اپریل کے اوائل میں چین، سعودی عرب اور ایران کے وزرائے
خارجہ نے بیجنگ میں ہاتھ ملایا جسے ریاض اور تہران کے تعلقات میں ایک
تاریخی لمحہ قرار دیا گیا ہے۔ چین کی ثالثی کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی
تعلقات کی بحالی اس امکان کا اشارہ ہے کہ انسانیت تنازعات سے نمٹتے ہوئے
اوپر اٹھ سکتی ہے اور مشترکہ بھلائی کے لئے مفاہمت حاصل کر سکتی ہے۔چینی
صدر شی جن پھنگ کی جانب سے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) کی
تجویز پیش کیے جانے کے تقریباً ایک سال بعد یہ تاریخی پیش رفت سامنے آئی ہے،
جس کا مقصد بین الاقوامی تنازعات کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا، عالمی
سلامتی گورننس میں بہتری لانا، ایک غیر مستحکم اور بدلتے ہوئے دور میں مزید
استحکام اور یقین لانے کے لئے مشترکہ بین الاقوامی کوششوں کی حوصلہ افزائی
کرنا اور دنیا میں پائیدار امن اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔
ریاض اور تہران کے درمیان مفاہمت کے تناظر میں اب مسلسل مصالحتی اقدامات
اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ سفارتی تعطل کو ختم کیا جا سکے اور مشرق وسطیٰ میں
کئی ہاٹ اسپاٹس پر طویل عرصے سے جاری تنازعات کو ختم کیا جا سکے۔مثال کے
طور پر سعودی عرب شام کے صدر بشار الاسد کو عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں
مدعو کرنے پر غور کر رہا ہے جس کی میزبانی ریاض مئی میں کرے گا۔ اس طرح کے
اقدام سے خطے میں شام کی تنہائی کا "باضابطہ خاتمہ" ہو جائے گا۔ اس کے
علاوہ قطر اور بحرین نے حال ہی میں باضابطہ سفارتی تعلقات کی بحالی کا
اعلان کیا ہے۔ ترکی اور مصر نے بھی اپنے تعلقات کو سفیر کی سطح تک بڑھانے
کا عہد کیا ہے۔
متعدد ذرائع ابلاغ اور ماہرین کے مطابق "مفاہمت کی یہ لہر" امن اور استحکام
کے فروغ میں مذاکرات اور مشاورت کے ناگزیر کردار کی گواہی دے رہی ہے۔جنگ
اور پابندیاں تنازعات کا کوئی بنیادی حل نہیں ہیں۔ فروری میں جاری ہونے
والے جی ایس آئی کے ایک کانسیپٹ پیپر کے مطابق، "اختلافات کو حل کرنے میں
صرف بات چیت اور مشاورت مؤثر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج یوکرین کے دیرینہ بحران
کو مذاکرات اور دیگر پرامن طریقوں سے حل کرنے پر دنیا بھر میں اتفاق رائے
بتدریج بڑھ رہا ہے۔اپریل کے اوائل میں چین کے دورے کے دوران فرانسیسی صدر
ایمانوئل میکرون نے شی جن پھنگ کو بتایا تھا کہ فرانس یورپ میں دیرپا امن
کے حصول کے لیے سیاسی مذاکرات کی بحالی اور سفارتی ذرائع سے بحران کے حل کا
مطالبہ کرتا ہے۔مارچ میں شی جن پھنگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن
نے بھی ایک مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ یوکرین بحران کو بات
چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔مبصرین کے نزدیک اگرچہ مغربی سکیورٹی
اسکیمیں بڑی حد تک فوجی مداخلت کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے حق میں ہیں،
لیکن چین کا نقطہ نظر امن اور عالمی سلامتی کے حق میں ہے۔
دنیا دیکھ سکتی ہے کہ امن کے حوالے سے چین کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں
ہے۔ فروری کے اواخر میں یوکرین بحران کے ایک سال مکمل ہونے پر چین نے بحران
کے سیاسی حل کے بارے میں اپنے موقف کی ایک دستاویز جاری کی، جس میں تمام
ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنے، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنے اور امن
مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔اپریل میں چین نے ایک پیپر
جاری کیا جس میں افغان مسئلے پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے افغانستان میں
اعتدال پسند اور دانشمندانہ حکمرانی اور افغانستان میں امن و تعمیر نو کی
حمایت کی گئی ہے۔اس پیپر میں درج نکات گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے پیچھے
چین کے قیام امن کے فلسفے کو اجاگر کرتے ہیں، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ
چین ان مسائل کو حل کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہے۔چین افغان عوام کو حکومتی
نظام کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے اور انہیں معاشی اور ترقیاتی
مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس دستاویز پر عمل درآمد کی روشنی میں افغانستان میں
پائیدار امن آ سکتا ہے جو اس خطے اور دنیا کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
روایتی سیکورٹی معاملات میں اپنی شمولیت کے علاوہ ، چین نے انسداد دہشت
گردی ، ڈیجیٹل گورننس اور موسمیاتی تبدیلی سمیت غیر روایتی سیکیورٹی شعبوں
میں بین الاقوامی تعاون میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ پبلک پروڈکٹس کی متنوع
رینج فراہم کرتے ہوئے، اس نے مختلف سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر، چین اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں دوسرا سب سے
بڑا مالی تعاون کرنے والا ملک ہے. چین نے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران 76
ممالک اور خطوں میں مجموعی طور پر 30 ہزار ارکان پر مشتمل طبی ٹیمیں بھیجی
ہیں، جس سے 290 ملین لوگوں کو تشخیص اور علاج فراہم کیا گیا ہے.
کہا جا سکتا ہے کہ چین کا جی ایس آئی بین الاقوامی برادری کے لیے حقیقی امن
اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے جو ہر ملک کی
خودمختاری کا احترام کرتا ہے، تمام ممالک کے درمیان مساوات کو تسلیم کرتا
ہے، بیرونی مداخلت سے گریز کرتا ہے اور تنازعات کو جنگ کے بجائے بات چیت کے
ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ پائیدار عالمی امن کا حصول دنیا کی
مشترکہ خواہش ہے تاکہ تمام ممالک پرامن اور مستحکم بیرونی ماحول سے لطف
اندوز ہوسکیں اور ان کے عوام اپنے حقوق کی مکمل ضمانت کے ساتھ خوشگوار
زندگی گزار سکیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ جی ایس آئی پائیدار امن، استحکام اور
ترقی کی تعمیر کے لئے ایک نیا راستہ تشکیل دینے کے لئے دنیا کے لئے ایک
محرک قوت بن سکتا ہے اور لازماً بنے گا۔
|