مہاراشٹر کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی سازش

فسطائیت کی گاڑی خوف اور نفرت کے دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اپنے لوگوں کے دل میں اس لیے عدم تحفظ کا خوف پیدا کیا جاتا ہے تاکہ وہ زعفرانیوں کی پناہ میں عافیت سمجھیں۔ مسلمانوں کو’قوم دشمن ‘ قرار دے کر ان کے تئیں نفرت کوپروان چڑھایا جاتا ہے۔ اندھ بھگت عوام کو ورغلانے کے لیے ان جلسوں میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ مسلم نوجوان ایک سازش کے تحت ہندولڑکیوں کوبہلا پھسلا کر ان سے شادی کرتے ہیں تاکہ ان کا مذہب تبدیل کرکے مسلمان بنایا جاسکے۔لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں رام مندر کی تحریک خود بی جے پی نے اپنے بینر تلے چلائی تھی لیکن اس بار ہندوتوا نواز تنظیموں کے ایک دفاق سکل ہندو سماج کے تحت یہ اہتمام ہوتا مگر مقامی بی جے پی ارکان اسمبلی و پارلیمان وہاں حاضری لگا کر اپنے آشیرواد سے نوازتے ہیں۔ اشتعال انگیزی کا کام اے ٹی راجاسنگھ، کالی چرن مہاراج اور کاجل جیسے منہ زور لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔بی جے پی کے رہنما ان جرائم پیشہ بدمعاشوں کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس سے انہیں بدکلامی اور زہر افشانی کی چھوٹ مل جاتی ہے۔

مہاراشٹر میں نفرت انگیزی کی خاطر’ہندو سکل سماج‘ یعنی پورا ہندو معاشرہ نامی ایک تنظیم بنائی گئی۔ اس کے زیر اہتمام ہندوتوا نواز وں مہاراشٹر بھر میں ریلیاں نکالنے کا مذموم سلسلہ شروع کردیا گیا ۔پچھلے پانچ ماہ کے اندر ریاست کے تمام36؍ اضلاع میں ’ہندو جن آکروش مورچہ‘ کے تحت کم از کم50؍ ریلیاں نکالی جا چکی ہیں یعنی کچھ اضلاع میں ایک سے زائد ریلی کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ان ریلیوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کی خاطر نہ صرف شہر کے مرکزی مقام پر جلسہ کیا جاتا ہے بلکہ اس سے قبل ایک جلوس بھی نکال کر ان لوگوں تک جو اجتماع میں شرکت نہیں کرتے نفرت کے جراثیم پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ جلوس میں بھگوا پرچم تھامے اور ٹوپی پہنے شرکاء مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔ یہ جلوس جب ایک جلسہ میں بدلتا ہے تو وہاں مقامی وہ بیرونی مقررین ’لو جہاد‘ ، ’لینڈ جہاد‘ اور تبدیلی مذہب جیسے موضوعات پر خطاب کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے کئی کھلے عام مسلمانوں کے معاشی مقاطعہ کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔

ٹی راجاسنگھ اور کا لی چرن مہاراج پر مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں میں منافرت پھیلانے کے کئی مقدمات درج ہیں لیکن پولیس ان سرکاری دامادوں کو گرفتار کرنےجرأت نہیں کرتی۔ ٹی راجا سنگھ کو اسلام اور نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ تبصروں کی پاداش میں بی جے پی نے پچھلے سال اگست کے اندر معطل کر دیا تھا لیکن مہاراشٹر کی جن آکروش ریلیوں میں وہ روشن ستارہ ہے۔ کالی چرن مہاراج نے دسمبر2021 میں رائے پور کی دھرم سنسد میں مسلمانوں پر تنقید کے بعد ناتھو رام گوڈسے کی تعریف کردی تھی ۔ اس کے بعد جب اسے چھتیس گڑھ سے گرفتار کرکے اکولہ لایا گیا تو وہ کئی جرائم میں ملوث پایا گیا۔ اس بھان متی کے کنبے میں ایک نام کاجل ہندوستانی، عرف کاجل شنگلا کا ہے۔ اس کو سادھوی رتھمبرا اور پرگیہ ٹھاکر کے سلسلے کی اگلی کڑی کہا جاسکتا ہے۔ رتھمبرا فی الحال اترپردیش میں ایک بہت بڑے آشرم کی مالکن بن کر عیش کررہی ہے اور پرگیہ رکن پارلیمان ہے۔ ان سے ترغیب لے کر گجرات کی رہنے والی کاجل مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی دہائی دیتی ہے تاکہ بی جے پی والے اس کی بدمعاشی سے خوش ہوکر انعام و اکرام سے نوازیں ۔اپنے اس غلیظ مقصد میں اسے کتنی کامیابی ملے گی کوئی نہیں جانتا لیکن اس کی شر انگیزی سے سماج کا یقیناً بہت نقصان ہورہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوجن آکروش ریلی میں پھیلائی جانے والی نفرت کا معاملہ ملک کی عدالت عظمیٰ تک بھی پہنچاتھا کیونکہ ’سکل ہندو سماج‘ کے زیراہتمام ہندو جن آکروش مورچہ کے بینر تلے ہوئی ایک ریلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے معطل شدہ رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ نے مسلمانوں کو قتل کرنے پر لوگوں کو ابھارا تھا۔ اس کے بعد چونکہ 29 جنوری کوپھر سے ممبئی شہر میں ہندو جن آکروش مورچہ کے اجلاس ہونے والا تھا اس لیےدرخواست میں عدالت سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کی درخواست کی گئی تھی کہ ایسی واردات دوہرائی نہ جائے۔دورانِ سماعت کپل سبل نے قابل دست اندازی جرم کو روکنے کے لیے پولیس کو سی آر پی سی کی دفعہ151 لگانے اور گرفتاریوں کا اختیار استعمال کرنے کی صلاح دی تھی۔ان کے مطالبے پربنچ نے پولیس کو پروگرام کی ویڈیو گرافی کرکے رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکار کی جانب سے سالیسٹر جنرل مہتا نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کیرالہ کا رہنے والا ہےمگرمہاراشٹر میں ایک مجوزہ پروگرام کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہا ہے۔انہوں نے پوچھا کیا اس عدالت کو ایسی اتھارٹی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو پروگرام منعقد کرنے کی اجازت دے؟

سرکاری وکیل نے اس شر انگیزی کی حمایت میں دلیل دی کہ پروگرام کو روکنے کی گزارش کرنا خطابات کے پہلے ہی سینسر شپ لگانے جیساہے۔ان کا کہنا تھا کہ دفعہ 151 کو لاگو کرنا نہ صرف بولنے سے پہلے روکنا بلکہ گرفتاری کے مترادف ہے۔انہوں نے نفرت انگیزی کو جاری رکھنے کی راہ صاف کرتے ہوئے کہاکہ ‘پہلے سے ہی سوچنا کہ کہ تقریر مناسب نہیں ہوگی درست نہیں ہے ‘۔ مہتا بڑی مشکل سے پرجوش لوگوں کی ویڈیو گرافی پر راضی ہوئے۔ اس رویہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح موجودہ سرکار نفرت کی آگ پر سیاسی روٹیاں سینکنے کے لیے یہ کاروبار جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے جواب میں کپل سبل نے 29 جنوری کے پروگرام میں مقررین کی اشتعال انگیزی کا حوالہ دیا جس میں حکمراں پارٹی کے ایک رکن پارلیمان سمیت دیگر شرکاء نے قابل اعتراض تقریریں کی تھیں ۔ان دلائل سے متاثر ہوکر جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس انرودھ بوس اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے احکامات کے باوجود نفرت پھیلانے والی تقریر(ہیٹ اسپیچ) پر کوئی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔بنچ نے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے مزید ہدایات دینے کے لیے کہا گیا تو اسے بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدلیہ کی اس بیچارگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی دباو کے تحت انتظامیہ کس طرح کی گل افشانیوں میں ملوث ہوگیا ہے؟

سرکاری وکیل جن لوگوں کی حمایت کررہے تھے ان میں ایک حیدرآباد کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو بی جے پی نے گزشتہ سال پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک متنازعہ ویڈیو جاری کرنے کے باعث معطل کردیا تھا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے الزام میں جیل جانے کے بعد عدالت نے رہائی کے حکم میں تین اہم شرائط عائد کی تھیں، جن میں اشتعال انگیز تقاریر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ سنگھ کے خلاف 100 سے زیادہ مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ حیدرآباد میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے الزام میں وہ 76 دن جیل میں گزارچکا ہے۔جسٹس اےابھیشیک ریڈی اور جوادی شری دیوی نے 9 نومبر 2022 کےفیصلے میں ، ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ پر رہائی کے بعد کسی ریلی/میٹنگ میں حصہ نہیں لینے کی تلقین کی تھی اور انٹرویو پر بھی پابندی لگائی تھی۔ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم مثلاً— فیس بک، ٹوئٹر، وہاٹس ایپ، یوٹیوب وغیرہ پر کوئی توہین آمیزیا قابل اعتراض پوسٹ کرنے سے منع کیا گیا تھا مگر ان شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ 29 جنوری کو ’سکل ہندو سماج‘ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے ممبئی پہنچ گیا کیونکہ قانون کا ڈر نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نےامسال ۳؍ فروری کو انتظامیہ سے کہا تھا کہ ان کی اجازت صرف اسی صورت میں اجازت دی جائے کہ جب اس ریلی میں کوئی نفرت انگیز تقریر نہ ہو۔ یہ عجیب و غریب شرط ہے کیونکہ اجازت لیتے وقت ہر کوئی یہ یقین دہانی کر دیتا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی نہیں کرے مگر مائک کے سامنے اپنی من مانی کرنے لگتا ہے۔اس پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ مہاراشٹر پولیس ریلیوں کی تقاریر ریکارڈ کرے۔ یہ کام ہورہا ہے ان تقاریر کو ریکارڈ کرکے سنا بھی جاتا ہے لیکن چونکہ انتظامیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس لیے کسی بھی مقرر کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیاجاتا۔ ان کو سننے بعد پولیس کو اس میں کوئی قابل اعتراض بات دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ لوگ ایسے منتخب ماہرین قانون سے مشورہ لیتے ہیں جن کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی اس لیے کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی اور نفرت و عناد کا یہ ننگا ناچ جاری رہتا ہے۔ سرکاری حمایت میں جاری و ساری نفرت انگیزی پر لگام لگانے کے لیے بھیونڈی سے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی نے ایک اہم اقدام کیا ۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ کل پیش کی جائے گی۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449270 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.