روشنیوں کا شہر کراچی

سورج کی پہلی کرن کے ساتھ پھیلتی روشنی، انگڑائی لیتی ہوائیں، ساحل پر اُڑتے پرندے، دور کہیں بیچ سمندر چلتی کشتی اور اس سے پھینکا جانے والا جال، سرگوشیوں سے باتوں میں بدلتی لہریں، اونٹ کی گردن میں ہلکورے لیتی گھنٹی کی نرم آوازیں، اور ٹریفک کی دبی دبی آواز سے بڑھتا شور، یہ سب جس شہر کے جاگنے کا پتہ دیتی ہیں وہ ہے کراچی

اِس شہر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کبھی سوتا نہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کراچی چوبیس گھنٹے جاگتا ہے اور اپنے باسیوں کو سننے اور اُن کی راہیں ہموار کرنے کے لیے ہر وقت ہمہ تن گوش رہتا ہے۔

یہ سمندر کنارے ماہی گیروں کی پرانی بستی تھی جسے مائی کولاچی کہا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے اِس شہر کو ترقی دی اور یوں اس کا نام بدل کر کراچی ہو گیا۔ اور کراچی کو بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے دارالحکومت کا درجہ ملا۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ کاروبار اور روزگار کے لیے کراچی آنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ شہر کی آبادی بڑھی، بلند بالا عمارات تعمیر ہوئیں، ساحلِ سمندر پر سیاحوں کا رش ہونے لگا اور آج روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والا کراچی پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز ہے۔

سن 1959 میں دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد آج تک کراچی کو سندھ کے دارالخلافہ ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ترقی کرتا روشنیوں کا شہر دیکھتے ہی دیکھتے نایاب اور قیمتی موتیوں کی آماجگاہ بن گیا۔
ساحلِ سمندر کے گرویدہ لوگ
کراچی کے باسی ہوں یا دوسرے شہروں اور ملکوں کے سیاح، سب ہی اس کی گہرائی میں چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے کھچے چلے آتے ہیں۔ دن بھر کی تھکا دینی والی مصروفیات اور بھاگ دوڑ اُنہیں سیرگاہوں اور تفریحی مقامات پر تازہ دم ہونے کے لیے کھینچ لاتی ہے۔ ساحلِ سمندر ہر چھوٹے، بڑے، جوان اور بوڑھے کا ہر دلعزیز ہے۔ کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والا شہری چاہے وہ امیر ہو یا غریب، بخوشی ساحلِ سمندر کا رُخ کرتا ہے۔ سمندر کی گیلی ریت پر ننگے پاؤں چلنے کا لطف ہی اور ہے، ڈوبتے سورج کے نظارے کا سحر ہی الگ ہے، اور گھوڑے یا اونٹ کی سواری سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا مزہ دوبالا کر دیتی ہے۔ سمندر کے مختلف مقامات میں منوڑہ بیچ، ہاکس بے اور نیلم پوائنٹ مشہور ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی مذہبی تہوار ہو یا تاریخی دن، سب شہری ساحلِ سمندر کو اولین ترجیح دیتے ہیں جو ایک سستی اور پُر لطف سیر گاہ ہے۔

کھانے اور شاپنگ کے شوقین افراد کے لیے متعدد مقامات
شاپنگ، کھانا پینا اور تفریح کا ایک ساتھ پروگرام ہو تو اکثر سب سے پہلے پورٹ گرینڈ کا نام سامنے آتا ہے۔ پورٹ گرینڈ سمندر کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے سب میں مقبول ہے جہاں ایشیا کی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ سے لے کر شاپنگ کے لیے اسٹالز بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مخلتف رنگا رنگ پروگرام بھی منتعقد کیے جاتے ہیں جن میں موسیقی سے لُطف اندوز ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

دو دریا وہ مقام ہے جہاں شہری سمندر کی کھلی آب و ہوا کے ساتھ بہترین کھانوں سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ نہاری، کڑاہی، بریانی، حلیم، کباب اور بے شمار کھانوں کی لذت سے پرانے کراچی کا علاقہ برنس روڈ بھرا پڑا ہے جو مزیدار اور چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کو یہاں مدعو کرتا ہے۔

بوٹ بیسن ایک ایسی سڑک ہے جہاں پر رات گئے تک کھانا کھانے والے افراد کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اِس سڑک پر متعدد ہوٹل ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ تمام لذیز اور چٹ پٹے کھانوں کے علاوہ دو مشہور چیزیں ایسی ہیں جن سے کراچی میں رہنے والے تقریباً سبھی افراد دور نہیں رہ سکتے، وہ ہے پان اور کڑک چائے۔ جبکہ خواتین اور بچوں میں میٹھا پان زیادہ مقبول ہے۔

پی اے ایف میوزیم
پاک فضائیہ عجائب گھر جو پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) میوزیم کے نام سے جانا جاتا ہے، شاہراہِ فیصل پر کارساز فلائی اوور کے قریب واقع ہے۔ میوزیم کے پارک میں ایئر فورس کے استعمال شدہ بہت سے ایئر کرافٹ، ہتھیار اور راڈار نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

میوزیم کے ہال میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے سکیل ماڈلز، 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی حدود میں گرنے والا بھارتی طیارہ ،جدید طیاروں کی تصاویر، ایم ایم عالم کا مجسمہ اور قائدِ ملت محمد علی جناح کے زیر استعمال رہنے والا ایئرکرافٹ شامل ہے۔

حال ہی میں پاکستانی نوجوان پائلٹ حسن صدیقی کے ہاتھوں مار گرائے جانے والے بھارتی فوج کے پائلٹ ابھینندن کا مجسمہ بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

کراچی کے نامور مالز اور مارکیٹس
ڈولمن مال، فورم، پارک ٹاور، اوشین مال، لکی ون اور ملینیئم مال کراچی کے وہ مشہور اور ماڈرن مالز ہیں جو مکمل طور ایئرکنڈیشنڈ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ جہاں مشہور برینڈز کی آؤٹ لیٹ اور فوڈ کورٹ سے لے کر پلے لینڈ بھی موجود ہیں۔ سینما ہالز اور بڑے بڑے گراسری سٹورز بھی یہاں پر قائم کیے گئے ہیں۔ کراچی کے مشہور اور نامور بازاروں میں طارق روڈ، زینب مارکیٹ، حیدری مارکیٹ اور پرانی ایمپریس مارکیٹ شامل ہے۔

تاریخی اور ثقافتی مقامات
تاریخ اور ثقافت کی بات کی جائے تو یہاں سالوں بیت جانے کے بعد بھی بےشمار مقامات پرانے سندھ کی جھلک دکھاتے ہیں جن میں مزار قائد، نیشنل لائیبریری، وزیر مینشن، عبداللہ شاہ غازی کا مزار، موہٹا محل، نشاط سینما، پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ اور ہوائی اڈہ جیسے نام ہیں۔

مشہور مقامات: عجائب گھر ، پاکستان ایئر فورس میوزیم، قومی عجائب گھر، میری ٹائم میوزیم، موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر، ، میری ویدر ٹاور، فریئر ہال، خالقدینا ہال، ، گورنر ہاؤس، سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل، سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)، ہندو جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے)، ایمپریس مارکیٹ، سندھ کلب، جب کہ جزائر میں کلفٹن آئسٹر روکس، منوڑہ، بنڈل، بھٹ شاہ، وغیرہ
قیام پاکستان کے لئے برصغیر کی سطح پر راہ ہموار کی۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں مولانا دین محمد وفائی، شمس الدین بلبل، حکیم فتح محمد سہوانی، مولانا محمد عبدالحئی حقانی، جناب مولانا ظہور الحسن درس، جناب حبیب اللہ فکری، جناب عبدالکریم عزمی، جناب حافظ نیاز احمد نمایاں تھے۔

کراچی شہر برطانوی عہد کے ابتداء ہی سے سیاسی، ادبی، سماجی، ثقافتی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز چلا آرہا ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ میں سب سے پہلے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہی کراچی سے ہوا۔ سندھ کی تاریخ میں سب سے پہلے اخبارات بھی کراچی سے ہی جاری ہوئے۔ ان اخبارات نے سندھ کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ و جوش پیدا کیا۔ اور انہیں تعلیمی میدان میں بھی ہندوئوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ابھارا۔
کراچی سے شائع ہونے والے اخبارروزنامہ جنگ’’الوحید‘‘ نے بھی بھرپور کردارادا کیا۔ جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی اس لحاظ سے بھی قابل فخر ہے کہ یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح سندھ کے مسلمانوں میں تعلیمی و سیاسی شعور اجاگر کرنے کیلئے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ یقینا یہ اہل کراچی کی علمی وادبی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز بن کر اُبھرا۔ اس مدرسے میں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی علم کی پیاس بجھائی۔
کراچی کی ادبی تاریخ میں


کر کراچی کی ادبی دستاویز میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کو دوسال کے لئے کراچی جیل بھیج دیا گیا اس وقت ان کیلکھی ہو ئ نظم ’’کراچی کے قیدی‘‘ بہت مشہور ہوئ، جس کا ایک شعربہت مشہور ہوا تھا۔

کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو لو

سزا بے گناہوں نے پائی، آج ہوتی ہے تم سے جدائی

مولانا محمد علی جوہر جیل میں وقت نکال کر شعر و شاعری بھی کرتے تھے،اپناکلام علی گڑھ بھیجا کرتے تھے۔ قید کے دوران ان کی بیٹی بیمار ہوگئی ان کو اطلاع ملی تو بیٹی کے لئے یہ شعر کہے۔

تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن

اس کو نہیں منظور تو پھرہم کو بھی منظور نہیں

تحریک خلافت نے کراچی کی ادبی زندگی میں ایک نئی رونق بخشی کراچی کے شعراء خلافت کے ابتداء ہی سے اسے اپنی شاعری کا موضوع بناتے رہے تھے۔ سندھ یونیورسٹی نے صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر نجم الاسلام نے ایک رسالہ ’’ برگ گل‘‘ جوہر نمبر شائع کیا اس مجموعے میں شائع ہونے والی نظموں کو دل دہلا دینے والی اورآزادی کی روح پھونکنے والی قومی نظمیں قراردیا تھا
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 308 Articles with 429007 views I am honest loyal.. View More