آئین و قانون کی دہائی

پاکستان اس وقت ایک عجیب و غریب کیفیت کا شکار ہے۔سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان ہیں اور کسی کی معقول بات سننے کو تیار نہیں ہیں ۔ہر طرف آئینِ پاکستان کی دہائی دی جارہی ہے حالانکہ سب جماعتوں نے خود ہی آئینِ پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔آئین اگر ذاتی اغراض کی برو مندی کی سیڑھی بنتا ہے تو آئین سے مقدس کوئی دستاویز نہیں لیکن اگر یہی آئین ذاتی اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے تو پھر آئین ِ پاکستان کو کوئی بھی پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔اس وقت بھی ذاتی اغراض و مقاصد اور اقتدار کی خاطر آئینِ پاکستان نشانے پر ہے۔آج کل ہر کوئی آئینِ پاکستان کا چیمپئین بنا ہوا ہے اور اونچے سروں میں اس کا ورد کر رہا ہے لیکن جب اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے تو پھر آئین سے انحراف کی راہ اپنائی جاتی ہے۔جس طرح ہر انسان کا اپنا سچ ہے اسی طرح ہر ایک کا اپنا آئین ہے اور وہ اسی کا راگ الاپتا رہتا ہے۔عمران خان نے دو اسلمبلیوں کی تحلیل کا جو کارڈ کھیلا اس نے ملک کو ایک ایسی غیر یقینی صورتِ حال کے حو الے کر دیا ہے جس کا کوئی حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔غیر یقینی اور مخاصمت نے ملکی معاملات کو اپنی گرفت میں قید کر لیا ہے اور معاشی ترقی کا سفر بالکل منجمد ہو کر رہ گیا ہے ۔ پی ٹی آئی ۹۰ دنوں میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کرنے کی حامی ہے ۔ حکومتی موقف ہے کہ معاشی ابتری کے اس ماحول میں ملک علیحدہ علیحدہ انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔قومی انتخابات جب اسی سال منعقد ہونے ہیں تو ان کے ایک وقت میں انعقاد پذیر ہونے میں کیا چیز مانع ہے؟ پی ڈی ایم کے بقول ملکی خزانہ دو دفعہ کے انتخابی اخرات کا متحمل نہیں ہو سکتا ، اہم ملکی معاملات کی ابتری ا لتوا کی دوسری وجہ ہے،مردم شماری ایک اور بہانہ ہے ، دہشت گردی کی لہر نے بھی معاملہ الجھایا ہوا ہے جبکہ آئین کے تحت نگران حکومتوں کا تصور بھی فیصلوں میں مانع بنا ہوا ہے ۔ پی ٹی آئی ۹۰ دنوں کی دہائی دے رہی ہے جبکہ پی ڈی ایم کمزور ملکی معیشت کا سہارا لے کرکر قومی اور صوبائی انتخابات ایک ساتھ کروانے کا ڈھول پیٹ رہی ہے ۔دونوں کے موقف جاندار ہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ ریاست کی بقا کس میں ہے؟۔

تناؤ کے اس ماحول میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوموٹو ایکش لے کر نو رکنی بینچ تشکیل دے ڈالا جسے سپریم کورٹ کے سیبئر ججز کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ سوموٹو ایکشن والی پٹیشن سپریم کورٹ میں تقسیم اور انتشار کا سبب بن گئی ۔شروع میں جو۹ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا وہ گھٹتے گھٹتے ۳ رکنی بیچ رہ گیا کیونکہ سپریم کورٹ کے سینئر ججزسوموٹو پٹیشن کو سننے کے خلاف تھے ۔ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسے معامات میں دخل انداز نہیں ہو نا چائیے۔یہ سیاست دانوں کے مسائل ہیں لہذا پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنا چائیے۔عدلیہ کی بے جا مداخلت سے معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ چکے ہیں۔چار ججزکے انکاری فیصلے نے سوموٹو ایکشن کی ہوا نکال دی ہے ۔ قاضی فائز عیسی کا تین رکنی بینچ بھی سوموٹو ایکشن پر شنوائی کو روک دینے کا حکم صادر کر چکا ہے۔پی ڈی ایم فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ پی ٹی آئی تین رکنی بنچ کے فیصلے کو حرفِ آخر سمجھتی ہے ہے۔پی ڈی ایم کو اعجاز الاحسن کے کنڈکٹ پر شدید تحفظات ہیں کیونکہ انھوں نے پانامہ کیس میں میاں محمد نواز شریف کے خلاف جس طرح کا کردار ادا کیا تھا اس سے مسلم لیگ (ن) کی صفو ں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اعجاز الاحسن کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بغلی بچہ تصور کرتے ہیں۔سوموٹو پٹیشن کے فیصلہ نے ملکی سیاست میں بھو نچال پیدا کر رکھا ہے۔حکومت اس فیصلہ کی جگہ تین چار کے فیصلہ پر عمل داری پر یقین رکھتی ہے جبکہ پی ٹی آئی فورا انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے ۔ایک جنگ ہے جو دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری ہے جس سے ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔حکومت قاضی فا ئز عیسی کے تین رکنی بینچ کے فیصلہ کو بنیاد بنا کر یہ سارا کھیل کھیل رہی ہے۔اس کا موقف ہے کہ قاضی فائز عیسی کے فیصلہ کے بعد چیف جسٹس کا تین رکنی بنچ سوموٹو پٹیشن سننے کا مجاز نہیں تھالہذافیصلہ کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔حکومت کا موقف ہے کہ ایک فل کورٹ ہی اس بات کا حتمی تعین کر سکتا ہے کہ کیا انتخابی معاملے پر سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے یا کہ نہیں؟پی ٹی آئی احتجاج کی دھمکی دے رہی ہے جبکہ حکومت ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔اونٹ کسی بھی جانب بیٹھ نہیں پارہا اور عوام حیران و ششدر یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ اقتدار کی خاطر ملکی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا جا رہا ہے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر کوئی معقول حل تلاش کریں تا کہ عوام مہنگائی اور بد امنی کی جس اذیت کا ذہنی شکار ہیں انھیں کچھ رریلیف مل جائے۔،۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئینِ پاکستان ۹۰ دنوں میں انتخابی انعقاد کو یقینی بنانے کا حکم صادر کرتا ہے لیکن ابتر ملکی معاملات ،آفت ، زلزلے ، سیلاب ،غیر ملکی حملے،ایمرجنسی اور دھشت گردی کی صورت میں التواء کا حق بھی دیتا ہے۔حکومت اسی حق کا استعمال کر رہی ہے اور ملکی معیشت کی ابتر حالت کے پیشِ نظر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں چند مال کا التوا چاہتی ہے تا کہ سارے انتخابات بیک وقت انعقاد پذیر ہو سکیں۔موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ۱۷ اگست کو ختم ہو جائیگی لہذا قومی انتخابات اسی سال منعقد ہونے اٹل ہیں ۔پی ٹی آئی اس موقف کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ،وہ دو اسمبلیوں کے انتخا بات ۹۰ دنوں کے اندر چاہتی ہے اور قومی انتخا بات اپنے وقت پر۔پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ حکومت کی ناقص گورنس کے پیشِ نظر اس کی جیت کے امکانات واضح ہیں۔عوام موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ ہیں ، مہنگائی نے ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے لہذا وہ پی ٹی آئی کو اپنے مینڈ یٹ سے نوازنے کیلئے تیار ہیں۔عمران خان کسی بھی قسم کا رسک لینے اور حکومت کو کسی بھی قسم کا وقت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ حکومت انھیں کسی نہ کسی مقدمہ میں پھنسا کر نا اہل قرار دے ڈاے گی ، انھیں گرفتار کر لیا جائے گا اور ان کی جماعت پر پابندی لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا جائیگا ۔وہ اپنے خلاف ہونے والے ممکنہ اقدامات سے قبل انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بات کے واضح امکا نات ہیں کہ ان کی خواہش حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے ۔نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں اور وو ٹر لسٹوں کی تیاری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے التوا ء کا جواز تلاش کیا جا رہا ہے ۔آرمی نے دھشت گردی کی کاروائیوں کے تناظر میں عملہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ عدالت فوج کے خلاف کوئی حکم صادر کر دے؟؟فوج کی معاونت کے بغیر انتخابات کا انعقاد نا ممکن ہے کیونکہ امیدوار ھونس دھاندلی سے اپنے اپنے حلقوں میں شفاف انتخابات کو منعقد نہیں ہونے دیتے۔وہ قتل و غارت گری اور لڑائی جھگڑوں سے بیلٹ باکس اور بیلٹ پیپرز اٹھا کر لے جاتے ہیں اور جعلی ووٹگ سے اپنی جیت کو یقینی بنا ناچاہتے ہیں۔ہمارا مشاہدہ تو یہی ہے کہ صرف فوج ایسے نا عاقبت اندیش اور جھگڑالو امیدواروں کو نکیل ڈال سکتی ہے ۔ جب تک فوج انتخابی مراکز کو اپنی تحویل میں نہیں لیتی شفاف انتخا بات کا انعقاد نا ممکن ہے۔فوج کی عدم مو جودگی میں ملک ایک ایسے انتشار اور انارکی کا شکار ہو جائے گا جسے سنبھالنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو کسی ایسے بحران کی نذر نہ کریں جو اس کے وجود پرسوا لیہ نشان لگا دے ۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.