سوال ۔ لودھی صاحب ان واقعات سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
آپ اور آپ کے خاندان کو ابتداء میں بہت سی مالی و معاشی مشکلات کا سامنا
رہا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہمیں وہ واقعات تفصیل سے بتاتے جائیں ۔ مجھے
یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ واقعات مشعل راہ ثابت
ہونگے؟
اسلم لودھی۔شہزاد صاحب ۔ آپ نے صحیح فرمایا معاشی مشکلات اور بے وسائلی نے
ہمیشہ ہمارے خاندان کو پریشان کیے رکھا ۔بہرکیف میں سمجھتا ہوں کہ قارئین
اگلی قسط میں جانے سے پہلے اس واقعے کی سنگینی کو پوری طرح سمجھ سکیں جس کا
ذکر میں پچھلی قسط میں کرچکا ہوں۔یعنی بھائی رمضان پررات کے دس بجے ایک
ڈاکونے اچانک حملہ کرکے ہفتہ وار تنخواہ کی رقم (جو دس پندرہ روپے ہوگی
)چھیننا چاہتا تھا لیکن ہاتھا پائی میں رقم تو بچ گئی لیکن اس سے زیادہ
قیمتی گرم چادر ڈاکو کے پاس چلی گئی ۔رات کے پچھلے پہر سردیوں کے موسم میں
والد صاحب ہاتھ میں لاٹھی لیے اس ڈاکو کی تلاش میں گھر سے جب باہر نکلے تو
والدہ نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں ۔ اگر وہ ڈاکو اسی جگہ مل گیا تو
ہم انہیں ایسا مزا چکھائیں گے کہ ان کی نسلیں بھی ڈاکہ مارنا بھول جائیں گی
۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد( محمد دلشاد خان لودھی) لاٹھی چلانے اور
گھومانے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے ۔کوئی پیچھے سے حملہ
آور نہ ہو تو میں آٹھ دس آدمیوں کا اکیلے مقابلہ کرسکتا ہوں ۔بلکہ اس کا
مظاہرہ والد صاحب واں رادھا رام ( حبیب آباد) میں عملی طور پر کر چکے تھے
۔جہاں جمال دین جو والد صاحب کا دوست ہی تھا لیکن مجھے نہیں معلوم ان دونوں
کے مابین کس بات پر اختلافات پیدا ہوگئے کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی
۔جب دونوں جانب سے لاٹھیاں چلنے لگیں تو والد صاحب کی لاٹھی جمال دین کے
بازو پرایسی لگی کہ اس کے بازو کی ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ گئی ۔ معاملہ پولیس
تک جا پہنچا تو پتوکی سے پولیس والدصاحب کو گرفتار کرنے کے لیے آگئی ۔ جس
زمانے میں کی یہ بات کررہا ہوں۔ اس وقت واں رادھارام میں ملک عاشق بہت بڑا
جاگیردارسمجھا جاتا تھا وہ کئی مربعے زرعی اراضی کا مالک تھا ۔ اس کا رعب
دبدبہ اتنا تھا کہ جب بھی پولیس کسی کرگرفتار کرنے کے لیے واں رادھا رام
آتی تو سب سے پہلے ملک عاشق کو حویلی میں پہنچ کران کو سارا معاملہ بتاتی ۔
اگر ملک عاشق گرفتار کرنے کی اجازت دے دیتا تو پولیس گرفتار کرکے پتوکی لے
جاتی ،اگر ملک عاشق گرفتار کرنے سے روک دیتا تو پولیس گرفتار کیے بغیر ہی
واپس چلی جاتی ۔حسن اتفاق سے میرے والد صاحب کرکٹ کے میدان میں ہیرو کا
درجہ رکھتے تھے ۔ ریلوے کیبن کے قریب ہی ایک کھلا میدان تھا جہاں شہر کے
نوجوان فرصت کے لمحات میں کرکٹ کھیلاکرتے تھے ۔ جو ٹیم ہارنے لگتی وہ کیبن
پر والدصاحب کے پاس پہنچ جاتی اور درخواست کرتی کہ آپ ہماری جانب سے کھیلیں
۔ والد صاحب ریلوے کی نیلی وردی پہنے ہی گراؤنڈ میں جا کر مخالف ٹیم کے
ایسے چھکے چھڑاتے کہ ہارنے والی ٹیم میچ جیت جاتی۔کرکٹ کا میچ دیکھنے والوں
میں پورے شہر کے لوگ موجود ہوتے ۔ ان میں ملک عاشق جو بہت بھاری بھرکم
انسان تھے ۔ وہ بھی کرکٹ کو انجوا ئے کرنے کے لیے اپنے نوکروں کے ساتھ
میدان کے باہر موجود ہوتے ۔جوٹیم جیت جاتی ۔ اس ٹیم کو ملک عاشق اپنی جانب
سے ٹرافی اور نقد انعام بھی دیا کرتے تھے ۔چونکہ ہر جیتنے والی ٹیم میں
والد صاحب کی نمایاں کارکردگی کا ہاتھ ہوتا۔ اس لیے پورا شہر میرے والد
صاحب کو استاد جی کے لقب سے پکارتا تھا ۔ بہرکیف جب پولیس والے ملک عاشق کے
پاس پہنچے تو انہوں نے پوچھا اب تم کس کو گرفتار کرنے آئے ہو ۔ پولیس والوں
نے بتایا ہم دلشاد خاں لودھی کو پکڑنے آئے ہیں کیونکہ اس نے لاٹھی مار کر
جمال دین کا بازو توڑ دیا ہے ۔
ملک عاشق نے جب والدصاحب کا نام سنا تو غصے سے لال پیلے ہوگئے اور حکم دیا
کہ میرے ہوتے ہوئے دلشاد خان لودھی کو کوئی گرفتار نہیں کرسکتا وہ تو ہمارے
شہر کا اعزاز اور فخر ہیں ۔ یہ سنتے ہی پولیس والوں کے چہرے لٹکے گئے اور
انہیں خالی ہاتھ کھائے پیئے بغیرہی واپس پتوکی جانا پڑا ۔
بہرحال والد صاحب کے روکنے کے باوجود ڈاکو کا حساب چکتا کرنے کے لیے والدہ
بھی لاٹھی پکڑ کر ان کے ساتھ چل پڑیں۔ وہ گلبرگ تھرڈ لاہور کا شیر پاؤ پل
عبور کرکے گنگا آئس فیکٹری پہنچے ۔رات کے پچھلے پہرہر جانب ہو کا عالم تھا۔
تمام لوگ سردیوں کے موسم میں گرم گرم بستروں میں سو رہے تھے جبکہ میرے
والدین اپنے دل میں جذبہ انتقام لیے اس ڈاکو کی تلاش میں سرگرداں تھے ۔گنگا
آئس فیکٹر ی ( یہ آبادی کا نام ہے ۔بہت پہلے یہاں ایک برف کا کارخانہ اور
تارکول کی فیکٹری ہوا کرتی تھی ، اسی مناسبت سے اس آبادی کو گنگا آئس فیکٹر
ی کہا جانے لگا ۔ اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گندہ نالہ بہتا ہے جس کے اوپر
اس وقت پل نہیں تھا بلکہ درمیان میں ایک اونچا سا پتھر رکھا ہو اتھا جس پر
پاؤں رکھ کر لوگ نالے کو عبور کر لیتے تھے ۔نالے کی دوسری جانب شورہ کوٹھی
( یہ بھی انسانی آبادی کا نام ہے ۔پاکستان بننے سے پہلے یہاں ایک بہت بڑی
قلمی شورہ کی فیکٹری ہوا کرتی تھی، وہ فیکٹری تو ختم ہوگئی لیکن اس نام سے
یہاں آبادی بن گئی ۔ اس آبادی کے مغرب میں گلبرگ کا فیکٹری ایریا واقع تھا
جس میں لونگ مین ، ہیکو آئس کریم ، کوکاکولا ، ایگل سائیکل ، سرتاج فیکٹر ی
، یونیورسل آپٹیکل اور سروس شوز کی فیکٹر یاں تھیں ۔ سروس فیکٹری کے سامنے
بنولہ فیکٹری تھی جہاں ایک دن پہلے رات کی شفٹ میں دیہاڑی دار کی حیثیت سے
میں ملازم ہوا تھا ۔
.................
رات کے اندھیرے میں گندہ نالہ عبور کرکے میرے والد اور والدہ گلبر گ فیکٹری
ایریاکے درمیان سے گزرنے والی سڑک پر پہنچ گئے ۔جس جگہ بھائی رمضان پر حملہ
ہوا تھا( آجکل وہاں مسجد ہے جو ڈان اخبار کے بالکل سامنے ہے۔ پہلے یہاں ڈان
کا دفتر نہیں تھا) میرے والد اور والدہ کافی دیر تک لاٹھیاں ہاتھ میں پکڑے
اسی اندھیرے میں اس خیال سے گھومتے رہے کہ شاید بھائی پر اچانک حملہ کرنے
والا پھر غلطی کرے۔ لیکن کافی دیر وہاں ٹھہرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو
والد اور والدہ دونوں سردیوں کی پچھلی رات خوف اور غصے کے عالم میں گلی
کوچوں میں گھومتے ہوئے گھر واپس پہنچے تو پچھلی رات کے دو بج چکے تھے ۔ یہ
واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ بنولہ فیکٹری بھی اس مقام سے زیادہ دور نہیں
تھی ۔جہاں مجھے رات کے آٹھ بجے پہنچنے کے لیے اسی راستے پر گزرتا پڑتا تھا
۔ صرف دو ہی راتیں میں بنولہ فیکٹری میں دیہاڑی لگانے میں کامیاب ہوا۔ اس
کے بعد حفظ ماتقدم کے طور پر والدین نے مجھے بنولہ فیکٹری جانے سے روک دیا
۔کیونکہ بھائی رمضان توپھر جوان تھے لیکن میری عمراس وقت سولہ سترہ سال تھی
اور اندھیرے سے ڈرنے والوں میں میرا شمار صف اول میں ہوتا تھا ۔
..............
جب بنولہ فیکٹری کی ملازمت ختم ہوئی تو والدہ نے عارف والا جانے کا پروگرام
بنا لیا ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ عارف والا میرے نانا ، نانی ، دو ماموں اور
دو خالائیں بھی رہتی تھیں۔ چونکہ ہم جب بھی اپنی والدہ کے ساتھ بذریعہ ٹرین
عارف والا جاتے تو نانی کے گھر میں ہماری اتنی آؤ بھگت ہوتی کہ وہاں سے
واپس آنے کو دل نہیں کرتا تھا ۔ عارف والا جانے کی ایک وجہ نانا نانی سمیت
تمام عزیزوں سے ملاقات تھی اور دوسری وجہ میرے چھوٹے ماموں محمد طفیل خاں
نیلی بار کاٹن ملز کے مینجرکے عہدے پر فائز تھے ۔ فیکٹری مالک کا ان پر
اتنا اعتماد تھا کہ کاٹن ملز کے حوالے سے تمام اختیارات میرے ماموں کے پاس
تھے ۔فیکٹری میں کام کرنے والوں کو بھرتی کرنا اور ان سے کام لینا ماموں
طفیل ہی کے ذمے تھا ۔ میری آمد سے پہلے میری خالہ اقبال بیگم کے بیٹے اختر
خان بھی ماموں کے توسط سے نیلی بار کاٹن ملز میں ملازم تھے ۔ والدہ نے مجھے
تو نہیں بتایا لیکن بعد میں پتہ لگا کہ ان کے ذہن میں ماموں کی فیکٹری میں
میری ملازمت کا خیال بھی تھا ۔ان کا خیال تھا کہ کہیں اور نوکری ملے یا نہ
ملے ۔ماموں کی فیکٹری میں ان کے بیٹے کو ( یعنی مجھے )مزدور کی حیثیت سے
نوکری ضرور مل جائے گی ۔یہ بھی بتاتا چلوں دیگر تمام رشتوں میں بہت ہی
معتبر اور محترم رشتہ میری نانی کا تھا جن بچوں نے اپنی زندگی میں نانانانی
کا پیار انجوائے کیا ہے۔ ان کے شفقت بھرے پیار سے لطف اٹھایا ہے وہ میری اس
بات کی گواہی دیں گے کہ ماں باپ کے عظیم رشتے کے بعد اگر کوئی رشتہ محترم
ٹھہرتا ہے تو وہ نانی کا ہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق میری نانی انتہائی
بردبار حلیم طبع اس بوڑھی عورت کا نام ہے جو ہمیشہ اپنی آنکھیں ، بیٹیوں
اور نواسے نواسیوں کی راہ میں بچھائے رکھتی ہیں ۔اپنی بیٹی کے سکھ چین کے
لیے داماد کی کڑوی کسلی باتیں بھی مسکراتے ہوئے برداشت کرلیتی ہیں ۔
حسن اتفاق سے میری والدہ اور والد دونوں ایک دوسرے کے خالہ زاد تھے اور ان
کا بچپن بھی فرید کوٹ میں اکٹھا ہی گزرا تھا جہاں میری والدہ کے دادا دادی
،والدین اور چچا چچی سمیت کتنے ہی رشتے دار ایک مشترکہ حویلی میں قیام پذیر
تھے ۔یہ کشادہ مکان ،حویلی نواب خاں کے نام سے مشہور تھا ۔ اس حویلی میں
میری والدہ کے دادا نواب خاں ان کے بڑے بیٹے سردار خاں اور بہار خان بھی
اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔میری والدہ کے چچا بہارخان
ریاست فرید کوٹ کے مہاراجہ کی فوج کے کمانڈر انچیف تھے جبکہ ان کے بڑے
بھائی اور میرے سگے نانا سردار خاں ریاست فرید کوٹ کی جیل کے جیلر تھے ۔
میری والدہ اکثر اپنے والد اور چچا کے قصے ہمیں سنایا کرتی تھی کہ جب ریاست
فرید کوٹ کی فوج اپنے کمانڈر بہار خان کی کمانڈ میں پریڈ کرتی تھی تو وہ
دیکھنے والا منظر ہوا کرتا تھا ۔ ریاست کا مہاراجہ میری والدہ کے چچا بہار
خان کے بغیر کھانا نہیں کھاتا تھا ۔ جب مہاراجہ کے محل میں کھانا آراستہ ہو
جاتا تو مہاراجہ اپنی فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے
۔والدہ بتایا کرتی تھی کہ ایک مرتبہ ریاستی جیل سے چند قیدی بھاگ گئے جس پر
مہاراجہ کو بہت غصہ آیا مہاراجہ نے حکم دیا اگر تین دن تک قیدی نہ پکڑے گئے
تو سردار خاں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا جائے گا ۔مہاراجہ کے بقو ل
انہی کی غفلت کی وجہ سے قیدی جیل سے بھاگے تھے ۔ جیسے یہ خبر حویلی نواب
خاں پہنچی تو پورے خاندان میں صف ماتم بچھ گئی ۔ سردار خاں کے چھوٹے بھائی
بہار خان نے مہاراجہ کو یقین دلایا مجھے قیدی پکڑنے کی اجازت دی جائے ۔ جب
اجازت مل گئی تو بہار خاں فوج کے ایک دستے کو اپنے ہمراہ لے کر پہلے فرید
کوٹ شہر پھر نواحی علاقوں میں پہنچ گئے اور جہاں جہاں وہ قیدی چھپ سکتے تھے
،ان تمام مقامات کا خود جائزہ لیا لیکن قیدیوں کا کہیں نام ونشان نہ تھا ۔
تیسرے دن جب شام ہونے والی تھی تو خاندان کے تمام افراد کی رگوں میں دوڑتا
ہوا خون جمنے لگا ۔آنکھوں سے آنسووں کی برسات شروع ہوگئی ۔حویلی میں سبھی
افراد جمع ہوکر آیت کریمہ پڑھ رہے تھے ۔دوسری جانب بہار خان اپنے محافظوں
کے ساتھ ناکام واپس آرہے تھے کہ راستے میں وہ قیدی کسی اوٹ میں چھپے ہوئے
دکھائی دیئے ۔ یہ دیکھتے ہی بہار خاں نے ان پر یلغار کر کے انہیں دبوچ
لیااور تمام قیدیوں گرفتار کرکے مہاراجہ کی عدالت میں پیش کرکے اپنے بڑے
بھائی کی جان بخشی کروائی ۔ سردار خاں ہی میرے نانا بنے ۔ جو قیام پاکستان
کے بعد ریاست فرید کوٹ سے ہجرت کرکے عارف والا شہرمیں آبسے اور یہاں کی
سبزی اور پھل منڈی میں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی ۔
|