شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

پاک فوج کراچی سے لیکر وزیر ستان تک افسرہویا سپاہی مادر وطن پر جان قربان کر رہے ہیں۔ خاص طور پرکے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے اور ہمیں امن وسکون کی نیندسلانے کیلئے یہ جوان اپنا آج ہم پر قربان کر رہے ہیں اور یہ دھرتی ہمیشہ ان شہیدوں کی لازوال قربانیوں کی احسان مند رہے گی ۔بلاشبہ پاک آرمی کی تاریخ جاں نثاروں کے عزم وہمت کی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔انتہائی دلیری اور شجاعت سے یہ جوان جان ہتھیلی پررکھے دہشت گردوں کے قلع قمع میں مصروف عمل ہیں ۔ گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں سے لڑائی میں3 فوجی جوانوں حوالدار محمد اظہر اقبال، نائیک محمد اسد اور سپاہی محمد عیسیٰ شہید جرات و بہادری کی ایک روشن مثالیں قائم کرتے ہوئے بڑی بہادری سے لڑے، اور شہادت کارتبہ پا گئے۔ جبکہ سپاہی اصغراور حذیفہ شدید زخمی ہوگئے۔ یہ ہیں اس پاک دھرتی کے سر فروش ، یہ وہ ماں جائے ہیں جن کامقصد ہی اپنے ملک پر نثارہونا ہے ۔دہشت گردوں کے ساتھ اس معرکے میں شہید ہونیو الے لودھراں کے حوالدار محمداظہر نے سوگواران میں 4 بیٹے اور 1 بیٹی چھوڑے ہیں ، خانیوال سے تعلق رکھنے والے نائیک محمد اسد نے بیوی اور ایک بیٹا جبکہ ضلع جنوبی وزیرستان کے سپاہی محمد عیسی نے سوگواران میں والدین ، 2 بہنیں اور 3 بھائی چھوڑے ہیں۔بے شک ملکی جغرافیائی سرحدوں سے لے کر اندرونی محاذوں پر بھی پاک فوج کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ افواجِ پاکستان کے جوانوں ملک کی حفاظت کی خاطر قربانیاں نا قابلِ فراموش ہیں۔پاک فوج کے نہ جانے کتنے لعل مادر وطن پر جان وار کر شہید اور غازی کا رتبہ پا چکے ہیں۔ 2001 ء کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گردوں کا صفایاکرنے میں سیکڑوں سپوت قربان ہو چکے ہیں۔قوم کو ان شہیدوں پر فخر ہے کیونکہ انہوں نے ہمارے بہترمستقبل کی خاطر اپنا تن من دھن وطن عزیز پر قربان کردیا۔وطن عزیزمیں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے ایک نئے خطرے کے احساس سے دو چار کر دیا ہے اور لمحہ بہ لمحہ یہ عدم تحفظ اورامن وامان کی سنگین صورتحال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اورہماری غیور و بہادر افواج بدرو حنین کے جانشینی کا فرض اسلام کی سر بلندی اورملت کی سالمیت کیلئے اپنا خون بہا کر بخوبی نبھا رہے ہیں ۔وطن کی مٹی اپنی حفاظت کے لئے قربانی مانگتی ہے اور قربانی بھی ایسی جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں یہ قربانی صرف وہی لوگ دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے اور وہ ملک کی آزادی کو ترجیح د یتے ہوئے اپنی جان اور مال وطن پر نثار کرتے ہیں کچھ تو شہادت کے رتبہ میں فائز ہوتے ہیں اور کچھ غازی بن جاتے ہیں۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰۃ ہے

سرحدوں پر جان قربان کرنے والے فوجی اہلکار کوئی 25،30 ہزار تنحواہ کیلئے نہیں لڑتے یہ اس مٹی کی حرمت کے تحفظ کیلئے لڑتے ہیں ۔ اپنے والدین، بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں کہ انہوں نے وطن سے وفا نبھانے کی قسم کھائی ہے۔جب بھی دشمن نے للکارااس دھرتی کے بہادر سپوت محاذ پر دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور جانبازی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے اورقوم کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔ شہیدبریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی ہمیشہ کہتے تھے کہ میں فوج میں وطن پر قربان آنے آیا ہوں۔میں سینے پر گولی کھاؤں گااور انہوں نے یہ سچ ثابت کر دکھا یا۔بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کو لیڈ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔۔بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی نے 12 اکتوبر 1995ء کو فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں میرٹ پر کمیشن حاصل کیا اور اپنے بل بوتے پر بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے۔سیاچن میں بطور جونئیر افسر متعدد بار زخمی ہوئے ، دشمن نے گھات لگا کر ان پر حملے کئے وہ بھی ان کے حوصلے پست نہ کر سکے۔عسکری کیرئیر میں شہید انسداد دہشتگردی آپریشنز میں متحرک رہے۔انہوں نے خیبرپختونخوا، بلوچستان میں بڑی کامیابی سے دہشتگردوں کے نیٹ ورکس توڑے۔2016 ء میں اے پی ایس حملے میں ملوث دہشتگردوں کو انجام تک پہنچانا شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کا بڑا کارنامہ تھا۔مایہ ناز فوجی افسر جو فرنٹ محاذ سے لیڈ کرتے تھے ۔ تن تنہا ہی مردانہ وار دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے نکل پڑتے ۔ان کی شہادت ان مخالفین کے منہ پر طمانچہ ہے جن کا یہ پروپیگنڈہ ہے کہ فوج میں افسر نہیں لڑتے ، صرف سپاہی جان دیتے ہیں ۔ رواں برس 3 جنوری کو کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کے سربراہ نوید صاد اورایک انسپکٹر محمد ناصر عباس خانیوال میں ایک حملے میں وطن پر جان نچھاور کر دی۔ بہادری اور جرات کے پیکرنوید صادق نے پنجاب بھر میں داعش اور القاعدہ کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کی تھیں۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث نیٹ ورک کا بھی سراغ لگایا تھا۔ یہ فوجی افسر بھی فرنٹ محاذ پر لڑتے تھے۔ایک اور آ ئی ایس ایس آ ئی افسر کرنل سہیل عابدبے مثال جرات، بے خوفی اور قائدانہ صلاحیت کی اعلیٰ مثال تھے ۔آپ بلوچستان میں فرنٹ محاذ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ بے شک ہمارے افسران فرنٹ لائن پر لڑ تے ہوئے دلیری ، شجاعت اور جانبازی کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ پوری قوم اپنے ان بہادر بیٹوں کی لازوال قربانیوں کو سلامِ پیش کرتی ہے۔درحقیقت وطن کے لئے جام شہادت نوش کرنے والے کے لئے ذات, قبیلہ, فرقہ کوئی معانی نہیں رکھتا. وہ اپنے ملک کی آن اور شان اور اس کی آزادی کی خاطر مر مٹتا ہے ۔شہادت کے بلند درجوں کے متوالے دشمن کی سازشوں اور ان کے مذموم عزائم کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ تین ماہ کے دوران، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں متعدد انسداد دہشت گردی آپریشنز کیے ہیں، جن میں نہ صرف دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا ہے بلکہ متعدد حملوں کو بھی ناکام بنایا گیا۔فاٹا اور کے پی کے میں امن کی بحالی کے آپریشنز ہوں یا جان جوکھوں میں ڈال کے پاکستانی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کا عزم ، پاک فوج کی شہادتیں گواہ ہیں کہ ہرمضبوط فوج مستحکم پاکستان کی ضامن ہے ۔ قائدِ اعظم پاک فوج کو بہت عزیز رکھتے تھے،انہیں یقین تھا کہ فوج مضبوط ہوگی، تو پاکستان مضبوط ہوگا۔فوج اور عسکری تربیت کی اہمیت کے پیشِ نظر ہی قائد اعظم نے پاکستان میں کاکول ملٹری اکیڈمی قائم کروائی۔ 14 جون 1948 ء کو اسٹاف کالج، کوئٹہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے قاعد اعظم نے کہا کہ ’’پاکستانی فوج اہلیانِ پاکستان کے جان و مال اور عزّت و آبرو کی پاسبان ہے۔‘‘ بلاشبہ،قائدِ اعظم انصاف پسند شخصیت اور مساوات پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے زندگی کا جو آخری خط یاحکم یکم ستمبر 1948 ء کو زیارت سے جاری کیا تھا، وہ بھی فوج ہی سے متعلق تھا، جس میں تھل پراجیکٹ کے مہاجر فوجیوں کی بہبود کے لیے تین لاکھ روپے کی گرانٹ دی گئی تھی۔ لمحہ ء فکریہ تو یہ ہے سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات اورموروثی سیاست کوترجیح دی اور پھر اپنی ناکامیوں کا ملبہ عساکر پاک پر ڈال کر اسے عوام کے اندر مشکوک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنادو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے بلاشبہ یہ کام ہمارے سیاست دان بخوبی کر رہے ہیں۔ ادھر ہمارادشمن ہمیں تباہ کرنے کیلئے چالیں چلنے میں مصروف عمل ہے اور ہم ہیں کہ اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کا کھیل رچانے میں سر گرم ہیں۔

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 139161 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.