راہل گاندھی فی الحال ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں ۔
بھارت جوڑو یاترا کے بعد سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان کی خبر اخبارات
کے صفحۂ اول پر شائع نہیں ہوتی ہو اور لندن دورے کے بعد تو ہر دن وہ شاہ
سرخی اور بریکنگ نیوزمیں آجاتے ہیں۔ اس چمتکار میں راہل گاندھی کا کم اور
ان مخالفین کا حصہ زیادہ ہے۔ راہل تو پہلےسے یہی سب کہتے رہے ہیں لیکن اب
چونکہ بی جے پی کے بڑے رہنما ان کی مخالفت کرتے ہیں تو گودی میڈیا کے لیے
اس خبرکو شائع کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ راہل گاندھی کی مخالفت کرنے والوں میں
خود وزیر اعظم شامل ہیں ۔ انہوں نے کرناٹک میں کہا تھا کہ ہندوستان کی
جمہوریت کو کسی سے خطرہ نہیں ہے یعنی ان کے سوا کسی سے خطرہ نہیں ہے۔پی ایم
کے علاوہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو بھی سرکار کی مدافعت کے لیے میدان میں
اتارا گیا حالانکہ سرحد کا دفاع کرنے کے لیےان کاتقرر کیا گیاہے ۔ وزیر
خارجہ ایس جئے شنکر بھی خود کو روک نہیں سکے ، موجودہ وزیر قانون کرن رجیجو
، سابق وزیر قانون روی شنکر پرشاد، وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر، خواتین واطفال
اور اقلیتی امور کی وزیرا سمرتی ایرانی اور پرگیہ ٹھاکر وغیرہ کے بیانات
شائع کرنا ذرائع ابلاغ کی نمک خوار ی کا تقاضہ ہے۔ اس چکر میں برسبیلِ
تذکرہ راہل گاندھی کا ذکر آہی جاتا ہے اور ان کا ردعمل بھی نشر کرنا پڑتا
ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا پارلیمانی بیان’ایک اکیلا کتنوں پر بھاری ‘ راہل
گاندھی پر چسپاں ہوچکا ہےاوراسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
گجرات فساد کے بعد سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دقت یہ تھی کہ ان
کی پارٹی کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اپنا راج دھرم(فرض منصبی) نہیں نبھا
رہے تھے اسی لیے انہوں نے ببانگ دہل اس کی تلقین فرمائی تھی۔ اس کے جواب
میں مودی نے کہا تھا کہ وہی تو وہ کررہے ہیں یعنی فساد بھڑکانا یا اس کو
قابو میں نہ کرنا یا شاہ جی کی زبان میں سبق سکھانے کو ہی وہ اپنا راج دھرم
سمجھتے ہیں۔اس کے باوجود ان کو افسوس تھا کہ وہ میڈیا کو اپنے قابو میں
نہیں کرسکے۔ اس کا برملا اعتراف بی بی سی کی ویڈیو میں موجود ہے۔ دہلی آنے
کے بعدمودی جی نے سب سے پہلے ذرائع ابلاغ کی جانب توجہ فرمائی اور ایک ایک
کرکے سارے چینلس کو اپنا بندۂ بے دام بنالیا۔ اخبارات کو بھی اشتہارات کی
مدد سے قابو میں کر لیا جو لالچ میں نہیں آئے ان کو ڈرا دھمکا کر اپنا یا
گیا۔ این ڈی ٹی وی آخری وقت تک ڈٹا رہا تو اسے چور دروازے سے خرید لیا
گیا۔ وہ تو خیر رشی سونک سے بات نہیں بنی ورنہ بی بی سی بھی اے بی سی یعنی
اڈانی براڈکاسٹنگ کا رپوریشن بن چکا ہوتا۔ خیر اپنی اس عظیم کامیابی کے
بعدذرائع ابلاغ پر راہل گاندھی کا بول بالہ مودی جی کی بدترین شکست کا
شاخسانہ ہے۔ اس موقع پر قائم چاندپوری کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
کل تک جو بات راہل گاندھی لندن میں کہہ رہے تھے آج اس کی تائید ترنمول
کانگریس کی شعلہ بیان رکن اسمبلی مہوا موئترا نے نئی دہلی میں کردی۔ ویسے
آج کل ذرائع ابلاغ کے سبب دہلی اور لندن میں کوئی فرق نہیں رہا کیونکہ آج
کل دنیا ایک عالمی گاوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔موئترا نے لوک سبھا اسپیکر اوم
برلا پر حزب اختلاف کی زباں بندی کاسنگین الزام ٹویٹر پر لگایا اس لیے بیک
وقت وہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ مہوا کے مطابق ’’گزشتہ 3 دنوں میں اسپیکر
نے صرف بی جے پی کے وزراء کو مائیک پر بولنے کی اجازت دی اور پھر پارلیمنٹ
کو ملتوی کر دیا۔ اپوزیشن کے ایک بھی رکن کو بولنے نہیں دیا گیا۔ جمہوریت
پر حملہ ہو رہا ہے۔ مہوا نے یہاں تک کہا کہ وہ اس ٹوئٹ کی خاطر جیل جانے کے
لیے تیار ہیں۔‘‘ اب مودی سرکار کے لیے مسئلہ ہے کہ وہ کس کس کو جھٹلائیں
گےاور ان کی رکنیت کو منسوخ کروا کر انہیں جیل بھجوائیں گے۔ اس کے ساتھ
ایوانِ زیریں میں کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے بھی الزام لگایا
کہ ان کی میز پر موجود مائک پچھلے تین دنوں سے میوٹ (خاموش) ہے اور دعویٰ
کیا کہ یہ راہل گاندھی کے اس بیان کی ’مکمل تصدیق‘ کرتا ہے کہ ہندوستان میں
اپوزیشن ارکان کے مائیک اکثر خاموش کر دئے جاتے ہیں۔
ایوان بالا کی صورتحال مختلف نہیں تھی ۔ وہاں پر اسپیکر جگدیپ دھنکھڑ کی
آمد سے پہلے ہی ترنمول کانگریس کے اراکین منہ پر سیاہ پٹی باندھ کر ایوان
کے وسط میں آگئے۔ چیئرمین کے نشست سنبھالنے کے بعد ترنمول کانگریس کے ارکان
نے کہا کہ حکمراں بی جے پی کے ارکان اپوزیشن کو اپنی بات کہنے نہیں دے رہے
ہیں۔ اسی دوران عام آدمی پارٹی کے ارکان بھی ایوان کے بیچ میں آگئے اور
شور مچانا شروع کر دیا۔ ایسے میں حزب اقتدار بی جے پی کی ذمہ داری تھی کہ
وہ معاملہ رفع دفع کرکے ایوان کی کارروائی چلاتے مگر انہوں نے بھی موقع
غنیمت جان کراپنی نشستوں سے ایک ساتھ نعرے بازی شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر
کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں کے قریب کھڑے ہو
گئے اور اونچی آواز میں بولنے لگے۔ اس کے بعد چیئرمین نے ایوان کی کارروائی
کو ملتوی کرکے ملک میں جمہوریت کی چتا جلادی جس پر بی جے پی فی الحال ماتم
کناں ہے۔ ان کی تعزیت کرنے کے لیے ترنمول کانگریس کے لیڈر ڈیرک اوبرائن نے
سیاہ کرتہ، سیاہ پاجامہ پہن کر اور چہرے پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی تھی۔
سرکاری راجیہ سبھا ٹی وی ساری دنیا کےلیے یہ مناظر نشر کر کے ملک کا نام
روشن کررہا تھا ۔
یہ حسن اتفاق ہے بی جے پی والے اپنی زبان سے راہل گاندھی تردید مگر اپنے
عمل سے تائید کررہے ہیں اور قولی شہادت پر عملی ثبوت کو ہمیشہ ہی فوقیت
حاصل رہی ہے۔ اڈانی کی بدعنوانی اور راہل گاندھی کا لندن دورہ نے فی الحال
قومی سیاست میں بہت بڑا خلفشار پیدا کر رکھا ہیں۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن
پارٹیاں اڈانی-ہنڈن برگ کیس کی جے پی سی انکوائری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس
جائز اور معقول مطالبے کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی
لندن کے اندر راہل کےتبصروں کی آڑ میں ان سے معافی پر اصرار کر رہی ہے۔ بی
جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان کے ہنگامہ آرائی کی وجہ سے دونوں میں
پورا ہفتہ کوئی کام کاج نہیں ہو سکا۔ اپوزیشن ارکان جب اسپیکر کی کرسی کے
قریب آکر نعرے بازی کرتے ہیں تو جواب میں حکمراں جماعت کے ارکان بھی اپنی
جگہ پر کھڑے ہوکر راہل گاندھی کے خلاف نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں ۔ لوک
سبھا اسپیکر اوم برلا ایوان کو چلانے کے لیے تعاون کی دہائی دیتے ہیں۔ وہ
ہر ایک کو موقع دینا چاہتے ہیں لیکن بحث تو تبھی ہوسکتی ہے جب ایوان منظم
ہو ۔ برلا کے مطابق پارلیمنٹ کے وقار کو برقرار رکھنا سب کی ذمہ داری ہے
لیکن چونکہ کسی کو اس کی پڑی نہیں ہے اس لیے بار بار ایوان کی کارروائی
ملتوی ہوتی رہی۔
ایوانِ پارلیمان میں پہلے تو حزب اختلاف کے مائک بند ہوئے اور اس کے بعد بی
جے پی والوں کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے اپنی حکمت
عملی بدلی اور 17 سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے بڑی تعداد میں
پارلیمنٹ ہاؤس سے ای ڈی دفتر کے لیے مارچ نکالا۔ مودی سرکار کے لیے یہ
خطرے کی گھنٹی تھی اس امیت شاہ کی پولیس حرکت میں آگئی اور اس نے وجئے چوک
پر ان کو دفعہ 144 کا حوالہ دیتے ہوئے روک دیا۔ اب جس نعرے بازی کا ارمان
لے کر یا مشق کرکے مخالف جماعتوں کے ارکان آئے تھے انہوں نے وجئے چوک پر
اپنے ارمان نکالےاور جم کر نعرہ بازی کی۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کو
شکایت تھی کہ 200 اراکین پارلیمنٹ کو روکنے کے لیے 2000 پولیس والے کیوں
تعینات کیے گئے لیکن وہ نہیں جانتے کہ جب دل میں خوف جاگزیں ہوجائے تو ایک
کے مقابلے دس کا تناسب ہو تو تب دل نہیں مانتا۔ کھڑگے کے مطابق جلوس میں
شامل اراکین پارلیمان ای ڈی دفتر پہنچ کر ایک میمورینڈم دینا چاہتے تھے مگر
حکومت نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ مودی جی کواپنے رحم و کرم سے امیر کبیر
ہوجانے والوں کے خلاف ایک میمورنڈم تک برداشت نہیں ہے۔
یہ ارکان پارلیمان ای ڈی کی مدد سے یہ جاننا چاہتےتھے کہ اڈانی کو آخر
پیسے کون دے رہا ہے؟ سچائی تو یہ ہے چونکہ حزب اختلاف اڈانی اور مودی کے
درمیان رشتے کی جانچ کروانا چاہتا ہے اس لیے انہیں ای ڈی دفتر تک پہنچنے سے
روکا گیا۔ای ڈی دفتر کی جانب رواں دواں جلوس میں شامل ایوان بالا کے رکن
اور آر جے ڈی کے معمر رہنما پروفیسر منوج جھا نے نامہ نگاروں سے کہا کہ
’’بی جے پی کی یہ آمرانہ حکومت ہے۔تا ہم حزب اختلاف حکومت کو جھکا کر دم
لے گا۔انہوں نے عوام سے کہا ملک کو حکومت سے سوال پوچھنا چاہیے کہ ایوان کی
کارروائی کیوں بار بار ملتوی ہو رہی ہے؟ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے
پروفیسر جھا نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب اڈانی نام کا شخص جیل کے اندر
ہوگا۔ مودی جی کی سب سے بڑی پریشانی یہی ہے اڈانی جب بھی جیل جائے گا وہ
اکیلے نہیں ہوگا ۔ وہ اپنے ساتھ نہ جانے کتنوں کو لے ڈوبے گا اور کوئی اور
اس کے ساتھ ڈوبے نہ ڈوبے مودی جی ضرور ڈوبیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی
اڈانی کا ذکر آتا ہے وزیر اعظم بے چین ہوجاتے ہیں کیونکہ اڈانی نام کا
جہاز جب ڈوبتے ہوئے کہے گا ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم بھی لے ڈوبیں گے۔
|