عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو فی الحال، بین
الاقوامی سیاسی اور معاشی ماحول کی تغیر پذیری اور پیچیدگی غیر معمولی ہے.
دنیا بھر میں افراط زر، زیادہ قرضے، سست معاشی ترقی اور توانائی اور خوراک
کے بحران جیسے مسائل سامنے آئے ہیں۔ اس صورتحال میں، بہت سے ممالک پائیدار
اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے تعاون کے مواقع تلاش کرنے کی امید
کرتے ہیں. اگرچہ اب بھی "علیحدگی اور آؤٹ سورسنگ" کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ،
لیکن معاشی بحالی کی جستجو میں یکجہتی اور تعاون کا عالمی رجحان ناقابل
تسخیر ہے۔
چین اپنی لچک دار معاشی ترقی کے باعث اس کوشش میں سب سے بڑی محرک قوت اور
یقینی عنصر کے طور پر ابھرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا نے اپنی توجہ چین کی
جانب مبذول کر لی ہے اور چین نے بھی دنیا کے کے لیے اپنے دروازے کھول دیے
ہیں۔حالیہ عرصے کے دوران بیجنگ کی جانب سے تواتر سے تجارتی میلوں اور اہم
فورمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے جو چین اور بیرونی دنیا کے درمیان مثبت
تعامل کو مسلسل گہرا کر رہا ہے۔یہ مثبت پیش رفت اس باعث بھی اہم ہے کہ
گزشتہ ایک دہائی میں عالمی اقتصادی نمو میں چین کا اوسط حصہ 30 فیصد سے
تجاوز کر گیا ہے اور آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق چین رواں سال عالمی
اقتصادی نمو میں ایک تہائی حصہ ڈالے گا۔ چین میں جی ڈی پی کی شرح نمو میں
ایک فیصد پوائنٹ کا اضافہ بھی دیگر ایشیائی معیشتوں میں اوسطاً 0.3 فیصد
پوائنٹ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، حال ہی میں مغربی دنیا میں
بینکوں کی ناکامیوں کے باعث اور ایک مالیاتی بحران قریب آ رہا ہے. تاہم،
چین پر افراط زر یا تفریط زر کا کوئی خاص دباؤ نہیں ہے، اور اس کی مالیاتی
پالیسی میں لچک کی زیادہ گنجائش ہے.یہی وجہ ہے کہ چین کی معیشت اور مالیات
کا استحکام غیر مستحکم بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ کے لئے بھی مثبت اثرات
فراہم کرے گا۔
چین کے نزدیک اس وقت عالمی تعاون کی فوری عملی اہمیت ہے۔ چونکہ کچھ عناصر
رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں ، لہذا دنیا کو ان پر قابو پانے اور ان سے درست
طور پر نمٹنے کے لئے ایک طاقتور قوت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے
تمام فریقوں کی مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین
ہمیشہ امن، ترقی اور تعاون کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی
20 ویں قومی کانگریس سے لے کر حالیہ تجارتی میلوں اورترقیاتی فورمز تک، چین
نے اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو فروغ دینے کے لیے انتہائی مضبوط اشارہ دیا ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی چین کے خلوص اور گرمجوشی کو محسوس کرتے ہوئے ان
سرگرمیوں میں فعال شرکت کی ہے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری کی "ڈی
کپلنگ" کے خلاف مزاحمت کو فروغ ملے گا۔ درحقیقت یہ چیلنج جتنا زیادہ مشکل
ہوگا، اس کے خلاف اجتماعی مزاحمت اتنی ہی مضبوط ہوگی اور اس کا تعین امن
اور ترقی کی مضبوط محرک قوت سے ہوتا ہے۔
چین جیسے بڑے ملک میں معاشی تجارتی سرگرمیوں کا انعقاد نہ صرف یہ ظاہر کرتا
ہے کہ چین معاشی میدان میں دنیا سے پرجوش تعامل کا متمنی ہے بلکہ بین
الاقوامی برادری کو چینی اقدار سے بھی شناسائی کا مسلسل موقع مل رہاہے۔
گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو سے لے کر گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل
سولائزیشن انیشی ایٹو تک، دنیا اور چین کے درمیان تعامل پہلے ہی اقتصادی
اور تجارتی سطح سے کہیں آگے جا چکا ہے، جس کے مثبت اثرات مستقبل میں دنیا
کے ہر کونے میں نمودار ہوں گے اور چین کا بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی
تعمیر کا تصور حقیقی معنوں میں دنیا کو فائدہ پہنچائے گا۔
|