سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل کی منظوری

پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے 30مارچ کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر( بل کی منظوری دے دی اس سے پہلے یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کیا جاچکا ہے۔ اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔اور سپریم کورٹ کوسپر یم کورٹ رولز ۱۹۸۰ ترمیمی ۲۰۱۷ میں اس بل کی روشنی میں ترامیم کرنا ہونگی۔ شنید یہی ہے کہ صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب اس بل پراعتراض لگا پر واپس پارلیمنٹ کی جانب بھیج دیں گے ۔ بہرحال آئین پاکستان کے آرٹیکل 75میں مکمل طریقہ موجو د ہے کہ صدر کے اعتراض کی صورت میں پارلیمنٹ کی جانب سے بل کی دوبارہ منظوری کی صورت میں صدر بل کو منظور کریں یا نہ کریں یہ ایسے ہی تصور کیا جائے گا کہ جیسا کہ صدر نے اس بل کو منظور کرلیا ہے۔ اس بل کی چند نمایاں خصوصیات ایسی ہیں جنکی بناء پر پاکستان میں حالیہ کچھ عرصہ سے پائے جانے والے جوڈیشل ایکٹوازم کا بتدریج خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ ماضی قریب میں سابقہ چیف جسٹس صاحبان افتخار چوہدری اورثاقب نثار المعروف بابا رحمتا کی جانب سے سوموٹو ایکشن کی بھرمار اور انتظامی امور میں سرعام اور بے جا مداخلت نے جہاں انتظامیہ کو پریشان کئے رکھا وہیں پر ان چیف جسٹس صاحبان کے اپنے عدالتی بنیادی کاموں میں تاخیری معاملات کھل کر سامنے آئے۔ بابا رحمتا ثاقب نثار نے تو اپنی پوزیشن کا حد سے زیادہ ناجائز استعمال کیا۔ کبھی ہسپتالوں میں چھاپے تو کبھی ڈیم بنانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم مگر اپنی زیر سرپرستی ملک بھر کی عدالتوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں مقدموں بارے وہی سست روی اور سائلین دربدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھائی دیئے۔شاید انہی وجوہات کی بناء پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی نے سوموٹو کیس کی سماعت کوتادم نئے رولز کے اجراء تک روک دیا اور نئے رولز کو وقت کی اشد ضرورت قرار دیا وہ علیحدہ بات ہے کہ قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بننے والے بینچ کے فیصلہ کو چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ سرکلر سے ختم کردیا ، ویسے پاکستانی عدالتی تاریخ میں شاید اس طرح کا واقعہ شاذونادو ہی ہوا ہوگا کہ ایک بینچ کے آرڈر کو رجسٹرار سپریم کورٹ کے سرکلر سے ختم کیا گیا۔ اس وقت یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستانی عدالت عظمی کے معزز ججز اور معزز چیف جسٹس کے درمیاں واضح تفریق موجود ہے ۔بہرحال اس بل کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: پارلیمنٹ سے منظور شدہ اس بل میں سوموٹو ایکشن لینے کے لئے بینچ کی تشکیل بذریعہ ججز کمیٹی کا قیام جیسا کہ ایک چیف جسٹس اور دو سب سے سینئر ترین ججز [اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے باوجود آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3) میں واضح درج ہے کہ سوموٹو ایکشن سپریم کورٹ لے سکتی ہے جبکہ موجودہ معزز چیف جسٹس نے اس اختیار کو اک عدالتی آرڈر کے ذریعہ اس اختیار کو چیف جسٹس تک محدود کردیا تھا]۔سوموٹو ایکشن کے بعد بینچ میں ججز کمیٹی کے اراکین کی شمولیت کو یقینی بنانا۔جب کبھی سپریم کورٹ کے سامنے آئین کی تشریح کا معاملہ درکار ہوتو کم از کم پانچ ججز پر مشتمل بینچ کی تشکیل ۔سوموٹو فیصلہ کی صورت میں سائل کو اپیل کا حق جو کہ لارجر بینچ سنے گا، اس سے پہلے اپیل کا حق حاصل نہ تھا۔کچھ دوست احباب اعتراض کرتے ہیں کہ پارلیمان کی جانب سےمنظور شدہ بل آئین سے متصادم ہے اور یہ کہ پارلیمان کے پاس سپریم کورٹ کی پریکٹس اور رولز کے لئے قوانین بنانے کا اختیار ہی نہیںہے۔ اور یہ کہ سپریم کورٹ اس قانون کو خلاف آئین قرار دے کر مسترد کردے گی۔ ایسے تمام احباب کے لئے درج ذیل معروضات پیش خدمت ہیں۔ا س وقت پاکستان کی عدالت عظمی آئین کے آرٹیکل 184آرٹیکل 185اور آرٹیکل186اور "سپریم کورٹ رولز ۱۹۸۰ ترمیمی ۲۰۱۷ "کے تحت افعال سرانجام دے رہی ہےآئین پاکستان کے آرٹیکل 175(2) واضح طور پر درج ہےکسی بھی عدالت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہو گا سوائے اس کے جیسا کہ اسے آئین یا کسی قانون کے ذریعے یا اس کے تحت دیا گیا ہے۔۔آئین کے آرٹیکل 70جس میں قانون سازی کے طریقہ کار بارے واضح ہدایات موجود ہیں اس آرٹیکل کی شق نمبر 4میں وفاقی قانون سازی کی فہرست کا تذکرہ ہے۔ اور وفاقی قانون سازی فہرست کے پوائنٹ نمبر55میں سپریم کورٹ بارے قانون سازی کا تذکرہ موجود ہے جیسا کہ: عدالت عظمی کے اختیار سماعت میں توسیع کرنا، اسکو زائد اختیارات تفویض کرنا۔سب سے اہم آرٹیکل 191میں درج ہے کہ آئین اور قانون کے تابع، سپریم کورٹ عدالت کے عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد بنا سکتی ہے اور پاکستانی مجلس شورہ یعنی پارلیمنٹ کے پاس قوانین بنانے کا اختیار آئین پاکستان نے تفویض کیا ہے۔یاد رہے جمہوریت میں پارلیمینٹ کو تمام اداروں کی ماں قرار دیا جاتا ہے۔یاد رہے پاکستان کا سب سے طاقتور ترین انتظامی عہدے دار وزیراعظم بھی اپنے ہر فیصلہ کی منظوری وفاقی کابینہ سے لینے کا پابند ہے۔ اس قانون کی مدد سے جہاں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی ادارہ جاتی اجارہ داری کے خاتمہ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی وہیں پر اس قانون کی بدولت سپریم کورٹ میں معزز ججز کے درمیان پائی جانے والی کشمش میں بہت حد تک کمی لائی جاسکے گی۔ درج بالا معروضات کی روشنی میں یہ بات طے شدہ ہے کہ پارلیمینٹ کی جانب سے منظور شد ہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کسی صورت آئین سے متصادم نہیں ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگائی جارہی ہے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 164164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.