اعتکاف کے مسائل

رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے، مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آجائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے، اور رمضان المبارک کے روزے بھی اتنے ہی ہوں تو عید کے بعد جب رمضان کے روزوں کی قضا کرے تو اعتکاف کی بھی قضا کر لے۔ اگر قضائے رمضان کے ساتھ اعتکاف نہیں کیا تو بعد میں نفلی روزے رکھ کر اعتکاف پورا کرے۔
اگر انجکشن لگوانے سے صحت پر برے اثرات مرتب نہ ہوں تو خواتین افطاری کے اوقات میں (یعنی غروبِ آفتاب سے لے کر اذانِ فجر سے قبل تک) ٹیبلٹ لے سکتی یا انجکشن لگوا سکتی ہیں۔ لیکن اگر انجکشن لگوانے یا گولیاں کھانے کے باوجود کسی وقت عذرِ شرعی لاحق ہوجائے - چاہے وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی ہو- تو مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف سے متعلقہ مسائل
مسنون اعتکاف کے لئے روزہ رکھنا شرط ہے۔ بغیر روزہ کے مسنون اعتکاف صحیح نہیں۔ لہٰذا عورت ایام مخصوصہ میں نہ روزہ رکھے نہ اعتکاف بیٹھے۔
اگر نفلی اعتکاف چھوڑ دے تو اس کی قضا واجب نہیں لیکن اگر مسنون اعتکاف جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے، اسے توڑا تو جس دن توڑا اُسی سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے۔ پورے دس دنوں کی قضاء واجب نہیں۔ اگر واجب یعنی منت کا اعتکاف چھوڑا تو اگر وہ کسی معین مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضا کرے۔ لیکن اگر مسلسل (علی الاتصال) اعتکاف کرنے کی نیت کی تھی تو نئے سرے سے اعتکاف کرے اور اگر علی الاتصال اعتکاف کرنے کی نذر نہیں مانی تھی تو باقی دنوں کا اعتکاف کرے۔
ایک دن کے اعتکاف کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اعتکاف دن میں ٹوٹا ہو تو صرف دن کی قضا واجب ہو گی۔ یعنی قضا کے لئے طلوعِ فجر سے پہلے اعتکاف گاہ میں داخل ہو، روزہ رکھے اور اسی روز شام کو غروب آفتاب کے وقت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر آجائے۔ دوسری صورت میں اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو رات اور دن دونوں کی قضا کرے، یعنی شام کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہو، رات بھر وہاں رہے روزہ رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔
مسنون اعتکاف ٹوٹنے کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ضروری نہیں بلکہ عشرہ اخیرہ کے بقیہ ایام میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھ سکتا ہے اس طرح مسنون اعتکاف تو نہیں ہوگا مگر نفلی اعتکاف ہو جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص اعتکاف جاری نہ رکھ سکے تو بھی جائز ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے اسی دن باہر چلا جائے اور اگلے دن سے بہ نیتِ نفل پھر اعتکاف شروع کر دے۔
درج ذیل صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے:

بیماری
اعتکاف کے دوران ایسی بیماری لاحق ہو جائے جس کا علاج اعتکاف گاہ سے باہر جائے بغیر ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے۔

والدین، بیوی بچوں کی تکلیف
والدین، بیوی بچوں یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو کوئی شدید مرض لاحق ہو جائے یا کوئی حادثہ پیش آجائے اور گھر میں کوئی دوسرا تیمارداری کرنے والا موجود نہ ہو تو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے۔

جنازہ
والدین، بہن، بھائی یا کوئی عزیز اچانک فوت ہو جائے تو اُس کی تجہیز و تکفین کے لئے اعتکاف توڑ دینا جائز ہے۔

زبردستی نکالنا
اگر کسی معتکف کو کوئی زبردستی مسجد سے نکال دے یا حکومت اعتکاف میں گرفتار کر لے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا مگر اس صورت میں معتکف پر اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔

اعتکاف کو توڑنے والے امور درج ذیل ہیں:

بلا عذر مسجد سے باہر نکلنا
حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا
عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہو جانا
کسی عذر کے باعث اعتکاف گاہ سے باہر نکل کر ضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔
ان سب صورتوں میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

مکروہاتِ اعتکاف درج ذیل ہیں:

بالکل خاموشی اختیار کرنا کہ ذکر و نعت اور دعوت و تبلیغ کی بجائے خاموش رہنے کو عبادت سمجھا تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اگر بری باتوں سے خاموش رہا تو وہ اعلی درجے کی چیز ہے۔
مال و اسباب مسجد میں لاکر بغرضِ تجارت بیچنا یا خریدنا۔
لڑائی جھگڑا یا بیہودہ باتیں کرنا۔
معتکف بحالتِ مجبوری ایک مسجد سے دوسری میں منتقل ہو سکتا ہے۔ مثلاً جس مسجد میں اعتکاف شروع کیا ہو وہاں جان و مال کا خطرہ لاحق ہو جائے یا مسجد منہدم جائے تو ایسی صورت میں اس مسجد سے نکل کر فوراً کسی نزدیکی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے چلے جانا چاہئے۔
اعتکاف کے دوران معتکف عیادتِ مریض یا نمازِ جنازہ کے لئے نہیں جا سکتا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں:

’’اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ کسی جنازے کے ساتھ جائے، نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ اس سے مباشرت کرے اور غیر ضروری حاجت کے علاوہ اعتکاف گاہ سے نہ نکلے۔‘‘

ابو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2: 333، رقم: 2473

ہاں اگر گزرتے گزرتے بلا توقف بیمار کی عیادت کر لی جائے تو جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا ہی بیان فرماتی ہیں:

کَانَ النَبِيَ ﷺ يَمُرُّ بِالْمَرِيُضِ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هُوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْاَلُ عَنْهُ. وَقَالَ بنُ عِيُسَی: قَالَتْ: أَن کَانَ النَّبِيُ ﷺ يَعُوْدُ الْمَرِيُضَ، وَهُوَ مُعْتَکِفٌ.

’’حضور نبی اکرم ﷺ حالتِ اعتکاف میں مریض کے پاس سے گزرتے تو توقف کیے بغیر چلتے چلتے اُس کا حال دریافت فرما لیتے۔ ابنِ عیسیٰ راوی کہتے ہیں: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرما رہی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بحالتِ اعتکاف مریض کی عیادت فرمایا کرتے تھے۔‘‘

ابو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض، 2: 333، رقم: 2472

معلوم ہوا کہ معتکف کا جنازے اور بیمار پُرسی کے لئے بالالتزام جانا جائز نہیں۔ اس غرض سے وہ مسجد سے باہر نکلا تو اس کا اعتکاف فاسد جائے گا۔ لیکن اگر اس نے اعتکاف کرتے وقت یہ نیت کر لی تھی کہ نماز جنازہ یا عیادت کے لئے جائے گا تو اس صورت میں نماز جنازہ یا بیمار پرسی کے لئے جانے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔
معتکف بشری ضروریات مثلًا بیت الخلاء جانا، غسلِ واجب کے لئے، اگر اعتکاف گاہ میں سہولت موجود نہ ہو تو باہر جا سکتا ہے۔ یونہی نمازِ جنازہ (اگر اعتکاف بیٹھتے وقت اس کی نیت کی تھی) اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے اعتکاف گاہ سے باہر جاسکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ فارغ ہوتے ہی فوراً اعتکاف گاہ میں واپس آجائے۔ آدھے دن یا اس سے زائد باہر رہنے سے اعتکاف مسنون ٹوٹ جائے گا۔
دورانِ اعتکاف اعتکاف گاہ کے اندر یا قریب تر مقام پر غسل کر سکتے ہیں۔ خواہ واجب ہو خواہ غیر واجب۔
اگر کسی شخص نے سعودی عرب میں پہلا روزہ رکھا، اس لئے کہ اس نے وہیں یکم رمضان پالیا، کیونکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.

’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

البقرة، 2: 184

اب جبکہ اُس نے رمضان کا آغاز پاکستان سے دو دن قبل کیا اور یہ بھی قطعی ہے کہ اعتکافِ مسنون دس دن سے اور رمضان تیس دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا تو اِس صورت میں معتکف کے لئے ضروری ہے کہ وہ سعودی عرب کے حساب سے بیسویں جبکہ پاکستانی حساب سے اٹھارہویں روزے کو اعتکاف بیٹھے۔

البتہ پاکستان میں چاند کے حساب سے جب 28 روزے ہوئے تو اس کے تیس روزے پورے ہو گئے اور تیس سے زائد روزے نہیں رکھے جاسکتے۔ اس لئے اس کا مسنون اعتکاف بھی اٹھائیسویں روزے پر مکمل جائے گا۔

اگلے دن یعنی پاکستان میں 29 رمضان کو وہ شخص اِفطار کرے گا اور اعتکاف کرنا چاہے تو نفلی کرسکتا ہے۔

حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لَا تَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوُا الْهِلَالَ. وَلَا تُفْطِرُوْا حَتَّی تَرَوْهُ، فَإِنْ اُغْمِيَ عَلَيُکُمْ فَاقْدِرُوْا لَهُ.

’’چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو اور نہ ہی چاند دیکھے بغیر عید کرو، اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو (روزوں) کی مدت پوری کرو (یعنی تیس روزے پورے کرو)۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب وجوب صوم رمضان لروية الهلال، 4: 759، رقم: 1080

لہٰذا ضروری ہے کہ جس جگہ کے چاند دیکھنے پر روزہ رکھا تھا، وہیں کے حساب سے تیس روزے پورے کرے۔ کیونکہ کوئی قمری مہینہ تیس دن سے زائد کا نہیں ہوتا۔
اعتکاف اگرچہ مسجد میں ہی ہوتا ہے لیکن اگر معتکفین کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ مسجد کے اندر نہ سما سکیں تو مسجد سے ملحقہ عمارات و درس گاہوں کو مسجد قرار دے دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اکثر دینی جامعات سے ملحقہ عمارات بطور درسگاہیں بھی استعمال ہوتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر بطور مسجد بھی استعمال ہوتی ہیں بلکہ عام مساجد بھی جمعہ، اجتماعات اور عیدین کے موقع پر جب نمازیوں سے بھر جاتی ہیں تو ملحقہ راستوں، سڑکوں اور خالی پلاٹوں میں بھی صفیں بن جاتی ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’مجھے دوسرے نبیوں پر چھ فضائل خصوصی طور پر عطا ہوئے۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے، رعب کے ساتھ میری مدد فرمائی گئی، اموالِ غنیمت میری خاطر حلال کئے گئے، میرے لئے تمام روئے زمین مسجد بنادی گئی اور پاک فرمائی گئی اور مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا اور میرے ذریعہ سلسلہ نبوت ختم کیا گیا۔‘‘

ابن حبان، الصحيح، 14: 311، رقم: 6451

پس اس صورت میں مسجد سے ملحقہ وہ تمام جگہ جہاں جہاں نمازی صفیں بناتے ہیں، مسجد بن جاتی ہے اور ہر نمازی کو مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔

الله تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جب منہاج القرآن کے شہر اِعتکاف میں ہزاروں فرزندانِ اسلام اور شمعِ رسالت کے پروانے اجتماعی اعتکاف میں شریک ہوتے ہیں تو ظاہر ہے تمام معتکفین مسجد کے اندر نہیں سما سکتے۔ پس اس مجبوری کے پیش نظر معتکفین کے قیام کے لئے مسجد سے ملحقہ رہائش گاہیں اور میدان سب مسجد کے احاطہ کے حکم میں ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں اعتکاف بیٹھنا بالکل جائز ہے۔
خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ حضور ﷺ کی اَزواجِ مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں جیسا کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:

’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الاواخر والاعتکاف في المساجد، 2: 713، رقم: 1922
بیوی کا خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف بیٹھنا جائز نہیں۔
عورت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں جو جگہ نماز کے لئے مخصوص اسی میں اعتکاف بیٹھے۔ اس جگہ کو ’’مسجد البیت‘‘ کہا جاتا ہے۔
اگر وہاں ان کا با پردہ با حفاظت انتظام ہو اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تصفیہ کا اہتمام ہو تو وہاں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے۔ بعض بڑی مساجد اور مراکز پر الحمدﷲ ہزاروں کی تعداد میں مردوخواتین الگ الگ باپردہ باحفاظت اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ شب و روز کے معمولات کے لئے ایک نظام الاوقات مہیا کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور تربیت و تزکیہ کا یہ انتظام و اہتمام ہر مسجد میں نہیں ہو سکتا۔

علامہ ابن نجیم حنفی عورت کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

ان إعتکافها فی مسجد الجماعة جائز.

’’بے شک عورت کا جماعت والی مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔‘‘

علامہ کاسانی کی بدائع الصنائع کے حوالہ سے آپ مزید لکھتے ہیں:

ان اعتکافها فی مسجد الجماعة صحيح بلا خلاف بين اصحابنا.

’’عورت کا مسجدِ جماعت میں اعتکاف بیٹھنا درست ہے۔ اس میں ہمارے ائمہ احناف کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 324

علامہ ابن عابدین شامی رد المحتار میں عورت کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں ساتھ ہی بدائع الصنائع کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

صرح فی البدائع بأنه خلاف الأفضل.

’’البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے۔‘‘

ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2: 441

مراد یہ ہے کہ مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے۔

وضاحت
ہر مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ نہ باپردہ الگ تھلگ با عزت طور پر ان کے لئے محفوظ جائے اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہی چیزیں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف پر ممانعت کا شرعی جواز مہیا کرتی ہیں۔ مگر جس مسجد میں وسعت ہو، مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ باپردہ محفوظ جائے اعتکاف ہو، تمام حاضرین کو ایک معقول و مفید نظام الاوقات کی پابندی سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ہونے والا اجتماعی اعتکاف اسی کی ایک مثال ہے۔ جہاں خواتین دور دراز علاقوں سے اعتکاف کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔ وہ اپنے خاوندوں یا محرموں کے ہمراہ مرکزی اعتکاف گاہ میں آ جاتی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کے لئے مسجد سے متصل وسیع و عریض رقبہ پر الگ الگ قیام و طعام اور رہائش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558232 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More