الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بر عکس
30اپریل کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات ملتوی کرتے ہو ئے 8اکتوبر 2023 کو
کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسا حکومت کے ایماء پر ہوا ہے
کیونکہ موجودہ حکومت ملک میں انتخابات کرانے کے لئے ہر گز راضی نہیں ۔ نون
لیگ ایک بڑے مخصمے میں پھنس چکی ہے ،اسے یقین ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں
وہ انتخابات میں بری طرح شکست کھائے گی ۔ البتہ نون لیگ کو روشنی کی ایک
کرن جو نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ کسی طرح عمران خان سے جان چھڑائی جائے اور
نواز شریف کو تمام مقدمات سے دھلا کر میدان میں اتارا جائے ،یوں شاید من کی
مراد پوری ہو جائے۔ جے یو آئی (ف) کو پھر بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان
میں اپنی سابقہ پوزیشن برقرار کھنے کی امید ہے اور پیپلز پارٹی سندھ میں
اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی توقع رکھتی ہے مگر مشکل درپیش ہے تو وہ نون لیگ
کو ہے کیونکہ اس قت جو مہنگائی ہے اور ملک کو جو ریورس گیئر لگا ہوا ہے اس
کی تمام تر ذمہ داری نون لیگ کے کندھوں پر ہے اور یہ بوجھ انتخابات میں ان
کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے لئے کافی ہے ۔اگر چہ نون لیگ ایڑی چوٹی کا زور لگا
رہی ہے کہ کسی طرح عمران خان کے بیا نیہ کو کمزور کرکے اپنے ووٹ بنک کو
بحال کیا جائے مگر ان کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی ہے ۔ مریم اورنگزیب ہو یا
مریم نواز ، دونوں کی زبانیں عمران خان کے خلاف آگ اگل رہی ہیں مگر نتیجہ
ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا ہے ۔ معیشت کو سنبھالنے کے لئے نون لیگ
نے مفتاح اسمعیل کو ہٹا کر اسحق ڈار کو میدان میں اتارا مگر نتیجہ صفر رہا
بلکہ مزید گھمبیر ہو گیا ۔ حکومت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دھڑا
دھڑ مقدمات بنا رہی ہے مگر امید واثق ہے کہ یہ چال بھی الٹی چال چل جائے گی
۔ نون لیگ اس وقت اندھیرے میں ٹومک ٹوئیاں مار رہی ہے ۔اس لئے وہ اس وقت
سوچ رہی ہے کہ اگر وہ سوچے گئے دو منصوبوں میں کامیاب ہو جائے تو بگڑی صورتِ
حال کو درست کیا جا سکتا ہے ۔ اول یہ کہ اسٹیبلیشمنٹ کو عمران خان کے خلاف
اتنا اکسایا جائے کہ وہ عمران خان سے متنفر ہو اور نون لیگ کا ساتھ دے ۔
دوم یہ کہ کسی طرح عمران خان کو انتخابات سے دور رکھا جائے ۔ پہلے منصوبہ
میں شاید وہ کامیاب بھی ہو جائے مگر دوسرے منصوبہ میں ان کی کامیابی محال
نظر آتی ہے ۔ کیونکہ کوئی مانے یا نہ مانے ،عمران خان اس وقت ملک میں مقبول
ترین لیڈر ہیں اور وہ ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کو لیڈ کر رہے ہیں ۔ لہذا ان
کو سکرین سے ہٹانا ممکن نہیں البتہ عمران خان خان جو عموما ریاستِ مدینہ کی
بات کرتے ہیں،ان کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ صلح حدیبیہ کے وقت
سرورِ کائنات سردارِ دو عالم ؐ نے کیا حکمتِ عملی اختیار کی تھی ؟ اس وقت
جب مشرکین کے مقابلہ میں مسلمان کمزور تھے تو انہوں نے مشرکین کے وہ شرائط
بھی قبول کئے جو بظاہر قابلِ قبول نہیں تھے ۔ گویا طاقت ور کے سامنے مصلحت
کے تحت زور آزمائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ پاکستان میں ہر کوئی جانتا
ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ ایک ایسی طاقت ہے جس کی مخالفت دیوار سے سر ٹکرانے کے
مترادف ہے ۔ میرے خیال میں ان کو اس بے وقوفی سے باز آنا چاہئیے ۔
عمران خان اپنے دورِ حکومت میں سوائے چند ایک بہتر اقدامات کے عمومی طور پر
عوام کے توقعات پرپورے نہیں اترے تھے مگر موجودہ حکومت نے عوام کی جو درگت
بنائی ہے وہ اب عمران خان کو بھول چکے ہیں اور موجودہ حکومت کے لگائے گئے
زخموں کو چاٹ رہے ہیں ۔ اس لئے جمہوری طریقے سے پی ٹی آئی کو شکست دینا
شاید ممکن نہ ہو ، انتخابات سے فرار نون لیگ کے لئے مفید بننے کی بجائے
نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اب عوام کے سیاسی شعور میں کافی اضافہ ہوا
ہے اور وہ ان چالوں کو خوب سمجھتی ہے ۔ عدلیہ کے ساتھ موجودہ حکومت جو کھیل
کھیل رہی ہے، عوام اس کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہی ہے ۔ آئین کے
ساتھ جو کھلواڑ کھیلا جا رہا ہے ، عوام اس سے بھی با خبر ہے ۔ لہذا موجودہ
حکومت سے میری گزارش ہے کہ وہ فاؤل نہ کھیلے، سیاسی کھیل کو سیاست کے
اصولوں کے مطابق کھیلے ۔ اپنی پارٹی یا ذات سے ملک کے مفاد کو مقّدم رکھے ،مشہور
قول ہے کہ نیّت صاف منزل آسان ، اپنی نیّت کو صاف رکھے ، پھر اﷲ تعالیٰ کی
مدد اور بہتری کی امید رکھے ورنہ مثل مشہور ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر
منائی گی ؟ |