سیاستدانوں کا کردار

سچ کڑوا ہوتا ہے مگر جو قومیں سچ کی کڑواہٹ محسوس کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، کامران و کامیاب بھی وہی ہوتی ہیں ۔ہمارے ہاں سچ سننے کا یا کہنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے ۔اگر میرے جیسا اہلِ قلم تاریخی تلخیوں پر بات کرے یا سچ لکھے تو اس پر لفافی یا جانبداری کا الزام فورا لگا دیا جاتا ہے ۔ اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے مگرادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں، تنقید اور اختلاف کا اظہار بھی ہمیشہ شائستہ الفاظ میں ہو نا چاہئیے۔ اگر سیاست دانوں کی کردار پر بات کی جائے اور جب سے وطنِ عزیز وجود میں آیا ہے ،تب سے سیاست دانوں کے کردار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپٹ اور نالائق سیاست دان ہیں ۔ ان کو جب بھی حکمرانی کا موقعہ مِلا انہوں نے ملک کو لوٹنے اور برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بعض حضرات فوجی جرنیلوں کو اسکا ذمہ دار سمجھتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ فوج ان سیاست دانوں کی کرپشن اور بد اعمالی کی وجہ سے ہی سامنے آتی ہے ۔ ہمارے ملک کے سیاست دان جب جمہوریت کا ذکر کرتے ہیں تو مجھے ان کی جمہوری ہونے پر ہنسی آتی ہے کیونکہ یہ جب بھی برسرِ اقتدار آئے انہوں نے جموریت کو رسوا کیا ، جمہوریت کا مطلب تو جمہور کی حکمرانی ہے مگر انہوں نے کبھی جمہور یعنی عوام کی بھلائی کا نہیں سوچا بلکہ اپنے ذاتی مفاد یا پارٹی مفاد کو ترجیح دی ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر فوجی جرنیل حکومت نہ سنبھالتے اور جمہوریت کو چلنے دیتے تو اب پاکستان میں جمہوریت قائم ہو جاتی اور اس وقت پاکستان میں دودھ کی نہریں بہتیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے ہے کہ اگر سیاست دانوں
کی مسلسل حکومت ہوتی تو یہ آدھا پاکستان بھی اس وقت نہ ہوتا ۔ ماضی میں ان کا کردار کیسے رہا ؟ اس پر بات کی جائے تو کالم ہذا اتنی طوالت کا متحمل نہیں ہو سکے گا ۔ ہم آج کی بات کرتے ہیں ۔ اہلِ اقتدار ہوں یا اپوزیشن کے سیاست دان، سبھی کے کردار و اعمال پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیے، تو آپ کو ان کے کردار سے بدبو خود بخود محسوس ہوگی ۔

اس وقت عوام کا جو حال ہے ،وہ سبھی کو معلوم ہے اور یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ مہنگائی میں پسنے والے عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔آٹے کی تلاش میں لوگ کچلے جا رہے ہیں،ہر طرف بر بادی ہی بر بادی نظر آرہی ہے ۔ سیاستدان اپنے مفادات کے اسیر ہیں ، ہر کوئی کرسی تک پہنچنے یا کرسی نہ چھوڑنے پر بضد ہے ۔ ملک کی کشتی بھنور میں پھنسی ہو ئی ہے مگر کسی کو ملک کی فکر نہیں، بس اپنی فکر ہے ۔ ان ظالموں نے عوام کو تو پہلے ہی کئی حصوں میں بانٹ دیا تھا ، اب ملک کے تمام اہم اداروں کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔ کل عدلیہ میں کیا ہوا؟ واضح طور پر سپریم کورٹ جیسے اہم ادارے کے معزز جج صاحبان اپنی الگ الگ ڈفلی بجاتے نظر آئے ۔ بیوروکریسی میں بھی الگ الگ گروپ بنے ہوئے ہیں ۔ شنید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سوچ و فکر میں بھی تضاد ہے ۔گویا پوری قوم بکھری ہوئی ہے مگر کس کی وجہ سے بکھری ہوئی ہے ؟ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ظاہر ہے سیاسی لیڈر شِپ کی ۔۔۔ مگر یہاں تو سیا ست دان اس طرح ایک دوسرے کو گھور رہے ہیں جیسے یہ ایک ملک کے سیاست دان ہی نہ ہوں بلکہ انکی کوئی خاندانی دشمنی ہو ، وزیرِ داخلہ جناب رانا ثنااﷲ فر ماتے ہیں کہ یا ہم رہیں گے یا عمران خان، اگر اپنے وجود کی نفی محسوس ہوئی توہم ہر حد تک جائینگے ۔‘‘ کیا ایک ملک کے سیاست دان اسی طرح سوچتے ہیں ؟ اگر ہمارے سیاست دانوں کی سوچ ملک کو درپیش بحرانوں کی بجائے ایک دوسرے کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہو تو اس ملک کا کیا بنے گا ۔ یہ ہمارا پیارا دیس ،یہ پیارا پاکستان اس کو لگی بیماریون کا علاج کون کرے گا ؟ اخلاقی بحران تو تھا ہی، اب معاشی بحران، آئینی بحران،انتظامی بحران اور اب لاء اینڈ آرڈر بحران اور جو ڈیشل بحران ،اگر سیاست دان ان کو حل کرنے کی بجائے جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں تو اس ملک کا کیا بنے گا ؟ان حالات میں اگر فوجی جرنیل پھر ڈھنڈا نہ اٹھائیں ِ تو کیا کریں ؟ کیا ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا جائے؟ انارکی اور خانہ جنگی کی بو ہم سب محسوس نہیں کر رہے ہیں ؟ اگر سیاستدان مِل بیٹھ کر ملک کو ان بحرانوں سے نہیں نکال سکتے بلکہ اس میں اضافہ کرنے کا موجب بنے ہو ئے ہیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے ؟ ڈھنڈا ؟ جی ہاں ! ڈھنڈا ! با آمرِ مجبوری ۔مگر اس دفعہ ڈھنڈا بھی ٹھنڈا ہی نظر آرہا ہے کیونکہ اﷲ نہ کرے مگر جب پورے بدن میں کینسر پھیل جائے تو علاج بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے ۔ لہذا میری تمام سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ خدا را ! ملک کا سوچیں مثبت کردار ادا کریں، ورنہ کھیت چگ جانے کے بعد پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔۔۔

 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284450 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More