آزاد کشمیر کی اسمبلی کی جانب سے عجلت میں شاردہ کوریڈور
کھولنے کے لئے قرارداد کی منطوری اور پھر اس سے دستبرداری نے ایک نیا دلچسپ
اور فکر انگیزبحث ومباحثہ شروع کر دیا ہے۔لوگ شاردا کو کرتار پور کوریڈور
سے جوڑ کر نتائج و مضمرات کی پرواہ کئے بغیر اس کے حق ا ور مخالفت میں آراء
پیش کر رہے ہیں اور بعض یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ عجلت کے فیصلوں کا
مسلہ کشمیر پر کیا مثبت یا منفی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیرکے ہندو کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں۔وہ شاردا پیٹھ کو انتہائی
متبرک مقام قرار دیتے ہوئے اس تک رسائی اوراسے کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے
ہیں۔ 2019میں کرتار پور کو سکھ برادری کے لئے کھول دیا گیا اور ایک راہداری
بنا دی گئی تو شاردہ کو بھی مقبوضہ کشمیر کے پنڈتوں کے لئے کھولنے کی
بازگشت سنائی دینے لگی۔ نریندر مودی کی جن سنگھی حکومت نے موقعہ غنیمت
سمجھا اور اس پر سیاست چمکانے کا سلسلہ شروع کیا۔بھارتی وزیر داخلہ امیت
شاہ نے گزشتہ دنوں ٹیٹوال میں’’ شاردہ مندر‘‘ کا ورچول افتتاح کیا اور
اعلان کیا کہ اب وہ بھگوان کے کرپا سے شاردہ پیٹھ بھی جائیں گے۔ ٹیٹوال
،مقبوضہ کشمیرکے ایک خوبصورت علاقہ ’’کرناہ‘‘ کا آخری قصبہ ہے جو آزاد
کشمیر کی جنگ بندی لائن پر دریائے نیلم(جسے بھارت میں کشن گنگا کے نام سے
جانا جاتا ہے) کے ایک کنارہ پر آباد ہے۔ٹیٹوال کے سامنے دریا کے دوسرے
کنارہ پر آزاد کشمیر کا چلہانہ گاؤں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ٹیٹوال اور
چلہانہ کو ملانے کے لئے دریائے نیلم پر ایک پل تعمیر کیا گیا اور اسے
کراسنگ پوائنٹ قرار دیا گیا۔ مقامی انتظامیہ کے جاری کردہ ایک سادہ سے پرمٹ
پر کشمیری یہاں سے آر پار مشروط پیدل سفر کر سکتے تھے۔ تا ہم مودی نے
پاکستان اور اسلام کو بدنام کرتے ہوئے اپنی سیاست گری کے لئے سخت گیری تیز
کی اور آزاد کشمیر کے درمیان نصف صدی کے بعد شروع سفر اور تجارت پر پھر سے
روک لگا دی گئی۔اب ٹیٹوال میں شاردہ مندر تعمیر کیا گیا ہے جسے شاردہ تک
پہنچنے کے لئے سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ جب کہ ٹیٹوال میں ایک بھی ہندو
آباد نہیں اور نہ ہی پورے کرنا ہ میں کوئی ہندو آبادی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ نے 22 مارچ کو ایک انوکھا دعویٰ کیاکہ بھارت کرتار پور
راہداری کی طرز پر شاردا پیٹھ کھولنے کے لئے آگے بڑھے گا۔اس کے ایک ہفتہ
بعد ہی آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد منظر عام پر آ گئی۔ کشمیری پنڈتوں نے
بھارتی حکومت کی ایما پر سیو شاردا کمیٹی کشمیر (SSCK) کے نام سے ایک فورم
تشکیل دیا ہو اہے جس کے کنوینر ایک کشمیری پنڈت رویندر پنڈتا ہیں جومطالبہ
کر رہے ہیں کہ شاردا پیٹھ کوریڈور کو پاکستان میں ننکانہ صاحب گرودوارہ اور
کرتار پور کوریڈور کی طرز پر چلایا جائے۔بھارت شاردہ کوہندوستان کے ثقافتی،
مذہبی اور تعلیمی ورثے کا ایک تاریخی مرکزقرار دیتاہے اور بھارتی وزیر
اعلان کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت – وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں –
کرتار پور راہداری کی طرز پر عقیدت مندوں کے لیے شاردا پیٹھ کو کھولنے کے
لئے آگے بڑھے گی۔کرتار پورکوریڈور، جس کا 2019 میں افتتاح کیا گیا، سکھوں
کے دو اہم مقامات - پنجاب کے ضلع گورداسپور میں ڈیرہ بابا نانک اور کرتار
پور، پاکستان میں گرودوارہ دربار صاحب کو جوڑتا ہے - اور زائرین کو ویزہ کے
بغیر سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوشاردہ کو ماہ قراردیتے ہیں۔شاردا کے
مندر کی تعمیر نو شاردا تہذیب کی دریافت اور شاردا رسم الخط کے فروغ کی سمت
کے نام پر بھارتی توسیع پسندانہ حربہ ہے۔ کسی زمانے میں شاردا پیٹھ کو
برصغیر پاک و ہند میں علم کا مرکز سمجھا جاتا تھا، ملک بھر سے علماء کرام
صحیفوں اور روحانی علوم کی تلاش میں یہاں آتے تھے۔ شاردا اسکرپٹ کشمیر کا
اصل رسم الخط ہے جس کا نام شاردا کے نام پر رکھا گیا ہے۔بھارت سمجھتا ہے کہ
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے وادی کشمیر اور جموں ایک بار پھر پرانی
روایات، تہذیب ''گنگا جمنی تہذیب'' کی طرف لوٹ رہے ہیں۔بھارت نے کشمیر میں
123 مقامات پر منظم طریقے سے بحالی اور مرمت کا کام شروع کر دیا ہے جس میں
کئی مندر اور صوفی مقامات بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں 65 کروڑ روپے کی
لاگت سے 35 مقامات کی تزئین و آرائش جا ری ہے۔75 مذہبی اور صوفی بزرگوں کے
مقامات کی نشاندہی کرکے میگا کلچرل پروگرام اور ہر ضلع میں ثقافتی میلے
منعقد کئے جا رہے ہیں۔
شاردہ سطح سمندر سے 1,981 میٹر (6,499 فٹ) بلندی پر دریائے نیلم کے ساتھ،
پہاڑ ہرمکھ کی وادی میں، جسے کشمیری پنڈت شیو کا مسکن قرار دیتے ہیں، واقع
ہے۔ اس نے شاردا رسم الخط کی ترقی اور مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا، جس
کی وجہ سے اسکرپٹ کا نام اس کے نام پر رکھا گیا۔ ''شاردا دیش''۔شاردا پیٹھ
کشمیری پنڈتوں کی یاترا کے تین مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے، اس کے ساتھ
ساتھ مارٹنڈ سورج مندر اور امرناتھ مندر بھی ہے۔البیرونی نے پہلی بار اس
جگہ کو ایک قابل احترام مزار کے طور پر ریکارڈ کیا جس میں شاردا کی لکڑی کی
تصویر رکھی گئی تھی - تاہم، اس نے کبھی کشمیر میں قدم نہیں رکھا اور اپنے
مشاہدات کی بنیاد سنی سنائی باتوں پر رکھی ۔
ٹیٹوال میں شاردا مندر کی تعمیر کا یہ مقصد نہیں کہ بھارت کو کشمیری پنڈتوں
سے کوئی دلچسپی ہے بلکہ کشمیری پنڈتوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جا رہا ہے۔
بھارت دنیا کو گمراہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر پر اپنے دعوے کو تقویت دینے کی
راہیں یا نئے کوریڈور ڈھونڈ رہا ہے۔تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بھارت نے
توپخانے کے گولوں سے وادی نیلم میں نہتے عوام سمیت کبھی شاردا مندر کو بھی
نشانہ بنایا۔ شاردا کا فاصلہ ٹیٹوال سے تقریباً45کلو میٹر ، مظفر آباد
سے136کلو میٹراور کیرن سے 30کلو میٹر ہے ۔شاردا کا محل و وقوع ایک پیالے
جیسا ہے۔ جس کے چاروں اطراف اونچے خوبصورت پہاڑ اور جنگلات ہیں۔ آمنے سامنے
دو پہاڑیاں شاردا اور ناردا کے نام سے موسوم ہیں۔ جن کے بیچوں بیچ ایک نالہ
بہتا ہے جسے مدھو متی کہا جا تا ہے۔ اسی نالے میں ہندو اشنان کرتے تھے۔نواح
میں کشن گھاٹی ہے۔ شاردا کے درمیان سے دریائے نیلم بہتا ہے۔ اسی دریا پر
بانڈی پورہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کشن گنگا پروجیکٹ تعمیرکررہا ہے۔ بھارت
نے اس دریا کا پانی روک کر ڈیم میں ڈال دیا ہے۔شاردہ میں ہزاروں سال پہلے
بدھ ازم کی یونیورسٹی قائم تھی۔ جس کے آج کھنڈرات موجود ہیں۔اسی یونیورسٹی
کی یاد میں بھارت نے دہلی کے قریب شاردا نامی یونیورسٹی قائم کی ہے۔ شاردا
سے ایک راستہ چلاس کے راستے لداخ اور گلگت بلتستان کو جاتا ہے۔ ایک راستہ
ناراں کاغان کی طرف سیکے پی کے کو جاتا ہے۔ کہتے ہیں شاردا سے ٹیکسلا تک
دنیا بھر کے طلباء تحقیق کے لئے محو سفر رہتے تھے۔ شاردا کئی بار جانے کا
اتفاق ہوا۔ وہاں ایک عمر رسیدہ بزرگ نے بتایا کہ ان کے آباء واجداد کہتے
تھے کہ یہاں کبھی دنیا بھر سے بدھ ازم اور ہندو مذہب کے پیروکار گیان کے
لئے آتے تھے۔ یہاں کبھی مہاراجے اورامراء ہاتھیوں پر سفر کرتے تھے۔
میں نے’’کرتار پور کے بعد شاردا‘‘ کے زیر عنوان2019میں اس وقت ایک کالم
تحریر کیا جب شاردا پیٹھ کو کرتار پور راہداری کی طرز پر کھولنے کے مطالبات
زور پکڑنے لگے۔اس وقت پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ بھارتی وزارت
خارجہ کی طرف سے شاردا راہداری کھولنے کیلئے باقاعدہ ایک تجویزپاکستان کو
بھیجی جاچکی ہے۔ عمران خان کے دور میں حکومتی رکن قومی ا سمبلی کو شاردا کا
دورہ کرکے رپورٹ وزیراعظم کوپیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔تحریک انصاف کے
اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمارنے کہا تھا کہ پاکستان نے شاردا
مندرکی بحالی اور راہداری کھولنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے، وہ چندروز میں
شاردا جانے کی بات کر رہے تھے کہ کورکمانڈر راولپنڈی سے ملاقات کے بعد
وزیراعظم عمران خان کورپورٹ پیش کریں گے ، پاکستانی ہندو بھیشاردا جاسکیں
گے، رواں سال ہی یہاں بحالی کا کام شروع کروادیا جائے گا۔متروکہ وقف املاک
بورڈ کے مطابق شاردا مندر آزاد کشمیرحکومت کے زیرانتظام ہے اور وہی راہداری
کھولنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔22مارچ کو بھارتی وزیر داخلہ نے
شاردہ کوریڈور کھولنے کی بات کی اور ایک ہفتہ بعد ہی آزاد کشمیر اسمبلی نے
اس سلسلے میں قرارداد منظور کر لی۔
شاردہ اورکرتار پور میں زمین و آسمان جیسا فرق ہے۔ کرتار پور پاک بھارت
مستقل سرحد پر ہے اور شاردا مقبوضہ و آزاد کشمیر کی عارضی جنگ بندی لائن پر
واقع ہے۔کشمیری چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان تمام قدرتی راستے کھل جائیں۔ یہ
خونی لکیر مٹ جائے۔ کشمیری سیز فائر لائن کو کبھی بھی مستقل سرحد کے طور پر
تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ شاردا ایک متنازعہ خطے میں جنگ بندی لکیر پر واقع
علاقہ ہے ۔آزاد کشمیر کی اسمبلی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس لکیر کو کنٹرول
لائن کے طور پر پکارتے ہیں۔یہ علاہ انتہائی حساس ہے اوریہاں غیرملکی سیاح
بھی این اوسی کے بغیرنہیں جاسکتے تھے۔اس کے بعد حکومت نے این او سی کے بغیر
آزاد کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کی اجازت دی ۔ شاردا کو 237 قبل از
مسیح میں مہاراجہ اشوکا نے تعمیرکروایا ۔ مندرکے قریب ہی مدومتی کا تالاب
تھا، اوریہاں زائرین اشنان کرتے ہیں۔مگر اب یہ تالاب موجود نہیں۔ البتہ
نالہ مدھو متی میں شفاف اور ٹھنڈا پانی بہتا ہے۔ سامنے سے دریائے نیلم
گزرتا ہے۔ کیرن کے جمگنڈ علاقے سے1947ء سے قبل لوگ پوجا پاٹ کیلئے آتے تھے۔
نیلم ایک خوبصورت علاقہ ہے اور مظفرآباد سے کیل تک ایک نیشنل ہائی وے بھی
گزرتی ہے جس کو ٹیٹوال، کیرن کے لوگ اپنے بالکل سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ کیرن
آزاد کشمیر کے ضلع کا حصہ ہے۔ کبھی اس علاقہ کو کشمیر میں’’ دراوا‘‘ کہا
جاتا تھا۔ کیرن اور کرناہ 1947سے قبل ضلع مظفرآباد کے علاقے تھے تاہم جب
تقسیم ہوئی تو نیلم آزاد کشمیر ،آدھا کیرن اور کرناہ مقبوضہ کشمیر میں آگیا
جس کے بعد نہ صرف کشمیری پنڈت شاردا جا سکے اور نہ ہی مسلم آبادی اپنے
بچھڑے ہوئے لوگوں کو مل پائی۔ سال2005میں دونوں حکومتوں نے ٹیٹوال میں
دریائے نیلم (کشن گنگا) پر ایک پل تعمیر کیا جس کے آدھے حصے کو آزاد کشمیر
کی حکومت نے تعمیر کیا اور آدھا حصہ مقبوضہ کشمیر نے، جس کے بعد بچھڑے
لوگوں نے اس پل سے آر پار ہو کر ملاقاتیں کیں ۔
تحریک انصاف کی حکومت میں ایک مکمل منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا۔ان کے اقلیتی
رُکن اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے
پرشاردا پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کیلئے کھولاجائیگا۔ اس کے بعد بھارتی
ہندوؤں کو بھی شاردا آنے کی اجازت دی جائے گی۔ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ
خیر سگالی جذبات کے تحت دوستی چاہتا ہے اور امن سے رہنا چاہتا ہے۔ لیکن
بھارت نے پاکستان کے اس عمل کا کبھی مثبت رد عمل ظاہرنہ کیا، اس نے مسلہ
کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی،
کشمیریوں کا قتل عام اور ماردھاڑ جاری رکھی ۔ صرف مودی کو اقتدار میں لانے
اور پھر اقتدار سے چمٹے رکھنے کے لئے بات چیت کے دروازے مختلف حیلے بہانوں
سے بند کئے گئے۔پاکستان چاہتا ہے کہ وہپڑوسی ممالک کے ساتھ امن قائم کرے۔تا
کہ اپنے مشترکہ دشمنوں،غربت، بھوک،افلاس، بیماریوں،بے روزگاری وغیرہ کیخلاف
بھرپور جنگ لڑیں۔دونوں ملکوں کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے وہ ایک دوسرے
سے مختلف نہیں۔بے روزگاری سب سے بڑ امسئلہ ہے،بیماری اس سے بھی زیادہ
بڑامسئلہ ہے لیکن بھارت میں مودی اور آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہندو
انتہا پسند حکومتیں ان بنیادی مسائل سے نمٹنے کے بجائے صرف جنگ و جدل کی
باتیں کرتی ہیں۔بھارت اربوں کروڑوں کی رقم ہتھیار خریدنے پر خرچ کر رہاہے۔
اگر یہی رقم لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کی جا تی تو آج دونوں ملک
کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوتے۔ بھارت نے پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری
سمجھ لیا۔ دوستی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ بھارتی حکمران جنگ و جدل کی باتوں
کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اورکشمیر سمیت تمام
متنازعہ مسائل کو حل کرنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ شروع کریں۔پھر ہی بات بن
سکتی ہے۔ اسی میں دونوں ملکوں کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔تمام راستے کھلنے
چائیں۔ لیکن یہ سب خونی لکیر کے مٹنے تک مشکل ہے۔ بھارتی توسیع پسندانہ
عزائم کو سمجھے بغیر ،غیر شعوری یا شعوری طور اس پر سیاست کا کوئی فائدہ
نہیں۔
|