پاکستانی وفاقی حکومت اورپولیس آخر کارعمران خان کو
گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۰۰۰ عدلیہ بھی عمران خان کی مقبولیت اور انکے
جانبازکاکنوں کی جانب سے ملک کے کونے کونے سے عمران خان کیلئے نکل پڑنے کو
دیکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے سے روک دیا
ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین و
سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو کسی بھی صورت میں گرفتار کرنے کیلئے
وفاقی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے زمان پارک
میں عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش
کی پولیس اور کارکنوں کے درمیان جوتصادم ہوا ہے اسے دنیا نے دیکھا ہے۔عمران
خان کو انکی رہائش گاہ زمان پارک میں محفوظ رکھنے کیلئے پی ٹی آئی کارکنوں
نے اپنی جانوں کی پرواہ تک نہیں کی۔ آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور پولیس کی
لاٹھی چارج بے سود ثابت ہوئی۔ عمران خان نے عدالت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ
سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس کے سلسلہ میں حاضر عدالت ہونگے، اسکے باوجود
عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جس کے جواب میں پی ٹی آئی کارکنوں
نے منگل کے روز اور چہارشنبہ کو پولیس اور پھر رینجرس کا سخت مقابلہ کیا جس
میں درجنوں پی ٹی آئی کارکن اور پولیس اہلکار زخمی بتائے گئے ۔ آخر کار
لاہور ہائیکورٹ نے پولیس اور رینجرس کو زمان پارک سے ہٹنے کیلئے کہا اور
پھر مجبور اً پولیس اور رینجرس عمران خان کے گھر زمان پارک سے چہارشنبہ کی
رات چلتے بنے ۰۰۰ لیکن جب عمران خان اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونے
کیلئے نکلے تو حالات نے نئی کروٹ لی۰۰۰ عمران خان کی آمد سے قبل ہی تحریک
انصاف کے کارکن 10بجے سے ہی جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے جمع ہونے شروع ہوگئے ،
بتایا جاتا ہیکہ ان کارکنوں میں ضعیف ، نوجوان ، بچے مردو خواتین سب ہی
شامل ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹولیوں کی شکل میں آنے والوں تعداد میں
بے تحاشہ اضافہ ہوا اوریہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے اپنے قائد عمران خان کے لئے
جان قربان کرنے کیلئے بھی تیار دکھائی دے رہے تھے۔ اسلام آباد کی عدالت میں
عمران خان کی آمد سے قبل کئی کارکنوں کو دفعہ 144کے نفاذ کے تحت گرفتار کیا
گیا ۔ عمران خان کا قافلہ جب اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوا تو
لاہور میں ہونے والے سلوک کا بدلہ لینے کیلئے پولیس تیار کھڑی تھی ۔ بتایا
جاتا ہیکہ پولیس اہلکار بار بار شیل پھینکنے والی بندوقیں ٹیسٹ کررہے تھے
اور شیل کھول کھول کر جیبیں اور تھیلے بھر رہے تھے ۔ اس کے علاوہ ربڑ کی
گولیاں بھی پولیس اہلکاروں میں تقسیم کی جارہی تھیں۔ ذرائع کے مطابق ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ جونہی عمران خان جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونگے تو پولیس
اہلکار پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کے بہانے اپنا بدلہ لینے کیلئے
انہیں آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں برسائینگے۔ اس دوران یہ دیکھا گیا
کہ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار نوجوان کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پرعزم
تھے۔جونہی عمران خان کا قافلہ جوڈیشل کمپلیکس کے قریب پہنچا تو آخر کار
پولیس اور کارکنوں کے درمیان جنگ کا ساماحول پیدا ہوگیا اور دیکھتے ہی
دیکھتے پولیس اور کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ اس دوران پولیس
نے اچانک شیلنگ شروع کردی اور کارکنان جو پہلے ایک جگہ پر جمع تھے اب دور
دور تک سری نگر ہائی وے پر جمع ہوگئے۔ جس طرف کارکنان جاتے آنسو گیس کے شیل
انکے پیچھے پیچھے گرتے جاتے۔ لیکن یہ کیا ۰۰۰ بتایا جاتا ہیکہ ہوا کا رخ
پولیس کی جانب ہونے کی وجہ سے آنسو گیس کی زد میں کارکن کم جبکہ پولیس اور
میڈیا ورکرز زیادہ تعداد میں آئے۰۰۰ اس دوران پی ٹی آئی ورکرز کو سنبھلنے
کا موقع بھی مل گیا اور وہ شیل اٹھااٹھا کر واپس پولیس اہلکاروں کی طرف
پھینکتے رہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے سڑک کے اطراف سے پتھر اٹھاکر
پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس وجہ سے پولیس اہلکار سی نگر
ہائی وے سے جوڈیشل کمپلکس کے سامنے سروس روڈ پر جانے پر مجبور ہوئے۔ پولیس
کی جانب سے اچانک شیلنگ سے غصے میں آنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کا غصہ
ٹھنڈا نہ ہواتو انہوں نے پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ بپھرے
ہوئے کارکنوں نے پولیس وین کو ڈنڈے مار مار کر توڑا تو پھر ایک بس اور ڈپل
کیبن گاڑی پر پتھراؤکیا ۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان یہ سلسلہ ابھی تھما
ہی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے
کارکنوں کو دوبارہ جمع کیا۔ اب کی بار کارکنوں نے پوری قوت سے پولیس پر
حملہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیلتے ہوئے جوڈیشل کمپلیکس کے دروازے تک پہنچ
گئے۔ کارکنوں نے جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں موجود پولیس اہلکاروں پر
پتھراؤ کیا جس کے جواب میں جوڈیشل کمپلیکس کے تین اطراف میں موجود کارکنوں
پر شیلنگ کی گئی جس کے اثرات بتایا جاتا ہیکہ کمرہ عدالت تک محسوس کئے
گئے۔پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان شیلنگ، اور ہنگامہ آرائی کا
سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا ۔ آخرکار بتایا جاتا ہیکہ عمران خان کو اسکا یہ
فائدہ ہوا کہ ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۰۰۰یہ تو اسلام آباد جوڈیشل
کامپلیکس میں عمران خان کی حاضری کے وقت ہوا لیکن ادھر لاہور میں حالات
ابتر ہوگئے۔ جب عمران خان اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے نکلے تھے تو بظاہر
سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ۔ بتایا جاتا ہیکہ صبح آٹھ بجے عمران خان کی گاڑی
زمان پارک سے نکلی تو انکے ساتھ گاڑیوں کا ایک کاروان تھاجیسے ہی پی ٹی آئی
چیئرمین کا قافلہ موٹر وے پر لاہور کی حدود سے نکلا تو اچانک زمان پارک کے
حالات بدلنا شروع ہوگئے ۔ پولیس نے کنٹینر لگاکر تمام راستوں کی ناکہ بندی
کردی۔ بتایا جاتا ہیکہ یہ ناکہ بندی عام نہیں تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
بتایا جاتا ہیکہ زمان پارک کے اطراف کے تقریباً تمام راستوں کو پولیس نے
بند کردیا تھا اور پولیس کی بھاری نفری نے صف بندی میں زمان پارک کی طرف
پیدل مارچ شروع کردیا۔ عمران خان کے گھر کے باہر کھڑے کارکنوں کو اس وقت
پتا چلا جب پولیس قریب پہنچ چکی تھی۔ کارکنوں نے نعرے بازی شروع کی تو
پولیس نے دھاوا بول دیا۔ چند ایک کارکنوں نے پتھر اور ڈنڈے چلانے کی کوشش
کی۔ پولیس کے مطابق چند ایک پٹرول بم بھی پھینکے گئے۔ پولیس نے البتہ
دیکھتے ہی دیکھتے کارکنو ں کو قابو میں کرلیا ۔ اس سے پہلے آنسو گیس کے شیل
بھی پھینکے گئے۔ پولیس کا یہ آپرریشن اس لئے بھی پہلے سے مختلف تھا کہ اس
بار ضلعی حکومت کا اینٹی انکروچمنٹ سیل اپنے بلڈوزرز کے ساتھ پولیس کے
ہمراہ تھا۔ کارکنوں کو حراست میں لینے کے بعد اینٹی انکروچمنٹ سیل نے زمان
پارک کے باہر لگی تمام رکاوٹوں بشمول کیمپس، مورچے، اور حفاظتی دیواریں سب
کچھ مسمار کرنا شروع کردیا۔بتایا جاتا ہے کہ صرف وہی کارکن بچے تھے جو
عمران خان کے گھر کے اندر تھے۔ پولیس جب عمران خان کے گھر کے دروازے پر
پہنچی تو ان کارکنوں نے گیٹ بند کردیئے۔ پولیس نے کرین کی مدد سے گیٹ توڑا
اور اندر داخل ہوکر عمران خان کے گھر کے مختلف حصوں کی تلاشی لی اور دعویٰ
کیا کہ اندر سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پولیس نے کافی تعداد میں
اشیاء قبضے میں لے لئے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے زمان پارک میں کی گئی
اس کارروائی کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ انہو ں نے کہا
کہ انکی شریک حیات بشریٰ بی بی زمان پارک میں تھیں اور اس دوران انکے غیاب
میں پولیس کی یہ کارروائی قانوناً خلاف ہے۔
10؍ اپریل 2022کو عمران خان کے دعوے کے مطابق انہیں امریکی سازش کے تحت
حکومت سے مستعفی ہونا پڑا۔ اور موجودہ حالات لندن میں بنے پلان کا حصہ
بتائے جارہے ہیں۔ عمران خان کی ایک آواز پر پاکستانی عوام کئی مرتبہ ملک کے
کونے کونے سے نکل چکے ہیں اور اب تو گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران دنیا نے دیکھا
کہ عمران خان کیلئے جان دینے والوں کی ایک فوج ہے ۔ انہیں توشہ خانہ کیس
میں گرفتار کرنے کی کوشش اصل میں انپر قاتلانہ حملہ کرنے کا ایک پلان تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چہارشنبہ 22؍ مارچ کو اپنے
ویڈیو لنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ حکومت خوف کا شکار ہے اور
ہمیں ہر صورت راستے سے ہٹانا چاہتی ہے، حکومت اس مقصد کے حصول کیلئے کسی
بھی حد تک جاسکتی ہے‘‘انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال پر ہیومن رائٹس
کمیشن اور عالمی اداروں کو خط لکھیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ انتخابات
کا اعلان ہوچکا ہے اور یہ لوگ انہیں مقدمات میں الجھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ
(عمران خان) الیکشن مہم نہ چلاسکیں۔ انہو ں نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کے
خلاف تاریخ کا بدترین کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان
تمام تر مظالم کے باوجود عوامی تعاون میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے
کیونکہ اب حالات بدل چکے ہیں ، آج قوم ماضی کی نسبت زیادہ سمجھ دار
ہے۔عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران کہاہے کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس
میں حاضری کے وقت’انہوں نے مجھے مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کرنا تھا اور کہنا
تھا کہ تصادم میں مارا گیا۔ ان کا یہ پلان تھا‘‘۔ عمران خان اس خدشے کا
اظہارکرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پتا چلا ہے کہ شاید آج شام یعنی چہارشنبہ کو
یہ آپریشن کریں۔ آئی جی پنجاب، آئی جی اسلام آباد، اور پیچھے انکے ہینڈلرز
زمان پارک میں آپریشن کا پلان بنایا ہے؟؟۔ انکاکہنا ہیکہ آج کل میں اس پلان
پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔عمران خان نے کہا کہ ’’مجھے پتا چلا ہے کہ مجھ پر
جوڈیشل کمپلیکس میں عدالت میں نہ پہنچنے پر توہین عدالت کا کیس ہورہا ہے۔
مجھے راستے میں جگہ جگہ روکا گیا اور یہ چاہتے تھے میں اکیلا عدالت پہنچوں۔
لوگ خود نکل کر آگئے۔ پولیس کی نفری بڑھتی گئی۔ ہمیں اشتعال دلانے کے لئے
آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی‘‘۔ 22؍ مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا
گیا اب دیکھنا ہیکہ حکومتی اتحاد عمران خان کے خلاف کس قسم کی کارروائی
کرنے کیلئے کوشش کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں اتحاد، پولیس اور
عدلیہ سب ہی عمران خان کی عوامی مقبولیت سے خوف کھائے ہوئے ہیں اور نہیں
معلوم عمران خان کو واقعی راستے سے ہٹانے کے لئے ان پر قاتلانہ حملہ بھی
کرایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عمران خان کا خود اس سلسلہ میں کہنا ہے۰۰۰ 10؍
اپریل 2022کے بعد سے عمران خان نے جو عوامی مقبولیت حاصل کی ہے او رملک میں
ایک سال کے دوران شہباز شریف کی حکومت نے معاشی طور پر جو انحطاط پر پہنچ
چکی ہے ، اشیاء ضروریہ ہوکہ خوردونوش و پٹرولیم ہر چیز کی قیمتوں میں بے
تحاشہ اضافہ ،پاکستانی عوام کو زندگی گزارنا دوبھر ہوگیا ہے ۔ عمران خان
ملک کے عوام کو خوشحال زندگی فراہم کرنے کیلئے ریاست مدینہ کے نہج پر
لیجانا چاہتے تھے ۔ پاکستانی عوام کو عالمی سطح پر ایک بہترین اور مضبوط
قوم کی حیثیت دینا چاہتے تھے لیکن وہ سازش کا شکار ہوگئے اور اب جبکہ وہ
پاکستان میں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں انہیں بچے ، نوجوان ، ضعیف
مرد و خواتین سب ہی چاہتے ہیں اور حکومتی اتحاد اسی بات سے خوفزدہ ہیکہ
انکی یہ مقبولیت عمران خان کی کامیابی اور حکومتی اتحاد کی ناکامی کا سبب
بنے گی ۔ اسی لئے انہیں اتنے کیسوں میں الجھادیا جارہا ہے کہ وہ عدالتی
کارروائیوں میں ہی مصروف و پریشان ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے
عدالیہ کے سامنے کہہ دیا ہیکہ انہیں مختلف الزامات کے تحت کیسوں میں
الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ انتخابی عمل دخل سے دور رہ سکیں۰۰۰
25؍ مارچ کو پاکستان تحریک انصاف کا مینار پاکستان میں جلسہ عام تھا ۔
تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت
نے انکے 1600کارکن پکڑئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جتنا ظلم کررہی ہے
اتنا لوگ باہر نکلیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حکومت نے پورے ملک کو
کنیٹنرز لگاکر راستے جام کردیئے ہیں ،لیکن قوم تمام رکاوٹیں توڑ کر جلسے
میں پہنچے گی۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے ذرائع ابلاغ کے مطابق
پاکستانی صدر عارف علوی کے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام لکھے گئے خط کے
جواب میں کہا ہے کہ ’’صدر اپنے آئینی دائرے اور اوقات میں رہیں‘‘۔ جمعہ کو
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق رانا ثناء اﷲ نے کہا
کہ صدر عمران خان سے دہشت گردی کرنے کا جواب لیں اور ان کے حکم پر ’کٹھ
پتلی‘ نہ بنیں۔واضح رہے کہ ایوان صدر کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے
مطابق صدر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط میں لکھا ہیکہ ’توہین
عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے وزیر اعظم وفاقی اور صوبائی
حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقرر وقت میں عام
انتخابات کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں‘۔ اب دیکھنا
ہیکہ وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے صدر ِمملکت عارف علوی کو اوقات میں رہنے
کی بات پر عوام اور اپوزیشن کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں۰۰۰
|