صحرائی وادیاں۔ سورج کی تپش۔ ریت پر کرنیں پڑتی ہیں
تو گرم گرم ریت آگ کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب ﷺ
صحرائی زمیں پر بھیجا۔ گلشن کو شاداب کرنا کیا کمال! کمال تو جب ہے کہ
پتھروں کو موم کا جگر عطا کر دیا جائے۔ وادیِ سنگلاخ کو باغ و بہار بنا دیا
جائے۔ رسول اللہ ﷺ آتے ہیں، اس شان سے کہ جن کے ہاتھوں میں پتھر ہوا کرتے
تھے وہ محبتوں کے لالہ و گل بن جاتے ہیں۔ جو بچیوں کو زندہ درگور کر دیا
کرتے تھے، وہ بچیوں کے کفیل و پاسباں بن جاتے ہیں۔ جنھیں عصبیتوں پر غرّہ
تھا وہ محسنِ آدمیت بن جاتے ہیں- صحرائی زمیں کے سخت کوش انساں شفیق و
مہرباں بن گئے۔ مثالی انسان بن گئے:
وہ عہدِ ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے
سخت مزاج ملیح و نرم ہو گئے۔ مثل آئینہ شفاف ہو گئے۔ ہادی و رہبر بن گئے۔
انسانیت کے مسیحا بن گئے۔ یہ انقلاب یوں ہی نہیں آیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے
قدمِ ناز کی برکتیں تھیں، وجودِ مصطفیٰ ﷺ نے وہ انقلاب برپا کیا کہ دل کی
دنیا بدل گئی۔ توحید کا نغمۂ لاہوتی بلند ہوا۔ اذانِ سحر سے صحرائی ماحول
مشکبار ہو گیا۔ وحشت دور ہو گئی-
وادیِ ریگزار میں قافلے رواں دواں ہو گئے۔ اسلام کا پیغامِ صدق و وفا دور
تک پہنچا۔ حضرت صہیب روم سے آئے۔ حضرت بلال حبشہ سے آئے۔ حضرت سلمان فارس
سے آئے۔ رہبر و رہنما بن گئے۔ وادیاں مسخر ہو گئیں۔ کلیاں کھل اٹھیں۔
نبی کونین ﷺ کو بے پناہ اختیارات سے نوازا گیا۔ کامل و اکمل بنایا گیا۔ نبی
آخر الزماں کا منصبِ عظمت عطا کیا گیا۔ اختیارات کا یہ عالم کہ لب اقدس وا
ہوئے اور جھولیاں بھر بھر دی گئیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں:
ہم سفر میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ رفاقت میسر تھی۔ سخت پیاس لاحق ہو
گئی۔ ہم نے بڑی لاچاری کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں مدعا بیان
کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے سامنے موجود برتن میں دستِ اقدس رکھ دیا۔ پھر کیا تھا
پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خُذُوْا بِسْمِ اللہِ .....اللہ تعالیٰ کا نام لے کر (پانی) لے لو۔
ہم نے پیا، وہ ہم سب کے لیے کافی ہو گیا۔ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو
ہمارے لیے کافی ہو جاتا۔
سالم کہتے ہیں کہ: میں نے حضرت جابر سے دریافت کیا کہ آپ لوگ تعداد میں
کتنے تھے؟ انھوں نے بتایا کہ ہم ایک ہزار پانچ سو افراد تھے-(۱)
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجاب رحمت کی ہے جاری واہ واہ
غزوات کی بھی کیا شان تھی۔ شوکتِ اسلام کے مظہر تھے- صحراے عرب کی جھلسا
دینے والی گرمی۔ غزوۂ تبوک میں صحابۂ کرام نے عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ ان کی
استقامت نے دُشمنوں کے کروفر کو سرنگوں کر دیا۔ ایمان کی قوت اور دیدارِ
مصطفیٰ ﷺ کی لذت نے صحابۂ کرام کو نڈر بنا دیا تھا۔ وہ تو متاعِ عشقِ رسول
سے سرشار تھے- حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں:
میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ مسلمانوں نے عرض کیا: یارسول
اللہ ﷺ! ہمارے جانور اور اونٹ پیاسے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے لبہاے مبارک وا ہوئے۔ کیا کچھ پانی موجود ہے؟
ایک شخص مشکیزے میں تھوڑا سا پانی لے آیا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بڑا چوڑا پیالہ لاؤ۔
اس میں پانی ڈالا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس پانی میں رکھ دیا۔
حضرت انس بن مالک اپنا دل افروز نظارہ ایمان افروز مشاہدہ بیان فرماتے ہیں:
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے چشمے اُبل رہے
تھے۔ ہم نے اپنے اونٹوں اور جانوروں کو پانی پلایا۔ اور اپنے مشکیزوں میں
بھی بھر لیا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے پانی کافی ہو گیا؟ عرض کیا: جی ہاں! اے
اللہ کے نبیﷺ! کافی ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست اقدس اٹھا لیا، اس کے ساتھ ہی پانی کی آمد بھی
ختم ہو گئی۔(۲)
اِس طرح کے معجزات بکثرت ہیں۔ ارض صحرا میں پیاسی زباں کو تازگی عطا کرنے
والے ایمان افروز معجزات اگر بیان کیے جائیں تو کیفیت یوں ہو کہ’’سفینہ
چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘
کتبِ احادیث میں جب ایسے معجزات مطالعہ ہوتے ہیں تو روح کا ہر تار ہمنوا ہو
جاتا ہے۔ ایمان جِلا پاتا ہے- عقیدہ و عقیدت کے آنگن میں ٹھنڈی ٹھنڈی
ہوائیں چلنے لگتی ہیں-
حضرت ابوقتادہ فرماتے ہیں:
صحابۂ کرام بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے۔ سورج خوب بلند ہو گیا اور ہر
چیز گرم ہو گئی۔
صحابۂ کرام عرض کر رہے تھے: یارسول اللہ ﷺ! ہم پیاس کی شدت سے ہلاکت کے
قریب پہنچ گئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج تمہاری ہلاکت نہیں ہے۔ ہمارا پیالہ رکھ لو۔ آپ
نے لوٹا منگوایا۔ رسول اللہ ﷺ پانی ڈال رہے تھے اور ابوقتادہ صحابۂ کرام
کو پلا رہے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرو۔ تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔
چنانچہ صحابۂ کرام پرسکون ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ پانی ڈال رہے تھے اور (حضرت
ابوقتادہ کہتے ہیں کہ) میں انھیں پلا رہا تھا۔ یہاں تک کہ میرے اور رسول
اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی نہیں بچا، رسول اللہ ﷺ نے پیالے میں پانی ڈالا اور
فرمایا: پیو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ پہلے آپ پئیں پھر میں پیوں
گا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے،
فرماتے ہیں: میں نے پیا، اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نوش فرمایا۔(۳)
اعلیٰ حضرت اسی حدیث کی توضیح میں دل پذیر مضمون نظم فرماتے ہیں:
نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں
انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام
حوالہ جات:
(۱) دلائل النبوۃ،۱۱/۶، مصباح الظلام فی المستغیثین بخیرالانام علیہ الصلاۃ
والسلام فی الیقظۃ والمنام(پکارو یارسول اللہﷺ)، محمد بن موسیٰ
المزالی،ص۱۰۵
(۲)پکارو یارسول اللہ،ص۱۰۶
(۳)صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ ،۴۷۲/۱،حدیث نمبر
۳۱۱، پکارو یارسول اللہ، ص۱۰۶۔۱۰۷
٭ ٭ ٭
١٣ اپریل ٢٠٢٣ء
|