کاش شہباز شریف صاحب آپ حکومت نہ ہی بناتے ۔ یہ الفاظ
ہر مسلم لیگی کے دل سے بے ساختہ نکل رہے ہیں ۔ بطور خاص وہ لوگ جو نواز
شریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور مسلم لیگ ن کو پاکستان کی بہترین سیاسی
جماعت تصور کرتے ہیں ۔ میں یہ بات کہنے کے لیے خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں
کہ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے جتنے
بہترین کام نوازشریف کے چاروں ادوار میں ہوئے ہیں ، پاکستانی تاریخ میں ان
کی مثال نہیں ملتی ۔ کون نہیں جانتا کہ 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی تباہ
کن پالیسیوں کی بدولت پاکستان دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہوا تھا اور
زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابررہ چکے تھے ، ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ
ضلعی سطح کے شہروں میں بیس سے بائیس گھنٹے تک پہنچ چکی تھی، لاہور جیسے بڑے
شہروں میں بھی ایک گھنٹہ بجلی آتی اور دو گھنٹے غائب ہو جایا کرتی تھی ۔
صنعت ، تجارت ، مواصلات اور امور خارجہ سمیت تمام معاملات تباہی کے دھانے
پر پہنچ چکے تھے کہ 2013ء کے الیکشن میں نواز شریف کو چاروں صوبوں کے عوام
نے ووٹ دے کر وزیر اعظم بنادیا تو صفر سے کام شروع کرکے نواز شریف اور ان
کی تجربہ کار کابینہ نے چار سالوں میں پاکستان کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر
پہنچا دیا ۔ اس وقت پاکستان دنیا میں سب تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک
میں شامل ہو چکا تھا ۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین مارکیٹوں
میں شمار ہونے لگی تھی۔ جس میں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں بھی
با اعتماد ہو کر اس قدر سرمایہ کاری کررہے تھے کہ پاکستانی ا سٹاک مارکیٹ
کا گراف 53ہزارسے تجاوز کر چکاتھا ۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر تھے
۔ نہ آئی ایم ایف کا ڈرتھا اور نہ ہی ملک میں اتنی مہنگائی تھی ۔تیزرفتاری
سے بجلی کے اتنے پروجیکٹ مکمل کیے گئے کہ ملک میں گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی
پیدا ہونے لگی تھی ۔ جن ڈیموں کی تعمیر پیسے نہ ہونے کی بناپر رکی ہوئی تھی
ان کی ازسر نو تعمیرشروع کردی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے اس وقت شیخ رشید کا ایک
بیان اخبار میں شائع ہوا تھاکہ شیر پرچون کی دوکان میں گھس گیا ہے اور
لوگوں کو مہنگا ئی کی چکی میں پیسا جا رہا ہے حالانکہ اس وقت مہنگا ئی کی
شرح صرف تین فیصد تھی ۔ لیکن برا ہو ہماری قسمت کا ۔ عمران خان اپنے سہولت
کاروں کے کندھے پر سوار ہو کر دھرنوں ، لانگ مارچوں اور پانامہ لیکس کا شور
مچا کر عوام کو ورغلانے لگے کہ نواز شریف چور ہے اور وہ پاکستان کی دولت لے
کر بھاگ رہا ہے ۔ وہ پاکستانی قوم جو نوازشریف کے اچھے کاموں کو اپنی
آنکھوں سے دیکھ بھی چکی تھی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات بھی حاصل کرچکی
تھی ،عمران خان کی چکنی اور چوپڑی باتوں میں آگئی۔پھر وہ وقت بھی آگیا جب
عمران خان نے اپنی تقریروں میں اتنا زہریلا پروپیگنڈہ شروع کیا کہ پاکستان
کے معصوم عوام اسے اپنا نجات دھند ہ سمجھ بیٹھے ۔عمران خان کی یہ بات عوام
کے دل میں گھر کر گئی کہ ہمیں دو نہیں ایک پاکستان چاہیئے جس میں شیر اور
بکری اکٹھے پانی پی سکیں، طاقت ور اور کمزور کے لیے بھی ایک قانون ہونا
چاہیئے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستانی عوام جن کا حافظہ کچھ زیادہ ہی
کمزور ہے وہ عمران کی باتوں میں آگئی اورانہیں اپنا نجات دھندہ سمجھنے لگی
۔عمران کی تمام شخصی خامیوں اور قد م قدم پر بولے جانے والے جھوٹ کو سچ
سمجھ بیٹھی ۔ابھی تین دن پہلے کی بات ہے کہ ٹی وی پر ایک سلائیڈ چل رہی تھی
کہ عمران خان جسے ثاقب نثار نے صادق اورا مین قرار دیا تھا، اسی عمران کے
حوالے مفتی محمد سعید کا ایک بیان دکھایا جا رہا تھا کہ عمران خان نے عدت
پوری ہونے سے پہلے ہی جھوٹ بول کر بشری بی بی سے اس لیے نکاح کرلیا تھا کہ
اگر اس نے جنوری میں نکاح نہ کیا تو وہ وزیراعظم پاکستان نہیں بن سکے گا ۔
ہماری بھولی پاکستانی قوم کو اتنا بھی نہیں پتہ جو شخص بات بات پر جھوٹ
بولتا ہے ،اور جھوٹ کو یو ٹرن کہتا ہے ،جو بات کرکے دوسرے دن اس مکر جاتا
ہے ، جس نے اپنے چار سالوں میں پٹرول 68روپے سے 150روپے کیا تھا ، جس نے
ڈالر 120روپے سے 190تک پہنچایا تھا جس نے گھی کی قیمت 135روپے تھی اسے چھ
سو روپے تک پہنچا دیا جس نے چینی جو نواز شریف دور میں 55روپے ملتی تھی اسے
115روپے تک پہنچا دیا ۔ جس نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا
وعدہ کرکے عوام کو بیوقوف بنایاتھا ، وہی عمران اپنے چار سالہ اقتدار میں
ایک فیصد بھی عمل نہیں کرسکا ۔ لیکن افسوس کہ 10 اپریل 2022ء کو جیسے ہی
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ۔اس کے بعد ایک پھر
پاکستانی عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہر شہر اور گاؤں میں عمران خان نے
جلسے شروع کر دیئے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو گا جب ان کا کوئی بیان ٹی
وی چینلز پر آن ایئر نہ ہو رہا ہو۔ وہی شخص ایک سو سے زیادہ مقدمات کا
سامنا کرنے کی بجائے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف دہشت
گردی پر تلاہوا ہے۔ وہ جو کہا کرتاتھا کہ قانون کی نظر میں طاقت ور اور
کمزور کو ایک ہونا چاہیئے وہی شخص اب قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو
اپنے پاؤں تلے کچل رہا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ میاں شہباز شریف کی
قیادت میں اگر اتحادی حکو مت نہ بنتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔ عمران خان کا اصل
چہرہ عوام کے سامنے آ چکا ہوتا لیکن شہبازشریف اور ان کے وزرائے خزانہ کی
بد ترین پالیسیوں اور آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جارہے
ہیں انہوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے ۔مختصرا یہ کہ شہباز شریف کے دور
حکومت میں ہر چیز کی قیمت میں دو سو گنااضافہ ہوچکا ہے ۔سبزیاں ، پھل ،
آٹا، چینی ، چاول ،گھی حتی کہ اشیائے خورد ونوش کی ہر چیز کی قیمت کو اس
سطح پر پہنچا دیا ہے کہ ایک بار پھر لوگ عمران خان کی طرف امید بھر ی نظروں
سے دیکھ رہے ہیں ۔ عمران خان کا چارسالہ دور لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکا
ہے، موجودہ اتحادی حکومت کے تمام مظالم جو وہ آئی ایم ایف کے نام پر عوام
پر کوڑوں کی شکل میں برسا رہی ہے ،اس سے مسلم لیگ ن سے بھی عوام کی نفرت
آسمان پر پہنچ چکی ہے ۔ اب اگر وہ کہیں کہ لوگ ایک بار پھرمسلم لیگ ن کو
ووٹ دیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہوگی ۔اس میں شک نہیں کہ جو لوگ
پہلے مسلم لیگ ن کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیاکرتے تھے ان کے دلوں میں بھی
مسلم لیگ ن کے بارے میں نفرت کے انبار لگ چکے ہیں اوروہ بدترین معاشی حالات
کا شکار ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں۔مختصریہی کہوں گا کہ کاش میاں شہباز شریف
جو امانت ، دیانت اور بہترین منتظم کے طور پر دنیا بھر میں مشہور تھے ،ان
کی مقبولیت کا گراف اب صفر سے بھی نیچے جارہا ہے ۔ اب آنے والے الیکشن میں
عمران خان کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔الیکشن 14مئی کو ہوں یا
8اکتوبر کو عوام مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دے گی ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ
شہباز شریف حکومت عوام کی نظروں سے تو گرہی چکی ہے ۔ عدالت عظمی کو بھی
اپنا دشمن بنا لیا ہے ۔اب موجودہ حکومت کے مستقبل کا انحصار سپریم کورٹ کے
فیصلے پر ہے کہ وہ وزیراعظم رہ بھی سکیں گے یا تاحیات نااہل ہو جائیں گے
۔کاش شہباز شریف حکومت نہ ہی بناتے تو کتنا اچھا ہوتا ............ |