شناخت کا سوال بظاہر بہت سادہ ہے۔ میں کون ہوں یا ہم کون
نہیں ہیں؟ کا جواب اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے. آزادی کے بعد سے ہی ہمارے
ملک پاکستان کی قومی شناخت آزادی کے وقت سے ہی پراسرار پردوں میں چھپی ہوئی
ہے خصوصاً ایسے عہد میں کہ جب فرد، سماج اور قوم کی تعریف ہر لمحہ بدل رہی
رہو، اقدار کے پیمانے لگے بندھے نہ ہوں اور جدیدیت اور مستقبل کوئی ایک
چہرہ نہ رکھتے ہوں. ہماری شناخت فطری نہیں، بلکہ مصنوعی ہے۔ سماج اور اس کے
تشخص کے مابین تعلق اجنبی ہے۔ حالانکہ مذہبی نظریہ، ریاست کے وجود کے لیے
بنیادی توجیح فراہم کرتا ہے۔ آزادی کے بعد بھی جب قوم کی تعریف بیان کرنے
کی کوشش کی گئی تو بھی اسے پاکستانی شناخت ہی بطور واحد شناخت پر مبنی
تنقید سے عاری عقیدے سے جوڑدیا گیا. جس کے نتیجے مں صوبائی شناختیں
پاکستانی قوم پر مبنی ریاستی منصوبے کے لیے مضر کے طور پر رد کردی گئیں.
لیکن جب پاکستان بننے سے ٹھیک 3 دن پہلے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی
سے کی گئی تقریر کو پاکستانی سماج کو لبرل سیکولر قرار دینے کے طور پر
سراہی جاتی ہے. تاہم جب لسانی اقلیتوں اور صوبائی شناختوں کی بات آئی تو یہ
لبرل سوچ ماند پڑ گئی، قائداعظم نے انہیں “برائی کی جڑ“ قرار دیا۔ قائداعظم
ءحمد علی جناح نے کسی اگر مگر کے بغیر ببانگ دہل کہا کہ “ہم بلوچی، پٹھان،
سندھی، بنگالی وغیرہ نہیں بلکہ ہم سب اب پاکستانی ہیں اور ہمیں بطور
پاکستانی ہی محسوس کرنا، برتاؤ اور عمل کرنا ہوگا اور ہمیں کسی دوسری نہیں
بلکہ محض بطور پاکستان ہی اپنی شناخت پر فخر ہونا چاہیئے.
پاکستان میں شناخت کی تشکیل کا عمل ایک تو دیر سے شروع ہوا۔ آئین آزادی
کے بہت بعد وجود میں آیا۔ سیاسی نظم اور سیاسی کلچر نے کوئی صحت مند کردار
ادا نہیں کیا۔ گورننس کی نوعیت نے مزید الجھن پیدا کی۔ سماجی ہیئت
جاگیردارانہ رہی۔ سیاسی وغیرسیاسی قوتوں میں اقتدار کی کشمکش سے حقیقی
مسائل نظرانداز ہوئے۔ اس طرح کے عوامل نے سماج میں کنفیوژن کو جنم دیا۔ اس
صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مخصوص گروہ اور مافیا طاقتور ہوگئے.اس کے
بعد ہم معتدل، تکثیریت پسند مذہبی نیشنلزم کو پروان چڑھا سکے نہ سیکولر
نیشنلزم کو، بلکہ دنیا میں ہماری شناخت ایک دہشت گرد ریاست اور سماج کی بن
گئی۔ اب ہم اس تشخص سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایسے طریقوں کے
ساتھ کہ پھر اسی منزل پر جا کھڑے ہوں جہاں سے ہم نے آزادی کے بعد سفر شروع
کیا تھا۔ ہم اب بھی شناخت اور حقوق کے مابین ربط پیدا نہیں ہونے دینا
چاہتے. آجکل کے ادوار میں شناخت کا تعلق گروہی اور طبقاتی حیثیت میں بھی
ہوتا ہے۔ یہ تعلق نسلی اور لسانی بھی ہے، یہ صوبائی درجہ بندی میں بھی تو
مسلک و فرقہ پرستی یا اسٹیٹس ا ور پروفیشن کے اختلافات کی صورت میں بھی
پایا جاتا ہے۔پاکستان میں گروہی وطبقاتی شناختیں اس کے علاوہ دیگرکئی شکلوں
میں بھی ظہور کرتی ہیں جو بظاہر تو شناخت یا شناخت کے بحران کی بحث سے کوئی
ربط نہیں رکھتیں لیکن غور کیا جائے تو وہ بھی شناخت کی ہی حیثیت میں
اثرانداز ہوتی اور عمل کرتی ہیں اگر ہمیں اپنی مذہبی شناخت صرف بھارت کے
ساتھ تعلقات و تجارت و راہ داری میں سب سے زیادہ اظہار پاتی ہے۔ اور اس کے
برعکس مغربی پڑوس افغانستان کا تعلق ہے تو وہاں پاکستانی ریاست کے لسانی و
بغاوت کے خدشات دونوں کے بیچ مذہبی یگانگت کی بنیاد پر موجود برادرانہ تعلق
پر غالب آگئے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے دوسرے مسلم پڑوسی ملک ایران کے معاملے
میں شناخت میں مسلکی پہلو سر چڑھ کر بہت زیادہ نمایاں ہو گیا خاص کر انقلاب
ایران کے بعد تو یہ سر چڑھ کر اپنی باونڈریوں سے باہر نکل آیا ہوا ہوتا ہے.
اور یہ جب چینی کمیونسٹ ریاست کے ہمراہ سیاسی و وتجارتی و سفارتی ضروریات
کی بنیاد پر دیرپا تعلقات قائم کرنے کی جستجو کی کاوشیشوں کو مدنظر تو یہ
پاکستان کی مذہبی شناخت غیر متعلقہ قرار دے دی گئی۔ کیا اس کی وجہ یہ تو
نہیں کے آزادی وقت مذہب ایک ضروری عنصر رہا لیکن بعد از آزادی کے دور میں
ریاستی امور کو چلانے کے لیے منتخب سرکاری معاملات میں اس کا نفاذ ہوا۔
جبکہ جہاں مذہب اور وحدانیت پاکستان کی تخلیق کے مرکزی نکتے تھے وہیں یہ
سمجھنا کہ کب اس کا استعمال کیا جائے (بھارت سے تعلقات میں)، کب یہ حدود کا
تعین کار بنا (افغانستان اور ایران کے ساتھ) اور کب اسے مکمل طور پر
نظرانداز کر دیا گیا (چین) یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی قومی شناخت کا
کثیر السطحی ہونا کیسے خطے میں اس کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوا ہے۔
آزادی کے وقت پاکستان کی قومی شناخت کی بنیاد جو چیز نمایاں منظر عام آئی
وہ دو قومی نظریہ میں رکھی گئی تھی۔ اس پر سب واضح الفاظ میں قائداعظم نے
مارچ 1940 میں زور دیا جب انہوں نے یہ خیال پیش کیا کہ اسلام اور ہندومت
محض دو الگ الگ مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف نظام زندگی ہیں۔ ”یہ محض ایک
خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قومیت تشکیل دیں۔ ایک مستحکم،
اور پراعتماد پاکستان کی شناخت وہ ہے جو بنیادی طور سے عسکری طاقت کے عزم و
اظہار سے آتی ہے۔ اس میں یہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ امن مادی سلامتی اور
انسانی سماج کے نظریاتی شعور کے لیے اسی قدر اہم ہے جس قدر کہ بذریعہ طاقت
بقا کے حصول پر آمادگی۔
مذہبی یکسانیت کے باوجود لسانی بغاوت کے خطرات بالخصوص پاکستانی پشتونوں کے
افغانستان میں واپس انضمام کے دعوے، افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے
تزویراتی جوڑ توڑ میں حاوی رہتے ہیں۔ یہ خوف تقسیم کی میراث ہے کیونکہ اس
موقع ڈیوریڈ لائین پاکستان اور افغانستان کے درمیان وجہ تنازعہ بنی تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بغاوت کا خوف پاکستان کے افغانستان کے ہمراہ خارجہ
تعلقات کو طے کرتا ہے. نیز طالبان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن تقسلیم کرنے کی
کوئی یقین دہانی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان کے مابین
تعلقات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان ایران کے مابین
تعلقات میں بھی قربت پیدا کرنے کے لیے مسلم یکجہتی ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ یہ
اس وقت مزید تباہی سے دوچار ہوئی جب 1980 کی دہائی میں ایران میں اسلامی
انقلاب آیا جس نے پاکستان کو مسلکی تفریق پر انحصار اور سعودی عرب سے زیادہ
قریبی تعلقات پر مجبور کیا۔ ملک میں متشدد مسلکی جنگجو جہادی گروپ کے پھیل
جانے کے سبب مسلکی تفریق پاکستان کے داخلی دائرہ کار میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
تاہم ایران سے ابھرنے والی بلوچ علیحدگی پسند تحریک پاک ایران تعلقات میں
ایک بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
چین کے ہمراہ پاکستان کے تعلقات کو اکثر موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ایک
اتحاد سمجھا جاتا ہے جس کے پس پشت محرک مشترکہ تزویراتی حریف بھارت ہے۔
تاہم پاک چین تعلقات کو سمجھنے کے لیے یہ غیرضروری حد تک سادہ سا نکتہ نظر
ہے جبکہ یہ تعلقات خطرات کے بارے میں رائے سے کہیں زیادہ یقین دہانیوں کی
بنیاد پر قائم ہیں۔ اس دوران پاکستان کے مذہبی عقائد پس پشت ڈال دیے گئے
تھے کیونکہ چین کو اہم پڑوسی کے طور پر زیادہ دیکھا جا رہا تھا. اویغور کی
مسلم آبادی کے ساتھ چین کے سلوک کے سبب اس پر بڑھتی تنقید کے باوجود
پاکستان نے مسلسل چین کے موقف کی تائید کی ہے.
آزادی کے وقت موجود مذہب اور مذہبی تقسیم اگرچہ مخصوص حالات میں ہی سہی
لیکن آج بھی پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہی ہے کہ پاکستان کی شناخت کا کئی پرتوں پر مشتمل ہونا تنوع کو
ریاستی شناخت کے تشکیلی منصوبے میں مستثنیات کا درجہ دینے سے بچاتا ہے اور
اسے بطور اصول متعارف کروانے کے لیے ماحول فراہم کرتا ہے۔ آخری نکتہ یہ ہے
کہ پاکستان کی شناخت کی قابل بھروسہ تشریح ان تفرقات سے اس انداز میں نمٹنے
کا مطالبہ کرتی ہے کہ جہاں خطے اور بین الاقوامی برداری کے ہمراہ تعاون پر
سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
|