تاج المساجد ، بھوپال

سنہ 629 ؁ٗ؁ ء میں عرب سے کچھ مسلمان تجارت و تبلیغ کے سلسلہ میں بھارت میں کیرالہ کے علاقے میں آئے تھے۔اُس وقت وہاں کے برہمن راجہ ’چیرامن پیرومل‘ تھے۔راجہ کی اجازت سے ان کے ذریعہ دی گئی زمین پر بھارت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ یہ مسجد کیرالہ کے ضلع تھریسور میں واقع ہے۔یہاں پہلی مسجد ہی نہیں بنی بلکہ راجہ ’چیرامن پیرومل‘ پہلے شخص بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔

ایک قدیم مسجد گجرات میں بھی ہے جسے ’چیرا من جمعہ مسجد‘ سے پہلے کی بتائی جاتی ہے۔اس کی کوئی تاریخ نہیں مل سکی ہے۔لیکن مسجد خود بتا رہی ہے کہ وہ اُس وقت بنی تھی جب مسلمان بیت المقدس کو قبلہ مان کراس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔یہ سلسلہ اسلام کی ابتداسے ۱۳؍ سال یعنی610سے 623تک جاری رہااس کے بعد اﷲ کے حکم سے قبلہ کعبہ کو بنایا گیا اور رہتی دنیا تک انشاء اﷲ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

تاج المساجد :
یہ تھا بھارت کی دو قدیم مساجد کا ذکراب بھارت کی سب سے بڑی مسجدکا ذکر پیش ہے جو بھوپال کی ’تاج المساجد ‘ کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔یہ مسجد بھارت کی تو سب سے بڑی ہے ہی ساتھ ہی ایشیا کی بڑی مسجدوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس کا اندرونی رقبہ 23,000 مربع میٹر یعنی 250,000 مربع فٹ ہے۔یہ مسجد دہلی کی جامع مسجد سے بھی بڑی ہے۔

’’ تاج المساجد کا سنگ بنیاد ریاست کی تیسری خاتون فرمانروا خلد مکانی نواب شاہ جہاں بیگم نے 1887؁ئمیں رکھا تھا۔ شاہ جہاں بیگم بھوپال کی وہ خاتون حکمراں تھیں جنہیں اپنے ہم نام مغل بادشاہ شاہ جہاں کی طرح عمارت سازی کا بڑا شوق تھا، بھوپال میں ان کے اس تعمیری ذوق کا ثبوت تاج محل، عالی منزل، بے نظیر، گلشن عالم جیسی منفرد عمارتیں ہیں اور ان میں سب سے اہم تاج المساجد ہے، جس کی تعمیر کے لیے بیگم صاحبہ نے اپنے خزانہ کا منہ کھول دیا تھا،اس میں استعمال کی لیے آگرہ کا پتھر بھوپال لایا گیا تھا، متھرا اور جے پور کے کاریگر مامور ہوئے ، ستون اور جنگلوں پر نہایت خوبصورت نقاشی کی گئی،دالان کے کتبے سنگ موسیٰ سے پچیکاری کر کے تیار ہوئے،بلوری فرش انگلینڈسے منگوایا گیا، مسجد کو زینت بخشنے کے لیے جھاڑ و فانوس اور شیشے کا دوسرا سامان بیلجیم کی ایک معروف کمپنی سے بیش قیمت رقمیں صرف کر کے تیار کرایا گیا، مسجد کا نقشہ لاہور کی شاہی جامع مسجد کو سامنے رکھ کر جزوی تبدیلی کے ساتھ مرتب ہوا اور اس عظیم الشان تعمیری منصوبہ پر عمل کا رنگ بھرنے کے لیے خوش بختی سے اﷲ دلائے نام کا مشہور اور اپنے دور کا تجربہ کار ماہر تعیر میسر آگیا، جس طرح آگرہ کے تاج محل کی تعمیر کے لیے شیراز نامی ماہر تعیرات شاہجہاں کو مل گیا تھااسی طرح بیگم شاہجہاں کے عہدکے بھوپال کے تمام محلات و مساجد پر اﷲ دلائے کے دست شہ کار آفریں کا اثر نظر آتا ہے۔ پندرہ سال تک جاری رہنے والی تعمیر سے مسجد کی دونوں مینار نصف کے قریب، اس کی چھت و محرابیں، جنوبی و مشرقی دالان، شمالی دالان کے صرف ستون اور مشرقی و مغربی برجیاں ہی تعمیر ہو پائی تھیں کہ بیسوی صدی کے آتے آتے1901میں شاہجہاں بیگم کی وفات ہو گئی اور وہ مسجد کو مکمل کرنے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انہوں نے تاج المساجد کے لیے بلور کے مصلے،کلس، فوارے اور زنانہ حصے کے لیے بلوری فرنیچر منگوایا تھاجو سب کرسٹل کٹ تھا، بیگم صاحبہ کی یہ آرزو تھی کہ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر رسم افتتاح کی تقریب منعقد ہو تو تعمیر ی کام انجام دینے والے سارے عملے کاریگر ومزدور کو دو دو ماہ کی اجرت نقدی کی صورت میں اور اتنی ہی قیمت کے جوڑے بیڑے تقسیم کیے جائیں اور اس کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اطلس، کمخواب اور مشروع کے تھان خریدکر توشہ خانے میں جمع کر لیے گئے تھے۔ لیکن بیگم صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی مسجد کا کام رک گیا ۔ اس کے خارجی میدان میں پڑے ہوئے تراشیدہ پتھر، منتظر رہے کہ مسجد کی تعمیر میں ان کا استعمال ہو۔

اہل نظر اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ نواب صدیق حسن خاں کی حوصلہ مند بیگم نواب شاہجہاں صاحبہ کی زندگی وفا کرتی اور ان کی حیات میں تاج المساجد مکمل ہو جاتی تومغل شہنشاہ شاہ جہاں کے بنوائے ہوئے ’تاج محل‘ کی طرح اس مسجد کا شمار عجائبات میں نہ سہی فن تعمیر کے جلال و جمال کے نقش حسیں میں ضرور ہوتا لیکن پچاس برس تک یہ ادھوری مسجد جو عبادت الٰہی سے آباد ہونے والی تھی، جہاں اﷲ اکبر، قال اﷲ اور قال رسول کی صدائیں گونجنے والی تھیں، وہیں مسجد ویرانی کا شکار ہو کر نا پسندیدہ عناصر کی پناہ گاہ بنی رہی۔ شاہجہاں بیگم کی بیٹی نواب سلطان جہاں چونکہ اپنی والدہ سے ناراض تھیں، لہذا انہوں نے ماں کے اس ادھورے کام کو مکمل نہ کیا، ان کے بیٹے نواب حمید اﷲ خاں کی ہمت بھی جواب دے گئی اور وہ بھی اپنی نانی کے اس زبردست منصوبے کو تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ پورے پچاس سال بعد1950میں یہ کام جو بادشاہوں نے شروع کیا تھا لیکن ان کے وارث مسجد کو مکمل کرنے سے قاصر رہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریا بادی ایک بوریہ نشیں، علماء کی صف کے صاحب عزم و ہمت فرد فرید کی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ اس کام کو پورا کریں لہذا خاندان مجددیہ کے چشم و چراغ اور رشد و ہدایت کے مینار حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددیؒ نے اپنے لائق مرید مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کو ہدایت کی کہ وہ مسجد کی تعمیر کا کام از سر نو شروع کریں اورمولانا محض اﷲ کے بھروسے ندۃالعلماء جیسی اہم دینی درس گاہ کے اہتمام کی ذمہ داری چھوڑ کر اپنے مخلص رفقاء کو ساتھ لیکر تاج المساجد کی تعمیر میں مصروف ہو گئے۔تائید غیبی اور نصرت خداوندی نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ اس ویران مسجد میں نہ صرف دارالعلوم تاج المساجد کی بنیاد پڑ گئی بلکہ تعمیر مسجد کا کام بھی شروع ہو گیا۔ اس وقت علامہ سید سلیمان ندوی ریاست بھوپال کے قاضی القضاۃ تھے، آپ کی ہمت افضائی نے بھی شاگرد کے حوصلوں کو جلا بخشی، مولانا عمران نے مسجد کی تعمیر اور دار العلوم کی تنظیم میں اپنی ساری صلاحیتیں جھونک دیں۔ ملک اور دنیا کی سرحدوں کے فاصلے ان کی ہمت کے آگے سمٹ گئے، سفیروں کو بھیج کر مسلمانان عالم کو مسجد کی تعمیر میں شریک کیا یہاں تک کہ ۱۹۸۴ میں اصحاب خٰیر کے تعاون سے مسجد تکمیل کو پہونچی ، چھتیس سال کی شب روز محنت ، ہزاروں کاری گروں و مزدوروں کی مشقت، لاکھوں بندگان خدا کے مالی تعاون اور ہزاروں اہل اﷲ کی دعاؤ کے طفیل میں دو کروڑ کے سرمایہ سے قدیم و جدید فن تعمیر کو یہ پروجکٹ مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر میں جہاں مساجد کے تمام روایتیں خط و خال کا لحاظ رکھا گیا وہیں اس کی ہئیت کو دل کش بنانے کی بھی پوری کوشش کی گئی۔ مسجد د کے مرکزی ہال یعنی جماعت خانے کا رقبہ تقریباً ۲۴ ہزار مربع فٹ، ہر مینار کی بلندی ۲۰۶فٹ اور قطر ۲۸ فٹ گنبد ۴۰ فٹ پر محیط ہیں۔مسجد کے شمال و جنوب میں پتھروں کی خوبصورتی جالیوں سے آراستہ پردہ نشین خواتین کے لیے دو علاحدہ حصے بھی تعمیر کیے گئے ہیں جو سنگ تراشی کا شاہکار کہے جا سکتے ہیں۔ مسجد کی شہرت اور عظمت کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں یہاں ۵۴ سال تک منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماع کا بھی اہم حصہ ہے ۔ جس میں ہر سال ہند اور بیرون ہند سے لاکھوں بندگان خدا شرکت کرتے تھے، بحیثیت مجموعی تاج المساجد آج ایشیا کی مایہ ناز مسجد ہی نہیں اپنے بانی اور معمار کے حوصلے نیز فن تعمیر کے شاہکار کا درجہ بھی رکھتی ہے ، اگر مسجد اس کے معمار اول کے حوصلہ کے مطابق مکمل ہو جاتی تو یقینا دنیا میں اپنی مثال آپ ہوتی۔ ‘‘

تاج المساجد ایک نظر میں:
٭ اس مسجد کی تعمیر 1877 میں بھوپال کی تیسری خاتون فرمانروا نواب شاہجہاں بیگم نے شروع کی تھی۔ مسجد کی تعمیر کا کام 1901تک جاری رہا۔اس سال جب نواب شاہ جہاں بیگم کا انتقال ہوا تو ا س کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام رک گیا۔آزادی کے بعد ممتاز عالم دین مولانا محمد عمران نے تاج المساجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا اور ان کی مساعی جمیلہ(نیک کوششوں)سے یہ پُر شکوہ مسجد مکمل ہو سکی۔
٭ تاج المساجد فن تعمیر کا شاہکار شمار کی جاتی ہے۔پوری مسجد شرخ پتھر سے تعمیر ہوئی ہے، لیکن نواب شاہجہاں بیگم نے اس تاریخی مسجد کو سفید سنگ مر مر سے تعمیر کرنے کا خواب دیکھا تھا۔مسجد کی تعمیر کے لیے پتھر بھی بیلجئیم سے منگوا لیے تھے لین یہ پتھر اتنے شفاف اور مثل آئینہ تھے کہ ا س میں انسان کا عکس نظر آتا تھاجس پر علما نے نماز پڑھنا جائز نہیں بتایااس لیے ان پتھروں کو ہٹوا دیا گیااور سنگ سرخ سے مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔
٭ بیلجئیم سے منگائے گئے وہ تمام پتھرتاج المساجد کی مولانا سلیمان ندوی لائبریری میں موجود ہیں۔
٭ مسجد ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کی گئی ہے۔
٭ مسجد کے خاص دروازے کی بلندی74فٹ ہے، اس کے اندرونی شمالی حصہ میں زنان خانہ ہے، جہاں پر پردہ نشیں خواتین آکر نماز پڑھتی ہیں۔
٭ مسجد میں دو حوض کے ساتھ اندر داخل ہونے کے لیے نو دروازے ہیں۔
٭ بھوپال کے عالمی تبلیغی اجتماع کا انعقاد 2001تک اسی مسجد میں ہوتا تھا، جب عالمی تبلیغی اجتماع میں ملک و بیرون ملک سے آنے والی جماعتوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی اور تاج المساجد نے اپنی تنگ دامنی کی شکایت کی، تو عالمی تبلیقی اجتماع کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
٭ تاج المساجد میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے، جہاں پر ہزاروں تشنگان علم یہاں سے دینی اور عصری علوم سے آراستہ ہو کر ملک و بیرون ملک میں علم کی شمع روشن کر رہے ہیں۔
 

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 4 Articles with 2983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.