موہن بھاگوت کے ذریعہ مسلمان حکمرانوں کی تعلیمی خدمات کا اعتراف

وزیر اعظم نے دولت کے زور سے قومی ذرائع ابلاغ کو اپنا گرویدہ توبنالیا لیکن فی الحال ان سے زیادہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت خبروں میں رہتے ہیں ۔ ذات پات اور پنڈت والا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ ان کاایک نیا بیان بحث و مباحثے کا موضوع بن گیا۔ ناگپور ضلع کے کنھولیبرا گاوں میں آریہ بھٹ کے نام پر ایک پارک بنایا گیا اور اس کے افتتاح کا شرف سرسنگھ چالک کو حاصل ہوا۔ آریہ بھٹ چونکہ صفر ایجاد کرنے والے معروف ریاضی داں تھے اس لیے موہن بھاگوت نے کچھ معروضی باتیں کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک بار پھر مذہبی کتابوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کچھ خود غرض لوگوں نے ان کتابوں میں بہت کچھ داخل کردیا ہے۔ پنڈت والے ہنگامہ کو چونکہ زیادہ عر صہ نہیں گزرا اس لیے احتیاط کرتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ وہ خود غرض لوگ کون تھے؟ یا ان کا تعلق کس طبقہ سے تھا، ورنہ پھر سے تنازع کھڑا ہو جاتا ۔ اس کے باوجود ان کا مذہبی صحیفوں میں خود غرضانہ تحریفات کی موجود گی کو تسلیم کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

ان کےمذہبی صحیفوں میں مداخلت کیسے ہو گئی ؟ اس سوال کا یہ جواب دیا گیا پہلے یہاں کتابیں نہیں تھیں۔ زبانی روایت سے کام چلایا جاتا تھا۔ تحریریں بعد میں آئیں اورپھر ان عبارتوں کو قلمبندکیا گیا۔ موہن بھاگوت کے مطابق اس دوران کچھ خود غرض لوگ بھی داخل ہوگئے ۔ انہوں نے کتاب میں چند سراسر غلط باتیں داخل کردیں۔ بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان کے پاس روایتی علم کا ایک وسیع ذخیرہ ہے لیکن کچھ خود غرض لوگوں نے جان بوجھ کر قدیم نصوص میں غلط باتوں کا اضافہ کردیا ۔ اس لیے نصوص اور روایات کے علم کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس جائزے کے بعد جو امتحان میں پورا اترے گا وہی دین اور علم دونوں شمار ہوگا۔ ایسے میں ایک سوال یہ ہے کہ جائزہ کس کسوٹی پرلیا جائےگا؟ اور کس بنیاد پر حقیقی نصوص کو خود غرضانہ تحریف سے الگ کیا جائے گا کیونکہ مقناطیس کے بغیر لوہے کو لکڑی کے برادے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور ان لوگوں کے پاس وہ موجود ہی نہیں ہے۔

دھرم گرو چونکہ موہن بھاگوت سمیت پوری آر ایس ایس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لیے ان کے جائزے پر ہندو سماج کا اتفاق ناممکن ہے۔ ابھی حال میں جب بھاگوت نے ذات پات کی تفریق کو غلط ٹھہرایا بیشتر مذہبی پیشوا وں نے ان کی رائے کو مسترد کردیا اور کچھ لوگوں نے انہیں مذہب کے ٹھیک سے مطالعہ کرنے کی تلقین تو کچھ نے ایسے تنازعات سے بچنے کا مشورہ دیا ۔ موہن بھاگوت نے یہ اعتراف بھی کیا کہ کچھ تحریریں ضائع ہوچکی ہیں اور پھر یہ بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تیار کردہ نصاب میں جو چیزیں پہلے رہ گئی تھیں مگر اب شامل کردی گئی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نصاب بنانے والوں کی ضائع شدہ معلومات تک رسائی کیسے مل گئی؟ ان گمشدہ چیزوں کو شامل کرنے کا جواز یہ بتایا گیا کہ تمام ہندوستانیوں کو ملک کے روایتی علم سے آگاہ ہونا چاہیے ۔ سب کویہ پتہ ہونا چاہیے کہ باہمی گفت و شنید و نظام تعلیم کے ذریعہ یہ معلومات کیسے حاصل کی گئیں؟ لیکن جس علم کا منبع و مرجع باہمی بات چیت ہے اس میں سے خودغرضانہ تحریفات کا الگ کرنا کیونکر ممکن ہے؟
آریہ بھٹ باغ چونکہ ایک سائنسداں کے نام سے منسوب تھا اس لیے بھاگوت نے کہہ دیا کہ ہمارا مذہب سائنس کے مطابق چلتا تھا لیکن وہ بھول گئے کہ الہام سے بے نیازسائنس کسی ایک ڈگر پر نہیں ٹکتی ۔ نت نئے تجربات کے بعد وہ خود اپنے فرسودہ مفروضوں کی تردید کردیتی ہے۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد تاریخی طور پر ہندوستان میں چیزوں کو سائنسی انداز میں دیکھا جاتا تھا انہوں نے اس مزاج میں تبدیلی کے لیے غیر ملکی حملہ آوروں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ وہ بولے غیر ملکی حملے سے یہاں کا نظام اور علمی کلچر بکھر گیا ۔ اپنے خطاب میں موصوف نے دعویٰ کیا کہ اگر ہندوستان کے لوگ اپنی روایتی علمی بنیاد کو قبول کرلیں تو دنیا کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ ایسا کہہ دینا تو بہت آسان ہے مگر بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ان قدیم روایتوں کی جانب رجعت نے بہت سارے پیچیدہ مسائل پیدا کردیئے ہیں۔اس تقریب میں موہن بھاگوت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برطانوی راج سے قبل ہندوستان میں ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں تھا کیونکہ ہندوستان کا تعلیمی نظام لوگوں کو خود پر انحصار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

یہ ایسا سفید جھوٹ ہے کہ جس پر کوئی دیوانہ ہی بھروسہ کرسکتا کیونکہ منو سمرتی انگریزوں نے نہیں لکھوائی اور شودر کو تعلیم دینا زہریلے سانپ کو دودھ پلانے جیسا ہے یہ رام چرت مانس کی تعلیم ہے۔ اس ملک میں نسلی تفریق نہیں ہوتی تو یہاں جین اور بودھ مت جیسے مذہب نہیں ہوتے۔ ذات پات کو قائم رکھنے کی خاطر ملک بھر میں پھیلے ہوئے بودھ مندروں کو مسمار کرکے مذہبی راہبوں کا دیس نکالا کیا گیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس ملک میں جنم لینے والا ایک مذہب سری لنکا ، میانمار، جاپان اور چین جیسے ممالک میں تو پھلا پھولا مگر ہندوستان کے اندر سے اس کی بیخ کنی کردی گئی۔ بودھ مت کا قصور ذات پات کے نظام کو چیلنج کرنا تھا اس لیے اسے ملک سے باہر کھدیڑ دیا گیا ۔ہندوستان میں اگر ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاو نہ ہوتا تو ڈاکٹر امبیڈکر کو اونچ نیچ کے غیر انسانی نظام سے بغاوت کرکے ۱۹۵۶ء ؁ میں بودھ دھرم قبول کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے ذات پات کی تفریق و امتیاز کے لیے انگریزوں کا موردِ الزام ٹھہرانا بہت بڑی ناانصافی ہے۔

آر ایس ایس اور اس کے سربراہ موہن بھاگوت جب بھی بیرونی حملہ آوروں کا ذکر کرتے ہیں تو عام طوع پر اس سے مراد مسلمان ہوتاہے کیونکہ یہ لوگ ایک ہزار سالہ غلامی کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہندو عوام کے درمیان مسلم حکمرانوں کے خود ساختہ مظالم کو بیان کرکے انتقام کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ موہن بھاگوت نے اپنے تازہ خطاب میں اس بیانیہ کی بھی تردید فرمادی۔ انہوں نے انگریزوں پر تعلیمی نظام کو برباد کرنے کا الزام لگا کرکہا کہ برطانوی راج سے پہلے ہندوستان کے 70 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ موہن بھاگوت کے اس بیان سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں ۔ اس بیان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں انگریزی سامراج پر سنگھ کے ذریعہ تنقید کی گئی۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اگر یہ کہا جائے تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں کیوں حصہ نہیں لیا؟ لوگ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ انگریزوں کے خلاف جب ملک کا ہندو مسلمان مل کر لڑ رہے تھےتو سنگھ نے ان دونوں قوموں میں پھوٹ ڈال کر انگریزی سامراج کو فائدہ کیوں پہنچایا؟ اس کے جواب میں اگر سنگھ اگر یہ کہہ کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے کہ ہندوتوا کی سیاست کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہندو مہا سبھا پر تھی تو بات زیادہ بگڑ جاتی ہے کیونکہ ہندو مہا سبھا کے رہنما دنائک دامودر ساورکر نے تو اپنے معافی نامہ میں انگریزوں کے ساتھ تاحیات وفادار ی کا کھلے عام عہد کیا تھا۔

ان سوالات کو نظرانداز کرکے اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس ملک کے ستر ّ فیصد لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے تو اس کا سیدھا جواب مسلمان حکمراں ہوگا کیونکہ تین ہزار سال قدیم منو سمرتی میں تو شودر کے اشلوک سن لینے کی سزا سیسہ پگھلا کر کان میں ڈال دینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے بعد ٹویٹر کی دنیا میں موہن بھاگوت کےبیان کو مغل دور کی تعریف و توصیف قرار دیا گیا کیونکہ برطانوی راج سے قبل ہندوستان میں مغلوں اور دیگر مسلم حکمرانوں کی حکومت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ معروف کارٹونسٹ منجُل نے موہن بھاگوت کے بیان والے ویڈیو کو شیئر کرکے سوال کیا کہ کیا ان(موہن بھاگوت) کا مطلب یہ ہے کہ مغل ملک کو موجود حکومت کے مقابلے زیادہ بہتر انداز سے چلا رہے تھے؟ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں یہ بیان حیرت انگیز تھا لیکن موہن بھاگوت اپنے متضاد بیانات کے لیے خاصے مشہور ہوچکے ہیں ۔

موہن بھاگوت نے ویسے تو واضح انداز میں مغل حکومت کا نام نہیں لیا لیکن ان کے بیان کا عام مفہوم یہی نکلتا ہےاس لیے بہت سے لوگوں نے ٹوئٹر پر پوچھا کہ کیا اب بی جے پی حکومت کے حامی، موہن بھاگوت کے اس بیان پر احتجاج کریں گے کہ انھوں نے مغل دور کی تعریف کیوں کی؟ایک طرف تو موہن بھاگوت کا یہ اعتراف ہے اور دوسری جانب قومی تعلیمی نظام سی بی ایس ای کے ذریعہ سنہ 23-2022 سیشن کے لیے دسویں، گیارھویں اور بارھویں جماعت کی تاریخ اور سیاست کی درسی کتابوں میں سے’مغل دربار‘ سمیت فیض احمد فیض کے اشعار پر مبنی دو پوسٹرز کا ہٹائے جانےکا قابلِ مذمت اقدام ہے۔اس کے علاوہ 11ویں اور 12ویں کے نصاب سے ’غیر وابستہ تحریک، سرد جنگ کا زمانہ، افریقی اور ایشائی خطے میں اسلامی سلطنت کا عروج، مغل دربار کے کرانیکل، اور صنعتی انقلاب جیسے اہم موضوعات کا نکالاجانا ہے گئے ہیں۔ بی جے پی جس جھوٹ کے سہارے حکومت کرنا چاہتی ہے اس کی راہ مسلم حکمرانوں کی رواداری ایک بڑا روڑا ہے اس لیے تاریخ کو چھپایا جارہا ہے۔ یہ دراصل سنگھ پریوار کا احساسِ جرم ہے ۔اسی لیے آسام کے نیم پاگل وزیر اعظم بسوا سرما صوبے کے تین ہزار مدارس کو بند کرنے کی گیدڑ بھپکی دے رہے ہیں۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.