ہفتہ 8اپریل کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز
عیسیٰ نے حافظ قرآن 20 اضافی نمبر کیس میں6صفحات اور 20نکات پر مشتمل
تفصیلی نوٹ جاری کیا۔پہلےدو نکات میںرجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کے بارے
میں لکھا کہ عشرت علی کو ڈیپوٹیشن پر بطور رجسٹرار سپریم کورٹ بھیجا گیا،
عشرت علی کو 3 اپریل کو وفاقی حکومت نے بذریعہ نوٹیفکیشن واپس بلا لیا،
عشرت علی نے وفاقی حکومت کے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا، چار اپریل کو
عشرت علی نے خود کو غلط طور پر رجسٹرار ظاہر کیا۔نکتہ نمبر 3 کے مطابق
رجسٹرار کی جانب سے سرکلر کے تحت نکالا گیا نوٹ 29مارچ کے سپریم کورٹ کے
حکم کو منسوخ نہیں کرسکتا۔نکتہ نمبر4میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 176کے
تابع سپریم کورٹ کی تشکیل بارے وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ
چیف جسٹس اور دیگر ججز پر مشتمل ہوگی، یعنی صرف چیف جسٹس کا مطلب سپریم
کورٹ نہیں ہے۔ نکتہ نمبر5 اور6میںآئین پاکستان کے آرٹیکلز 175(2),184,
185, 186, 186-A, 188, 204اور 212(3)کے تابع سپریم کورٹ کے اختیار سماعت کا
ذکر کیا گیا ہے، ان اختیارات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ فرض کریں
سپریم کورٹ کسی قتل کا مقدمہ خود سننے کا فیصلہ کر لیتی ہے، پھر سپریم کورٹ
اس ملزم کو سزا دے دیتی ہے یا بری کر دیتی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے اس
اقدام کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا، نہ تو آئین نہ ہی قانون نے سپریم
کورٹ کو فوجداری مقدمہ چلانے کا اختیار سماعت دیا ہے، یہ مقدمہ کوئی سیشن
جج چلا سکتا ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں سے دو درجے نیچے ہے، فیملی کورٹ کا
کوئی جج عائلی قانون کے متعلق امور کا فیصلہ کر سکتا ہے، یہ اختیار سماعت
سپریم کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔نکات نمبر 7اور 8میں 4اپریل کے لارجر بینچ اور
حکم نامہ کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اور اگربالفرض
29مارچ کے آرڈر پر نظر ثانی درکار تھی تو نظر ثانی کا اختیار بھی تین رکنی
بینچ کے پاس ہی تھا۔نکتہ نمبر9میں لارجر بینچ کی تشکیل کے طریق کار میں
پائی جانے والی بے ضابطگیوں بارے تفصیلی نوٹ لکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ
اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس ہی نہیں جاری کئے گئے ۔نکتہ نمبر10میں
لارجر بینچ میں شامل سینئر ججوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ، چھ ججوں کو عجلت
میں اکٹھا کیا گیا اسکے بعد سینئر ججوں نے چند منٹوں کی عدالتی کاروائی
کےبعد معاملہ نمٹا دیا۔اگر اس معاملہ کو ضابطے کے تحت چلایا جاتا، نوٹس
جاری کئے جاتے تو چارجونئیر ججوں کو احساس ہوتا کہ انکے سینئر ججز جو کر
رہے ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے۔ نکتہ نمبر11کے آخیر میں
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ 40سال بطور وکیل اور جج قانون کی پریکٹس
کے بعدبھی وہ خود کو قانون کا طالب علم سمجھتے ہیں ، انہوں نے مزید لکھا کہ
تکبر اداروں کو تباہ کردیتا ہے۔ نکتہ نمبر12میں 4اپریل کے لارجر بینچ کے
نوٹ کے حوالہ جس میں چیف جسٹس کو ماسٹر آف رولز کا لقب دیا گیا ہے ، جسٹس
قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ آئین پاکستان یا کسی قانون میں حتی کہ سپریم
کورٹ کے رولز 1980میںبھی چیف جسٹس کے لئے ایسا لقب نہیں ملتا۔نکتہ
نمبر13میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا 4اپریل کے لارجر بینچ کاحکم نامہ
کو آئین اور قانون کا جواز حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ آئین کے برعکس ہے۔نکتہ
نمبر 14میں آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاکہ اس آئین کو بناتے
وقت پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری حاصل ہوئی اور اسی آئین نے وفاق کو باہم
جوڑے رکھا ہوا ہے۔ نکتہ نمبر15میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ جج
آئین کو برقرار رکھنے اور اسکے تحفظ اور دفاع کا حلف اُٹھاتا ہے ، اسلئے
اگر خلاف آئین اختیار سماعت کو اختیار کیا جائے تو جج کے حلف کی خلاف وزری
قرار دیا جائے گا۔ نکتہ نمبر 16 اور17میں قرآن و حدیث اور نبی کریم کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و عملی زندگی کی روشنی میںیہ بتایا گیا ہے
کہ دین اسلام مشاورت کو لازمی قرار دیتا ہے ۔ چیف جسٹس قابل احترام ضرور
ہیں مگر وہ ماسٹر یعنی آقا نہیں ہیں کہ دوسرے جج صاحبان کو غلاموں کی طرح
نہیں چلا سکتے۔اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا مطلب ہے کہ وہ شخص کسی دوسرے کی
رائے کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو
بھی اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور روایات میں آتا
ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ
کرنے والا کوئی نہیں تھا۔نکتہ نمبر 18میں بھوٹان کی بادشاہت اور اسکے بعد
بھوٹان کا بادشاہت کو چھوڑ کر آئین کے تابع ریاستی امور چلانے کے معاملات
کا تذکرہ ہے۔ نکتہ نمبر 19میں ان خطرات کی جانب نشاندہی کی گئی کہ اگر
عدلیہ کے جواز، وقار اور اعتبار پر حرف آیا تو عدلیہ اور پاکستان کے عوام
کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔پاکستان کو سب سے پہلے اس وقت برباد کیا
گیا جب ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل نے قانون ساز اسمبلی غیر آئینی طریقہ سے
برطرف کردی اور سندھ چیف کورٹ کا متفقہ فیصلہ وفاقی عدالت نے منسوخ
کردیا۔اور وفاقی عدالت کے فیصلے نے مستقبل کے آمروں کوسویلین حکومتیں
برطرف کرنے کے قابل بنایا اور سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک اس وجہ سے
دولخت ہوا کہ آئینی انحراف کو عدالتوں کی جانب سے جواز بخشے گئے۔ جسٹس
قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اس نوٹ کے آخری نکتہ نمبر20میں سنہری حروف سے
لکھی جانے والے عبارت اور قانون کے طالب علموں کو پڑھائے جانے کے قابل ہے
کہ "متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے
آئین کو برطرف نہیں کرسکتے"۔ سپریم کورٹ میں پائی جانے والی گروہ بندی اور
ہیجانی کیفیت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز
عیسیٰ کی جانب سے لکھے گئے اس 20نکاتی نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے
انتہائی قلیل عرصہ کے اندر ہٹا دیا گیا۔بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی
جانب سے لکھے گئے تفصیلی نوٹ میں قرآن و حدیث ، آئین پاکستان، مروجہ ملکی
قوانین، تاریخی حوالوں اور کتابوں کا مفصل انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
بحیثیت قانون کے طالب علم مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہورہی
کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ تفصیلی نوٹ قانون کے ہر طالب علم اور
پاکستان کے ہر شہری کو لازمی پڑھنا چاہئے۔
|