گزشتہ روزبانی پاکستان قائداعظم
محمدعلی جناح کا یوم وفات بڑے احترام سے منایاگیا حسب معمول اس دن
قائدِاعظم کی لازوال جدوجہدکوخراجِ تحسین پیش کیا گیا،ان کے نظریات
کوکامیابی و ترقی کی کنجی قراردیاگیا،ان کی یادگار تصاویرکی نمائش کا بھی
بندوبست کیا گیا۔
ان کی وہ یادگار تقریر بھی دیکھی اور دکھائی گئی ہوں گی جن میں قائداعظم نے
قوم کو اتحاد اور تنظیم کادرس دیاتھااور یقیناََاس موقع پر ہم نے قائد کے
اس سنہری قول کام ،کام اور صرف کام کو بھی یاد کیا ہوگا ۔یوں 11ستمبر
اختتام پزیر ہوگیا اور قائد،اعظم کا 63واں یوم وفات ماضی کا حصہ بن گیالیکن
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے رسمی بیانات جو ہم نے ہر قومی دن کے موقع
کیلئے رٹ کررکھے ہوتے ہیں کیا ہمارے کسی بھی حکمران نے اس سے آگے بڑھنے اور
ان نظریات وقوائد کواپنانے کی کوشش بھی کی جس کا ڈھنڈورہ وہ ساراسال اور
خصوصاََ11ستمبراور دوسرے قومی تہواروں پر پیٹتے ہیں یقیناََ اس کا جواب نہ
میں ہی آتا ہے مثلاََآپ قائد کے مذکورہ بالاان دو فرمانوں کوہی دیکھیں کہ
اس کی کس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اوراڑائی جارہی ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب
عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان یہودونصاریٰ کے اولین ٹارگٹ پہ ہے
دشمن نے سندھ و بلوچستان کو توڑنے کے نہ صرف منصوبے بنا رکھے ہیں بلکہ ان
کے نقشے تک جاری کردئیے گئے ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان میں
بدامنی پیداکرکے مملکتِ خدا دادکو ناکام ریاست ثابت کرنے اور اس کے ایٹمی
اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں ایسے میں ہوناتویہ چاہئے
تھا کہ تمام سیاستدان سیاسی شعوروپختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف خود
سیاست بازی کا بازار گرم کرنے کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے بلکہ قوم
کو بھی ان مسائل سے نپٹنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرتے جب کہ اصل صورتحال
یہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندے جنہیں عوام نے ووٹ
کے ذریعے ملک و قوم کی سلامتی کا نگہبان بنایا ہے وہی ایک دوسرے پر ملک کو
توڑنے کی سازشوں کے الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں گویاہم جس ٹہنی پر
بیٹھے ہیں اسی کو ہی کاٹنے میں مصروف ہیں ۔اسی طرح قائد کے دوسرے عظیم قول
جو کہ دراصل کسی بھی قوم کی کامیابی کی ضمانت ہوسکتا ہے یعنی دیانت داری سے
کام ۔ ہم نے اس کو بھی بری طرح نظرانداز کردیا ہے جس کااندازہ ہمیں فقط قوم
کودرپیش صرف دومسائل پرنظرڈالنے سے ہی ہوجاتا ہے جوتھوڑی سی توجہ دینے سے
حل ہوسکتے ہیں لیکن بوجوہ اس پرتوجہ نہیں دی گئی مثلاََآپ توانائی کے بحران
کو دیکھیں جس نے نہ صرف پوری پاکستانی قوم کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے
بلکہ ہماری معیشت کا بھی بیڑا غرق کردیا ہے اور یہ صورتحال ہمیں ایک ایسے
ملک میں نظر آرہی ہے جو دنیابھر میں کوئلے کا پانچواں بڑاذخیرہ رکھتا ہے جس
کے صرف 10%کواستعمال میں لاکربجلی و گیس کے بحران سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل
کرسکتے ہیں لیکن آج تک کسی بھی حکمران نے اس بنیادی عوامی ضرورت کو مستقل
بنیادوں پر حل کرنے کی سعی نہیں کی ۔آپ دیکھیں کہ پاکستان آئے روزچینی ،چاول
،گندم اور گھی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کے بحرانوںمیں مبتلا نظر آتاہے
حالانکہ پاکستان کا 70%رقبہ زرعی کاشت کیلئے آئیڈیل ہے اگرہم بہتر منصوبہ
بندی اورذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قومی خدمت کی دیانتدارانہ سوچ
کو پروان چڑھالیں تواس سے نہ صرف ہم خودان بحرانوں سے نکل جائیں گے بلکہ اس
سے کثیر زرِمبادلہ بھی کما سکیں گے۔ |