فاتحہ ۔
از قلم:عصمت اسامہ۔31 مارچ میرے والد صاحب مرحوم کا یومِ پیدائش تھا،جب وہ
زندہ تھے تو ہم بیٹیاں اکثر اس دن میکے آجاتیں تھیں۔ ابوجی کو دل کا عارضہ
تھا ،کچھ گپ شپ سے ان کی طبیعت بہتر ہوجاتی اور ہمیں بھی سکون ہوجاتا ،پھر
جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو میں اپنے شوہر صاحب کے ساتھ فاتحہ پڑھنے ابو
جی کی قبر پر چلی جاتی ،ایسے ہی ایک بار دعا کرتے ہوئے ،میاں صاحب کو دیکھا
کہ کسی اور قبر کے پاس کھڑے ہیں اور چہرے پر عجیب سے تاثرات ہیں۔ ان سے
پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟جس کے پاس کھڑے ہیں تو کہنے لگے "یہ ایک شخص تھا
،مجھ سے عمر میں بڑا تھا،اس لئے میں اس کا لحاظ کر جاتا تھا لیکن اس نے
مجھے بہت ستایا،کئ بار تحقیر کی ۔ایک بار کسی کانفرنس میں اتفاقاً اس نے
مجھے دیکھ لیا تو بہت غصے میں کہنے لگا کہ تمہیں یہاں کس نے بلایا ہے ؟میں
نے کہا کہ انتظامیہ نے۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے وہاں سے نکلوا دے
،حالانکہ میں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔آج یہ قبر میں ہے لیکن اس کا
میرے ساتھ جو حاسدانہ رویہ تھا ،میں اسے بھلا نہیں سکتا !"
میاں صاحب کے چہرے پر بہت اذیت کے آثار تھے ۔مجھے ان کی کیفیت محسوس ہورہی
تھی مگر اس صاحب_قبر پر بھی رحم آرہا تھا جو اپنے لئے ایسی تلخ یادیں چھوڑ
کر گیا۔بڑی ہمت کرکے میں نے میاں صاحب سے کہا کہ" مجھے آپ کی تکلیف کا
احساس ہے لیکن اب یہ بندہ دنیا سے جاچکا ہے ،اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے
اور وہ حساب لینے کے لئے کافی ہے ،آپ اس کی برائیوں کو معاف کردیں،شاید
روز_محشر ،یہی نیکی آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے! "
میری التجا پر کہنے لگے کہ "ہاں ،میں نے اسے معاف کردیا ہے لیکن میں دل کے
زخموں کو بھر نہیں سکا"-
کاش ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ حقوق العباد کی کیا اہمیت ہے کہ اللہ بھی
روز_قیامت ،انسانوں کے نامہء اعمال میں موجود نیکیوں کی صورت میں حق دلواۓ
گا ،اگر نیکیاں کم پڑیں تو مظلوم کے گناہ ،ظالم کے نامہء اعمال میں ڈال
دئیے جائیں گے اور جہنم کی طرف روانہ کردیا جائے گا!
ہم انسان کتنے عجیب ہیں کہ ایک دوسرے کی زندگی جہنم بنادیتے ہیں اور اپنے
لئے جنت کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں !
ہمیں فکر کرنی چاہئے کہ ہمارے بعد کسی کے ہاتھ ہمارے لئے فاتحہ کو بھی
اٹھیں گے یا نہیں ؟
|