوا دیتے ہوئے معاشی عدم استحکام کاراستہ ہموارکررہے ہیں
۔جہاں سیاسی تلخیاں حد سے تجاوزکرجاتی ہیں وہاں سیاست بانجھ جبکہ نفرت عام
ہوجاتی ہے ۔ریاست کی سا لمیت اورمعیشت کی مضبوطی یقینی بنانے کیلئے بیرونی
سے زیادہ اندرونی خطرات کاسدباب کرنا اورناسوروں کے سروں کوکچلنا ہوگا
۔شدید ترین سیاسی ومعاشی بحران کے باوجود سیاستدان آپس میں بیٹھنے کیلئے
تیارنہیں اورنہ کوئی سیاسی بزرگ ان کے درمیان بڑی بیٹھک کیلئے پل
کاکرداراداکرنے کیلئے تیار ہے ۔جس وقت تک سیاستدان نہیں سنبھلیں گے اس وقت
تک وطن عزیز نہیں سنبھلے گا۔
|