میدان اور میزان

 ایک دانا کاکہناہے دنیا کا ہر مسلمان رسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کی زیارت کرنااوران سے ملنا چاہتا ہے لیکن اس کیلئے مرناکوئی نہیں چاہتا۔ا س طرح آصف زرداری اپنے فرزندبلاول زرداری کو پاکستان کا وزیراعظم بنانا چاہتا ہے جبکہ نوازشریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے میدان میں اتارا ہے لیکن دونوں میں سے کوئی بھی ملک میں انتخابات کا حامی نہیں کیونکہ مقررہ آئینی معیاد کے اندر اندر الیکشن کے انعقاد سے ان کے خواب چکنار چور ہونے اور ممکنہ شکست کے بعدان کی شامت آنے کا خطرہ ہے جس کاوہ اپنے بیانات میں اظہار بھی کررہے ہیں تاہم اب انتخابات کے انعقادمیں کسی قسم کی" مہلت "حکمران اتحاد کی سیاست کیلئے انتہائی "مہلک " ہو سکتی ہے۔پچھلے چندبرسوں سے سات سمندرپار ایک ریاست نے مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان ڈیل کیلئے پل کاکرداراداکیا ،اس مبینہ ڈیل کے تحت آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو وزارت عظمیٰ سمیت سندھ کی وزارت اعلیٰ جبکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ (ن) کوملے گی ،تاہم اپنے ان" ارادوں" کی تکمیل کیلئے ریاستیـ" اداروں" کیخلاف سرگرم عناصر یادرکھیں باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے قادروکارساز اﷲ ربّ العزت کوپہچانا تھا ۔جس ملک نے ان کے درمیان ڈیل کا راستہ ہموار کیا وہ باشعور ووٹرز کاہاتھ تھام کر صندوقچی میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ۔ماضی میں نیب زدگان انتخاب کواحتساب قراردیا کرتے تھے لہٰذاء اب وہ اپنی دمڑی اورچمڑی بچانے کیلئے انتخابات کوٹالنا چاہتے ہیں،تاہم الیکشن کاتیر کمان سے نکل چکا ہے۔ دوصوبائی اسمبلیوں کیلئے انتخابات نوشتہ دیوار ہیں کیونکہ آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کردی گئی تھیں لہٰذاء نوے روز کے اندر اندر انتخابات کاانعقادعمرانی نہیں عوامی مطالبہ اوراس کے ساتھ ساتھ آئینی تقاضا ہے جس سے راہ فرارکاتصور نہیں کیا جاسکتا۔ عنقریب ووٹوں کی" پرچیاں" تیزدھار"برچھیاں "بن کرقومی چوروں کی بڑی بڑی توندوں کا پوسٹ مارٹم کریں گی جہاں چوری کاپیسہ بھرا ہوا ہے ۔ نیب میں نقب لگانیوالے نیب زدگان ایک بار پھر زندان میں ہوں گے۔

ماضی میں عدلیہ کی آزادی کیلئے مارچ کرنیوالے آج آزاد عدلیہ کودبانے اورجھکانے کے درپے ہیں، لندن میں براجمان ایک سیاسی شخصیت کا عدلیہ کوڈکٹیشن دینا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ایک سیاسی خاندان افواج پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کوبھی پنجاب پولیس بناناچاہتا ہے،جوجماعت عدلیہ کیخلاف مہم جوئی کاارادہ رکھتی ہے وہ مکا لہرانے والے فوجی ڈکٹیٹرکاانجام فراموش نہ کرے ۔ قومی سیاست کے وہ متنازعہ کردارجو اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق فیصلہ سنائے اور بینچ بنائے جانے کے خواہاں ہیں وہ نامراد ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) کی عدالت کے ساتھ عداوت کسی سے مخفی نہیں،یہ عداوت عدالت عظمیٰ کی عمارت میں بدترین سیاسی جارحیت کی صورت میں اس وقت منظرعام پرآئی تھی جب چیف جسٹس(ر) سجادعلی شاہ نے شدید دباؤ کے باوجود انصاف کی دھجیاں بکھیرنے سے دوٹوک انکار کردیا تھا ۔ انصاف کاراستہ روکنے کیلئے عدالت عظمیٰ میں کی جانیوالی بدترین غنڈہ گردی ہماری سیاسی تاریخ کاسیاہ باب ہے۔ عدلیہ میں حالیہ نفاق کے ڈانڈے وفاق میں بیٹھے مخصوص نیب زدگان سے جاملتے ہیں۔ ان کیلئے پنجاب سمیت دوصوبوں میں انتخاب ایک ڈراؤنا خواب اورعذاب بن گیا ہے۔بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈور مخصوص انتہاپسند عناصر کے ہاتھوں میں آگئی ہے،پرویزی آمریت کے دوران مسلسل نوبرس تک سیاسی انتقام کاسامنا کرنیوالے حمزہ شہباز سے عوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میں کام نہیں لیا جارہا۔حمزہ شہبازکا وطن واپسی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے اجتماعات میں نظر نہ آناایک معمہ ہے ۔پاکستان کے زیرک اورسنجیدہ سینیٹر شجاعت عظیم سے متعدل اور مدبر سیاستدا ن کادم مسلم لیگ (ن) کیلئے غنیمت ہے لیکن ان کی سیاسی وتنظیمی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ شجاعت عظیم بھی یقینا اپنی جماعت کے اندر سے کسی بدخواہ کی حسداورسازش کا شکار ہوئے ہیں۔شجاعت عظیم کو منفرد اسلوب کے ساتھ اپنی قیادت کابیانیہ پبلک کرنے کافن آتا ہے۔

جواتحادی حکمران مسلسل ایک سال سے بیچارے عوام پرمہنگائی کے ہنٹر برسا رہے ہیں ،ان میں مضطرب عوام کاسامنا کرنے کی ہمت اور سکت نہیں کیونکہ وہ آدم خور مہنگائی کے ہاتھوں کئی انسانوں کے لقمہ اجل بن جانے کے بعد شہریوں کو اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتے۔مفت آٹا بیسیوں زندہ انسانوں کونگل گیا ہے،یادرکھیں جوکام بدنیتی کی بنیاد پرشروع کیاجائے اس کاانجام ہرگزاچھانہیں ہوسکتا۔ اتحادی حکمرانوں نے سوچا تھا آٹا سٹنٹ سے ان کی ساکھ بحال ہوجائے گی لیکن یہ پلان بھی بیک فائرکرگیاکیونکہ اس راکھ میں کوئی چنگاری باقی نہیں بچی ۔ نادار لیکن خوددار لوگ ماہ صیام میں بدترین خواری کے بعد30کلو مفت آٹاملنے پراپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کریں گے ،افسوس محرومیوں کے مارے مردوزن کو "تیس "کلو آٹا دیتے ہوئے" پیس" دیا گیا۔طویل قطاروں میں کھڑے بے بس لوگ دس کلوآٹا کیلئے "ترس "جبکہ الٹا ان پرڈنڈے "برس" رہے ہیں۔جو حکمران اپنی سیاست بچانے کیلئے قوم کی باوفا،باصفا اورباحیاء ماؤں ،بہنوں اوربیٹیوں کے سروں سے چادریں اتار دیں اور انہیں دھتکاریں وہ کس طرح عزت کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔دیکھا جائے تو سرکاری محلات میں مقیم مراعات یافتہ حکمرانوں کو طعام ،پٹرول اوربجلی سمیت سب کچھ مفت ملتا ہے ،ان مفت خوروں نے محض تیس کلو مفت آٹا کی آڑ میں غیور لیکن مہنگائی کے ہاتھوں مجبور پاکستانیوں کو بھکاری بنادیا ہے۔

قدم قدم پرڈیل اورڈھیل کی سیاست کرنیوالے عوام کو ڈیلیورکرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ایوان میں آئینی اپوزیشن کے نہ ہوتے ہوئے بھی متحدہ حکومت کی پوزیشن انتہائی ابتر ہے ۔ اتحادی حکمران بھی ایک دوسرے کو الیکشن کے نام پرڈراتے اوربلیک میل کرتے ہیں۔انتخاب اوراحتساب سے خوفزدہ قوتوں نے راہ فرار کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگادیا ہے تاہم حکمرانوں اوران کے سہولت کاروں سے بیزار عوام ملک میں آئینی تبدیلی کیلئے بیقرار ہیں۔اگرعوام کابس چلتا توانہوں اب تک قومی چوروں کے چہروں کونوچ لیا ہوتا۔سوشل میڈیا کاہتھیار ہاتھوں میں آنے کے بعداب لوگ ڈنڈوں اور قیدوبند سے نہیں ڈرتے۔دیکھا جائے تواب سوشل میڈیا بھی ایک طرح کی عدالت ہے ،جہاں مختلف شخصیات کیخلاف مقدمات کی سماعت اورشہادت کے بعد فیصلے صادر ہوتے ہیں۔جہاں قومی ضمیرزندہ ہووہاں باشعور عوام سیاسی طورپر"مرُدوں" اور"نامردوں" کی پوجایا پرستش نہیں کیا کرتے ۔ہمارے ملک میں عوام کاسیاسی طورپر جھکاؤاورلگاؤ پوری طرح واضح ہے،اگر ان کے نزدیک پاکستان کیلئے کپتان ناگزیر ہے تو انہیں ووٹ سے اپنا نجات دہندہ منتخب کرنے کاحق دیاجائے۔ عوام کا جوش وجذبہ اورزورشور دیکھتے ہوئے تولگتا ہے اس بارانتخابات میں دھونس دھاندلی آسان نہیں ہوگی،اوورسیزپاکستانیوں کوبھی ووٹ کاحق دیاجائے۔ آئندہ انتخابات میں ووٹ کی چوٹ سے ڈرے ہوئے جو لوگ انتخابی" میدان" میں اترنے کیلئے" میزان" کے دوپاٹوں میں توازن کی بات کر رہے ہیں وہ یادرکھیں انصاف کرتے وقت ترازو کے دونوں پاٹ برابر نہیں ہوسکتے بلکہ حق والے پاٹ کا بھاری ہونایعنی جھکنا از بس ضروری ہے ۔جس طرح حسینیت ؑاوریذیدیت کے درمیان توازن کاتصور نہیں کیا جاسکتا اس طرح انصاف کاترازوبھی قیامت کی سحرتک حق اورباطل کے درمیان توازن کاگناہ نہیں کرے گا۔

وہ نوازشریف جو1980ء اور1990ء کی دہائیوں میں بینظیر بھٹو کی صورت میں عورت کی حکومت کیخلاف تھا وہ آج اپنی بیٹی کی ایوان اقتدار تک رسائی کیلئے راستہ تلاش کررہا ہے توپھراس سے بڑا یوٹرن اورکیا ہوگا۔ نوازشریف اوربینظیر بھٹو نے اپنے اپنے دورحکومت میں ایک دوسرے کیخلاف متعدد مقدمات بنائے لیکن آج بینظیر بھٹو کے سیاسی وارث اورنوازشریف کے حامی اس وقت ایک ساتھ اقتدارمیں شریک بلکہ شیروشکر ہیں ۔ جس مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے قائدین ماضی میں ایک دوسرے کوسکیورٹی رسک اور غدارکہا کرتے تھے اب وہ ایک ساتھ اپنے مدمقابل عمران خان کو وطن دشمن قراردے ر ہے ہیں تاہم کپتان کیلئے عوام کے دیوانہ پن اوروالہانہ پن نے اس کیخلاف حکمران اتحاد کی بلیم گیم کومسترد کردیا ہے ۔ ایک طرف عمران خان نے مینارپاکستان لاہور میں حالیہ عوامی اجتماع کی صورت میں اپنے پچھلے کامیاب ترین اجتماعات کاریکارڈ توڑدیا جبکہ دوسری طرف مریم نواز کیلئے پنجاب بھرمیں جلسوں کااہتمام کیا جارہا ہے جہاں یہ لوگ عوام کو" راشن" کیلئے بلاتے ہیں اورانہیں وہاں"بھاشن "بھی دیاجاتا ہے تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہنوز پنجاب کے اندر عوام سے رجوع نہیں کیا ،شاید ان کی دلچسپی سندھ اور"مرکز" پر"مرکوز"ہے ۔امریکا پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی پارٹیوں کومتحدکرنے پرکام کررہا تھا،وہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کو"جوڑ تے" اوران کی توپوں کارخ "موڑتے "ہوئے بظاہراپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا تاہم مجھے تعجب ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کوبھی اپنا دشمن بنالیا، میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک ہمدرداورمخلص کی حیثیت سے ملتمس ہوں کسی کوتواپنا حامی بنائے رکھیں۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.